• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شکیب جلالی

آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے

ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی

آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے

تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط

یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے

کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی

کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے

دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں

مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان

ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے

کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے

ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے پر

آئنے ٹوٹ گئے آئنہ بردار گرے

دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف

نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے

تازہ ترین