• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پی کے پی کا نام سنا ہے آپ نے؟ نہیں نا؟ کیسے سنتے۔ ہم پی کے پی والے نہ اخباروں میں بڑے بڑے اشتہار دیتے ہیں۔ بجلی کے کھنبوں پر اپنے بینر بھی نہیں لگواتے۔ ہورڈنگز اور بلبورڈز پر اپنے شہیدوں کی تصویروں کے ساتھ زندہ مردوں اور بونوں کی تصویروں کی نمائش نہیں کرتے۔ ایک چوزے کو مرغا بنا کر پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ پبلسٹی اور ذاتی پروجیکٹس کے بے درد دور میں پذیرائی ضروری سمجھی جاتی ہے مگرپی کے پی کے ہم لوگ ان خرافات سے دور رہتے ہیں۔ ہم انکساری اور خاکساری کے پیرو کار نہیں ہوتے۔ پبلسٹی ہے پیسوں کا کھیل۔ اور ہم ہیں پھکڑ اور کنگلے۔ اپنی پبلسٹی پر ہم دھیلہ خرچ نہیں کر سکتے۔ ورنہ کوئی سبب نہیں تھا کہ آپ پاکستان بلکہ برصغیر اور بر کبیر کی سب پارٹیوں سے بڑی پارٹی کی موجودگی سے بے خبر ہوتے۔ ہم انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر اور سونامی کا محاورہ استعمال نہیں کرتے۔ پی کے پی بذات خود محاورہ ہے۔ رکشہ ہو یا لاری، ہم سب پر بھاری۔
پی کے پی مخفف ہے پا کستان کنگال پارٹی کا۔ ہم دعویٰ نہیں کرتے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ پی کے پی پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ کتنے میمبر ہیں پیپلزپارٹی کے؟ پاکستان مسلم لیگ ن، ق، ف، م کے میمبروں کی مجموعی تعداد کتنی ہے؟ ایم کیو ایم اور اے این پی کے میمبروں کی تعداد کتنی ہے؟ تحریک انصاف کے فاسٹ بالر عمران خان فرماتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے میمبروں کی تعداد ایک کروڑ ہے۔ پاکستان کنگال پارٹی کے میمبروں کی تعداد پندرہ کروڑ ہے۔ اگر کسی کو یقین نہ آئے تو ملک میں بیروزگاروں، مفلسوں، بھکاریوں، لاوارثوں، بیگانوں، منگتوں، فقیروں، ملنگوں، موالیوں، مولائیوں، مستوں، مجذوبوں، حواس باختاؤں، پاگلوں، لولوں، لنگڑوں، اپاہجوں اور ملک میں بھوکے ننگے بے گھر لوگوں کے اعداد و شمار جمع کر کے دیکھ لیں۔ وہ سب پاکستان کنگال پارٹی یعنی پی کے پی کے میمبر ہیں۔ وہ کسی وڈیرے، چودھری، خان، سردار یا جاگیردار کے آدمی نہیں ہیں۔ وہ اللہ سائیں کے آدمی ہیں۔ ان کی تعداد پندرہ کروڑ ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو آپ باوا آدم کا مینڈیٹ کہہ سکتے ہیں۔ ملکی مسائل اور دگرگوں حالات کے پیش نظر پی کے پی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آنے والے انتخابات میں اپنے چیدہ چیدہ امیدوار کھڑے کریں گے۔ اگرکسی امیدوار کی ٹانگیں نہیں ہوں گی تو ایسے اپاہج امیدوار کو پارٹی کی طرف سے مصنوعی ٹانگیں اور بیساکھیاں مہیا کی جائیں گی تاکہ وہ الیکشن میں کھڑے ہو سکیں۔ پارٹی نے فیصلہ کیا کہ قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلیوں کی ایک ایک سیٹ پر اپنا امیدوار کھڑا کرے گی۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتیجے میں قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں کنگال پارٹی کے گنگال چھ جائیں آپ اس بات کی بھی توقع رکھ سکتے ہیں کہ اس مرتبہ پاکستان کا صدر ہماری پارٹی سے ہو گا۔ وہ یا تو لولا ہوگا، لنگڑا ہو گا یا کبڑا ہو گا۔ وہ خواہ مخواہ مسکراتے ہوئے دکھائی دے گا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی موضوع پر کوئی کانفرنس ہو، سیمینار ہو ہمارے صدر پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے وہاں پہنچ جائے گا۔ ہم اسے سمجھانے کی کوشش کریں اور کہیں کہ سرکار آپ ہم کنگالوں کی وجہ سے اتفاقیہ صدر بنے ہیں۔ آپ اتنے پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں۔ اللہ بیلی ہیں۔ آپ پاکستان پر رحم کریں۔ بین الاقوامی سطح کی کانفرنسوں میں مت بولا کریں۔ مگر وہ ہماری ایک نہیں سنے گا۔ ڈھٹائی سے زیر مونچھ مسکراتا رہے گا۔
پاکستان کنگال پارٹی یعنی پی کے پی کے نے اپنی تمام تر توجہ آنے والے انتخابات پر مرکوز کردی ہے۔ ہماری پارٹی کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ہم پارٹی کو اہم سمجھتے ہیں۔ اس لئے پارٹی کا لیڈر، سربراہ پارٹی کے ماتحت ہوتا ہے۔ پارٹی سربراہ کے ماتحت نہیں ہوتی۔ اگر سربراہ یا لیڈر پارٹی اصولوں کے منافی بیان دے، اغیار سے ملاقاتیں کرے اور ان سے بغلگیر ہوتا رہے تو پارٹی ایسے سربراہ یا لیڈر کی چھٹی کر سکتے ہیں آپ نے کے پی کے کو یہ کہتے ہوئے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ قائد نے ہمارے لیڈر نے، یہ فرمایا ہے، یوں فرمایا ہے، ووں فرمایا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پارٹی کا یہ فیصلہ ہے، پارٹی نے عہد کیا ہے، پارٹی نے فلاں پارٹی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی نے فلاں تحریک سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے!
