• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس پل پل بدلتے زمانے میں جمی جمائی تہذیب کے نوحہ خواں اورانیسویں صدی کے شاعر غالب کو یاد کرنا مجھے اچھا لگ رہا ہے ۔ بیسویں صدی کے ایک ایسا انسان جو بظاہر کسی منضبط فکر آدمی سے جڑا ہوا نہیں تھا ۔ جی ،وہی غالب جنہوں نے ایسے اسلوب حیات کو چلن کیا تھا جس پر یار لوگ اب تک انگلیاں اٹھائے چلے آتے ہیں ۔ جس کے مالی معاملات الجھے ہوئے تھے انہیں سلجھانے کے لیے وہ شاعری سے بھی کبھی کبھار مدد مانگ لیتے تھے کہ بے شک آباء کا پیشہ سپاہ گری تھا مگر وہ تو کب کا چھوٹ چکا تھا ۔

غالب‘ وظیفہ خوار ہو‘ دو شاہ کو دعا

وہ دن گئے جو کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

سلجوقیوں سے نسبی تعلق پر فخر بھی تھا مگر یہ نسبی تعلق کسی لائق ہوتا تو رُکی ہوئی پنشن بحال ہو جاتی جس کے لیے غالب کو مسلسل جتن کرنا پڑے تھے۔ کئی اور بھی دھندے تھے جن میں غالب اُلجھے ہوئے تھے۔ مثلاً اپنے قدر دان ریزیڈنٹ دہلی ولیم فریزر کے مارے جانے کے بعد غالب کا نواب شمس الدین کو اس قتل کے جرم میں پھانسنے اور پھانسی کے پھندے تک لے جانے میں سرگرمی دکھانا ۔محمد حسین قتیل دہلوی کی فارسی کو نیچا دکھانے کے لیے اس کی ذات پر بعد از موت شدید حملے کرنا؛ اسے فرید آباد کا کھتری بچہ کہہ کہہ کر تمسخر اڑانا اور جب دال کا نہ گلنا اور اپنے ہی دوستوں کا فاصلہ کرنے لگنا تو معذرت نامے لکھ لکھ کر انہیں منانا۔ مولوی عبدالقادر رام پوری‘ مولوی کرم حسین بلگرامی اور مولوی نعمت علی عظیم آبادی جیسے فارسی کے اساتذہ کے سامنے سبکسار ہونا۔ درباری شاعر بننے کے لیے ملکہ وکٹوریہ کی خدمت میں درخواست گزارنا اور پھر اس کے جواب کے انتظار میں بے قرار پھرنا ۔ ایک طرف ایمان ‘ عقیدے اور عقیدت کاایسا عمدہ اور اعلیٰ معاملہ ہونا کہ زبان سے بے اختیار سبحان اللہ نکل جائے:

اُس کی اُمت میں ہوں میں‘ میرے رہیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالب‘ گنبدِ بے در کھلا

اور دوسری طرف ایسی انا کا ہونا کہ اندر سے بلاوا نہ آئے تویہ صاحب در کعبہ سے بھی لوٹ آئیں۔ جس بت کافر کو پوجنا آغاز کرنا زمانہ چاہے مخالف ہو جائے اور انہیں لاکھ کافر کہے مگر وہ اپنی لگن اور ہٹ نہ چھوڑنا ۔

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

ایک طرف غالب کا ایمان تھا جو انہیں روکتا تھا اور دوسری طرف کفر جس کی کشش انہیں بے کل رکھتی تھی ۔بجا کہ کعبہ کی جانب ان کی پشت تھی مگر کلیسا کی جانب لپکنا بھی انہیں کھلتا تھا۔ یہ اور اس طرح کے بیسیوں بکھیڑے تھے جو مرزانوشہ کی جان کو لگے ہوئے تھے ۔ ایسی الجھی ہوئی زندگی رکھنے والے شخص کا نصیب دیکھیے کہ دنیا کو بازیچہ اطفال سمجھنے والے اس شاعر کے قلم سے جو اشعار انیسویں صدی میں ٹپکے تھے وہ آج کے زمانے میں زیادہ بامعنی ہو گئے ہیں ۔ غالب کی تخلیقی انفرادیت کی ایک شان یہ بھی ہے کہ ایک طرف وہ تہذیبی آدمی تھے تو دوسری طرف فرسودہ اور جامد رویے بھی انہیں بہت کھلتے تھے ۔ وہ جست لگا کر ان سے الگ ہونے کی للک رکھتے اور یوں اپنی تمنا کے برتے پر دشت امکاں کو نقش پا بنا سکتے تھے۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا ‘پایا

غالب نے جب دشتِ امکاں کو ایک نقش پا کی طرح پایا تھا تو یار لوگوں نے ’’پاپایا‘‘ پر ناک بھوں چڑھائی ۔اس شعر کی عظمت دیکھئے کہ غالب کے قارئین ،یار لوگوں کی پیشانیوں پر پڑنے والی شکنوں کو لائق اعتنا نہیں جان رہے تھے۔ بہت پہلے یگانہ نے ان ساری دلیلوں کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جو غالب کے ذاتی کردار اور ان کی شاعری کے دفاع میں دی جارہی تھیں،ان کے مطابق غالب کا کریکٹر قابل گرفت تھا اور ان کی شاعری میں فنی کمزوریاں اورفارسی ادب کی چوریاں پائی جاتی تھیں ۔ مثلاًغالب نے کہا تھا:

اسد بسمل ہے کس انداز کا، قاتل سے کہتا ہے

کہ مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر

اور یگانہ کا کہنا تھاکہ غالب نے اس شعر کا خیال شیخ علی حزیں قادری کے اس شعر سے اڑایا تھا:

