’’بابا رحمتا‘‘ نامی خطاب، لقب یا تلمیح کو انہوں نے خود اپنے لئے پسند فرمایا۔ ججوں کے کوڈ آ ف کنڈکٹ میں لکھا ہے کہ جج کو اپنے کام کی وجہ سے کافی شہرت ملتی ہے، اس سے زیادہ شہرت جج کو نہیں لینی چاہئے۔ حال ہی میں چیف جسٹس اسلام آباد نے اسی کی بنیاد پر میڈیا کو ان کی تقریر ریکارڈ کرنے سے روک دیا لیکن جتنی کوریج بابا رحمتے کو ملی یا انہوں نے اپنے لئے پسند فرمائی اس کی پاکستان کی عدالتی تاریخ میں شاید کوئی اور مثال نہ ہو۔ انکے دور میں کمرۂ عدالت میں بنچ میں سے ساتھی جج کو نکال کر چھوٹا بنچ تشکیل دینے کا واقعہ پیش آیا۔ اسی عمل کو تیسرے ساتھی جج نے پھر تحریری حکم میں غلط قرار دیا۔ انہی کے دور میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کو برطرف کرنے کا واقعہ پیش آیا جسے بظاہر بغیر مناسب دفاع کا حق دیئے اور بغیر اوپن ٹرائل کے عجلت میں برطرف کیا گیااور جسے قابلِ تقلید نظیر نہیں کہا جا سکتا۔ انہی کے دور میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس کو سپریم جوڈیشل کونسل نے بغیر کسی اوپن ٹرائل کے بری کر دیا حالانکہ ان کی خلاف قانون بھرتیوں کے بارے میں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ بھی موجود تھاجس کے بعد سپریم کورٹ کے ایک جج استعفیٰ دے گئے تھے۔ وہ تاریخ کے شاید واحد چیف جسٹس ہوں گے جن کے اوپر اس تواتر سے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کے الزامات لگتے رہے۔ یہ اعزاز بھی صرف انہی کے حصے میں آیا کہ سول سوسائٹی کی طرف سے انکے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں داخل کیا گیا جس پر بہت سے معتبر لوگوں کے دستخط موجود تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ڈیم کی حفاظت کیلئے جھونپڑی لگا کر پہرہ دینے کا عندیہ بھی دیا۔ وہی تھے جو بطور چیف جسٹس ڈیم بنانے، قرض اتارنے اور کبھی آبادی کنٹرول کرنے کی خواہشات کا اظہار کرتے رہے۔انہی کے دور میں ایک وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا جس کے سیاسی اثرات کی وجہ سے پاکستان کی سیاست اور جمہوریت پر بہت گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے، یہ عمل پاکستان کی جمہوری اور سیاسی تاریخ کے مخصوص پس منظر میں قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ وہ واحد چیف جسٹس ہوں گے جو حاضر سروس ہوتے ہوئے بیرون ملک چندہ اکٹھا کرنے گئے جس کا پروگرام ایک سیاسی جماعت کے کارکنان اور حمایتیوں کی طرف سے منظم کرنے کا الزام لگا۔ ان کے دور میں سو موٹو، جو اپنے بے پناہ اختیارات، اختیارات کی تقسیم کے تصور سے متصادم ہونے اور قانونی ضابطوں کی کمزوریوں کی وجہ سے متنازعہ اختیار ہے، اتنی زیادہ تعداد میں لئے گئے کہ گنتی مشکل ہو گئی جن کے اگرسیاسی اثرات مرتب ہوئے ہوں تو الگ بات ہے لیکن ان سے نظامِ عدل میں کوئی بہتری آئی، کہنا مشکل ہے۔ انکے دور میں عدلیہ متنازع ہوئی، توہین عدالت کے بہت سے واقعات پیش آئے جس کا بالواسطہ ملک میں آزادی رائے اور آزادی صحافت پر منفی اثر پڑا۔ اگر شہریوںکو عدلیہ پر اعتماد ہو تو ان خلاف ورزیوں کے خلاف دھڑا دھڑ درخواستیں دائر ہوتیں اور بڑے بڑے فیصلے آتے لیکن کیا ایسا ہوا، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ حالیہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین انتخابات اسطرح رہے کہ کئی رپورٹس کے مطابق صرف پانچ فیصد فارم 45پر پولنگ ایجنٹس کے دستخط موجود تھے، اسی طرح آزادی رائے اور آزادی صحافت کا یہ عالم ہے کہ بہت سے سینئرصحافیوں کو کہنا پڑ رہا ہے کہ کہ دور بھی گزر جائے گا۔ لیکن شاید ہی کسی نے ان موضوعات پر ان کی سربراہی کے دوران سب سے بڑے ایوانِ عدل کا دروازہ کھٹکھٹایاہو۔ یہ انہیں کا خاصہ رہا کہ انتظامیہ اور عدلیہ کی تقسیم کی بنیاد پر اٹھائے گئے ہمارے آئینی ڈھانچے کے باوجود وہ تواتر سے صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر ریمارکس دیتے رہے۔ یہ بھی شاید ہماری تاریخ کا انوکھاواقعہ ہو گا کہ ایک چیف جسٹس کیمروں کے ساتھ اسپتالوں کے دورے کر تا ہواور وہ دورے ٹی وی چینلوں اور اخباروں کی شہ سرخیاں بنتے ہوں جبکہ نظام عدل کی حالت ابتر رہے اورزیر التوا کیسوں کے انبار بڑھتے چلے جائیں۔
جمہوریت میں اعلیٰ عہدے رکھنے والی شخصیات حاکم نہیںبلکہ عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں۔ جن ملکوں میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے وہاں اعلیٰ عہدوں پر براجمان شخصیات اپنے دورِ اقتدار میں اپنے عہدے کی طاقت کی وجہ سے جوابدہی کے نظام کو ناکارہ بنا دیتے ہیں لیکن جب عوام ان سے اپنی اعلیٰ عہدوں کی شکل میں تفویض کردہ امانت واپس لیتے ہیں تو انہیں یہ حق بھی حاصل ہو جاتاہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ مذکورہ شخص نے اپنے عہدے کواپنے فرائض کی انجام دہی کیلئے کس طرح استعمال کیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی کارکردگی جانچنے کی بحث ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کھل چکی ہے۔