پاکستان کنگال پارٹی نے اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ آنے والے انتخابات میں کے پی کے بھرپور حصے لے گی۔ پہلے مرحلے میں پارٹی نے مناسب امیدواروں کی تلاش شروع کردی ہے جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھنے کے لائق ہوں۔ پینسٹھ برسوں کی روش اور رویے دیکھتے ہوئے ہم نے محسوس کیا ہے کہ اسمبلی میں بیٹھنے کے لئے میمبر کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ ان پڑھ گنوار بھی اسمبلی کے میمبر بن سکتے ہیں۔ ہماری پاکستان کنگال پارٹی میں ایسے میمبروں کی کمی نہیں ہے۔ ہم ان پڑھ، گنوار، جاہل، ناخواندہ اور آگاہی سے محروم ہیں۔ ہم غریب، مفلس، پھکڑ، کنگال، ذہنی اور جسمانی طورپر معذور کیوں ہیں؟ یہ ہم نہیں جانتے۔ اسیمبلی میمبر بننے کے لئے پہلی شرط پر ہماری پارٹی کا ایک ایک ممبر پورا اترتا ہے۔ دوسری شرط نے ہمیں مخمصوں بلکہ پریشانی اور سوچ میں ڈال دیا ہے ۔ دوسری شرط کے مطابق اسیمبلی میمبر بننے کے لئے امیدوار کا بے تحاشہ دولتمند ہونا ضروری ہے لازمی ہے کہ اس کا تعلق پیروں، میروں، سرداروں، چودھریوں، وڈیروں اور رہزنوں سے ہو۔ مزید یہ کہ امیدوار کے آبا و اجداد نسل در نسل اسیمبلی میمبر بنتے رہے ہوں۔
پی کے پی کے پندرہ کروڑ میمبر ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ سب اپنے اپنے طورپر ایسے امیدواروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو اسیمبلی میمبر بننے کی دوسری شرط پر پورا اترتے ہوں۔ فی الحال سب کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ ایسے میں اچانک مجھے اپنے پرانے ساتھی، اپنے رفیق بانکے بالو شاھی کا خیال ذہن میں آیا۔ وہ ہماری طرح پھکڑ اور کنگال تھا۔ مگر وہ ہم سب کی طرح ڈرپوک نہیں تھا۔ لڑائی جھگڑے کرنا اس کا روز کا معمول تھا۔ وہ بے تحاشا لوگوں کو پیٹتا تھا اور کبھی پٹ کر آتا تھا، لہو لہان اور زخمی۔ وہ سائیکلیں چراتا اور جونا مارکیٹ میں بیچ دیتا تھا۔ پھر اس نے موٹر سائیکلیں چرانا شروع کر دیں۔ اس کی کایا تب پلٹی جب اس نے لوگوں سے گاڑیاں چھیننے کا دھندہ شروع کردیا۔ اس نے پہلے طارق روڈ پر پرانی گاڑیوں کا شو روم کھولا اور پھر بعد میں نئی گاڑیوں کے شوروم کا مالک بن بیٹھا۔ وہ شہر کے مختلف حصوں میں اپنے چھ شو روم چلا رہا ہے۔ اس نے کنسٹرکشن کے کام میں ہاتھ ڈالا اور بانکے بالو شاھی سے بانکا بلڈر کہلانے میں آیا۔ آج کل اسکا شمار کراچی کے ٹاپ بلڈرز اور کنسٹرکٹرز میں ہوتا ہے۔ لاوارث لوگوں کی پراپرٹیز اور سرکاری زمین ہتھیانے میں بانکا بلڈر اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اس کے خلاف سیکڑوں کیس اور ایف آئی آر کٹی ہیں۔ مگر اسے سزا نہیں ہوئی۔ کچھ عرصہ قبل بانکے بلڈر نے ایک ایسی عورت سے لو میرج کی ہے جس کا والد ہیروئن اور ہتھیاروں کی بین الاقوامی اسمگلنگ سے وابستہ ہے اور اسیمبلی کا میمبر رہ چکا ہے ۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ بانکے بلڈر نے کے پی کے کی میمبر شپ نہیں چھوڑی۔ آنے والی الیکشن میں وہ ہمارا نمائندہ ہوگا اورانشا اللہ تعالیٰ پاکستان کاصدر بن کر دکھائے گا۔
تازہ ترین