چہ لذت بود از قاتل حزیں نیم بسمل را

کہ در خوں می تپیدو آفریں می گفت بردستش

تاہم انہی یگانہ کے حوالے سے یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے غالب کے اس شعر کو ’’بڑا بانکا شعر ‘‘کہا اور یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ غالب نے شیخ علی حزیں قادری کے خیال کو’’ ترقی ‘‘دِی تھی اور’’ نقل کو اصل سے بڑھا دیا تھا‘‘۔ تو یوں ہے کہ غالب شکنوں نے غالب کو ڈھانے کی کوششیںکیں اور بنایا بھی ،وہ ڈھے تو نہ پائے ، تاہم بلندی پکڑ تے گئے۔ انہیں روکنے والے روکتے ہے مگر وہ انہیں روند کر بڑھتے ہوئے ہمارے زمانے تک چلے آئے ہیں ۔

یادرہے کہ غالب نے اپنے آپ کو’ عندلیب گلشن نا آفریدہ‘ کہا تھا۔نیا زمانہ جس میں ہم غالب کو یاد کر رہے ہیں بہت تبدیل شدہ سہی ‘ بہت آگے کا سہی‘ مگر کون ظالم ہے جو اسے گلشن ناآفریدہ نہ کہے گا۔ اُدھر دِلی اجڑتی تھی اور غالب کے دِل پر چرکے لگتے تھے۔ اِدھر گلوبل ولیج کے نام پر پورا گلوب دہشت کی زد پر ہے اور انسان کا دِل سہما ہوا ہے ۔ وہ نسلی تفاخر جو غالب کو عزیز تھا اب مکمل طور پر مٹنے کو ہے۔ وہ تہذیبی رویے جو غالب کو عزیز تھے اور ان میں ذرا سا بھی بگاڑ انہیں برہم کر دیتا تھا اب مسلسل معدوم ہو رہے ہیں۔ مارکیٹ اکانومی ہمیں مکمل طور پرصارف بنا ڈالنے کے درپے ہے۔ بظاہرہم پر حکم رانی کا دعویٰ رکھنے والے دراصل اپنے معاشی مالکوں کا حق نمک ادا کرنے کے لیے ہمیں صارف ہونے کے آداب سکھانے میں جتے ہوئے ہیں۔ایک دنیا کے انہدام کا منظر غالب کے سامنے تھا اور ایک دنیا کے انہدام کا منظر ہمارے سامنے ہے۔ انیسویں صدی کو غالب مل گیا جس کے کلام میں وہ صدی سما گئی ہے یوں کہ اب ہم گزرے حالات کو اپنے زمانے پر منطبق کرتے ہیں تو غالب ہمارے زمانے کے شاعر لگتے ہیں۔

اب میں ہوں اور ماتم یک شہرِ آرزو

توڑا جو تو نے آئنہ تمثال دار تھا

اچھا یوں گماں بھی مناسب نہیں ہے کہ غالب ہمیں اپنے تہذیبی انہدام اور اپنی نارسائیوں کی وجہ سے ہی یاد آتے ہیں ۔ وہ اپنے زمانے سے نا خوش‘سماجی سطح پر نا مطمئن اور مالی طور پر دبائو میں تھے مگر پھر بھی مکمل طور پر تبدیل نہیں ہو گئے تھے اورنہ ہی اپنے آپ کو اپنی ذات کے اندر سمیٹ لیا تھا ۔ یوں دیکھیں تووہ جدید تر احساس کے انسان تھے :

ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال

ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

غالب نے ایک قدم اپنی صدی میں رکھا تھا اور دوسرا رکھنے کے لیے آنے والے زمانے بھی چھوٹے پڑ گئے تھے۔ اب ہمارے عہد کے شاعر ہیں کہ انہیں کوئی نیا مضمون کم کم سوجھتا ہے ۔ پلٹ کر غالب کو دیکھتے ہیں مرعوبیت ان کے سینے جکڑ لیتی ہے۔غالب کا رنگ لانا چاہتے ہیں وہ گرفت میں نہیں آتا ۔ حالاں کہ غالب کا سا ہونے کے لیے غالب سے مرعوبیت کی نہیں ان کے جیسے تہذیبی شعور کی ضرورت ہے ۔ نئے عہد کے چرکے تہذیبی شعور کے ساتھ ہی وقار کے ساتھ سہے جا سکتے ہیں اور اس کے لیے غالب کی فقط زمینوں کو روندنے کی بجائے انہیں تہذیبی اور حسی حوالوں کے ساتھ بلانا ہو تو انہیں آنے میں کوئی عار نہیں ہے:

مہرباں ہوکے بلالو مجھے چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوںکہ پھر آبھی نہ سکوں

میں اس نئے زمانے میں بھی غالب کے بہت قریب ہوں ۔ غالب کے بھی اور غالب کے وسیلے سے غزل سے بھی ۔ مجھے غالب کو تلاشنے کے لیے گزرے وقت میں نہیں جانا پڑتا کہ غالب خود چلتے ہوئے اپنے زمانے کو ساتھ لے کر آتے ہیں ،اورکچھ اس ادا سے اپناکلام پڑھے جاتے ہیں کہ مجھ پر طلسم روز و شب کے در کھلنے لگتے ہیں ۔ غالب کے وہ اشعار جو ضرب المثل ہوگئے ہیں۔

اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک

اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے

آبرو کیا خاک اس گل کی کہ گلشن میں نہیں

ہے گریباں ننگ پیراہن جو دامن میں نہیں

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

تازہ ترین