• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا

جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

یہ شعر ہمیں میمو گیٹ میں سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ پڑھتے ہوئے ذہن میں آیا چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل ا ٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ اس کیس سے متعلق کچھ حساس نوعیت کی معلومات ہیں، اس لیے وہ چیمبر میں سن لیں تاہم فاضل چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کدھر ہیں ؟تو ایک درخواست گزار بھی کمرہ عدالت میں موجود نہیں تھا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر درخواست گزار نہیں آتے تو ہم کیوں اپنا وقت ضائع کریں ؟انہوں نے امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر جناب حسین حقانی کا نام لیے بغیر ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی پاکستان نہیں آرہا تو یہ ایک علیحدہ ایشو ہے، اصل سوال یہ ہے کہ کیا میموکمیشن سے اب بھی ریاست کو کوئی خطرہ ہے ؟اب نہ وہ حکومت ہے نہ ہی وہ سفیر،اگر ریاست کسی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی ہے تو کر لے البتہ مجھے اس مقدمہ کے حقائق دیکھ کر کافی حیرانی ہوئی ہے۔کیا مملکت ِخداداد پاکستان،جمہوریت اور ریاستی ادارے اتنے کمزور ہیں جو ایک میمو سے لڑکھڑا جائیں؟کیا ہماری ریاست اور آئین اتنے کمزور ہیں ؟سمجھ نہیں آتی اتنے اضطراب میں کیوں مقدمہ دائر کیا گیا تھا؟عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ اللہ کا بڑا کرم ہے یہ ملک اتنا کمزور نہیں ہے، میمو کیس کے متعلق تمام درخواستیں نمٹا دیں اور درویش کو خوشی ہوئی کہ چائے کی پیالی میں جو اتنا بڑا طوفان اٹھایا گیا تھا چند لمحوں میں اس کی جڑ کٹ گئی۔ناچیز نے اپنے سابقہ کالم میں لکھا تھا کہ ’’دوست کہتے ہیں بندوں کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا،ہم کہتے ہیں ہمارے جیسے ممالک میں آبادی یا بربادی بندوں ہی کے مرہونِ منت ہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے میں جو بالغ نظری جھلکتی ہے وہ خراجِ تحسین کی مستحق ہے۔

سپر یم کورٹ کے ساتھ ساتھ لاہور ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ نے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کی ضمانتیں منظور کرتے ہوئے رہائی کا جو فیصلہ صادر کیا ہے، وہ بھی لائقِ تحسین ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جب شہباز شریف رمضان شوگر مل اور آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کے کبھی چیف ایگزیکٹیو نہیں رہے تو انہیں پکڑا کیوں گیا ہے ؟یہ کیا بات ہوئی کہ بیٹے کو نہیں پکڑنا اور باپ کو ہر صورت پکڑنا ہے۔ لگتا ہے معاملہ کچھ اور ہے۔ اس طرح تو آئندہ کوئی ترقیاتی کام نہیں کروائے گا۔ اس روا روی میں امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت بھی منظور ہو جائے گی۔نیب کے ذمہ داران کو بھی سوچنا چاہیے،یہ کیا بات ہوئی کہ آپ کے وسائل ذرائع سے زیادہ ہیں لہٰذا نصف صدی کا حساب دو۔اس الزام کے ساتھ شفاف اور ٹھوس شہادتوں سے کوئی بے ضابطگی یا مالی کرپشن بھی ثابت تو کرو۔بصورتِ دیگر محض حکومت یا اپوزیشن سے منسلک سیاستدانوں کو تختہ مشق بنانے کے بجائے دیگر شعبہ جات پر بھی یہ اصول کیوں لاگو نہیں کرتے ؟ مسئلہ پی پی یا ن لیگ کا نہیں ہے ۔ہم کہتے ہیںاگر آپ نے اس طرح کے مہمل الزامات پر جناب علیم خان کو پکڑا ہے تو اس کا بھی کوئی جواز نہیں بنتا ۔وہ بھی اس ملک کے ویسے ہی معزز شہری ہیں جس طرح دوسرے ۔باقی سب شہریوں کی طرح سیاستدانوں کے بھی انسانی حقوق ہیں براہِ کرم کرپشن کرپشن کے منفی الزامات پر ایسی کارروائیوں کو بند کیا جائے۔

ہمارے ملک میں کرپشن کے نام پر احتسابی نعرے بازیوں کی ایک طویل تاریخ ہے جس کو شک ہے وہ ایوب، ضیاء اور مشرف کے ادوار کا مطالعہ کرلے۔ افسوس اس حوالے سے ہماری جوڈیشری کا رول بھی قابلِ رشک نہیں رہا ہے لیکن ان دنوں جو چند اوپر نیچے فیصلے آئے ہیں اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ جوڈیشری سارے دھبے دھو دے گی۔حال ہی میں اصغر خاں کیس کے حوالے سے ہماری سپریم جوڈیشری نے جو لائن لی ہے وہ بھی قابلِ تحسین ہے، سانحہ ساہیوال کے حوالے سے بھی درست رہنمائی کی گئی ہے، اس طرح ایک اور فیصلے میں چیف جج صاحب کا یہ کہنا کہ ہم قانون سے ہٹ کر فیصلے نہیں دے سکتے کسی نے تو شروعات کرنا ہیں اگر ملزم اصلی اور شہادتیں نقلی ہوتی ہیں تو ہم آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔ان سب سے بڑھ کر ہم یہاں سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم دو رکنی بنچ کے فیصلے کا جائزہ پیش کرنا چاہتے ہیں فیض آباد دھرنے کے حوالے سے جو 22نومبر سے محفوظ رکھا گیا تھا۔بنچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے 43صفحات کے اس فیصلے کو تو ہمارے نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالتِ عظمیٰ،دستور کی کسٹوڈین اور شارح کی حیثیت سے اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ ریاستی قوانین حکومت اور اداروں سمیت سب پر لاگو ہوتے ہیں۔اداروں کو کسی بھی صورت اپنے مینڈیٹ سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ یہ کسی بھی صورت میں اظہارِرائے کی آزادی کو نہیں روک سکتے اور نہ ہی کسی براڈکاسٹ یا پبلی کیشن میں مداخلت کا اختیار رکھتے ہیں۔جیو اور ڈان کی نشریات مخصوص علاقوں میں بند کی گئی ہیں اور پیمرا اپنے ان لائسنس یا فتہ براڈ کاسٹرز کو تحفظ دینے میںناکام رہا ہے۔ جیو اور بعض دوسرے چینلز کو ان علاقوں میں خصوصی طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور اس بات کا اعتراف خود پیمرا نے عدالت کے سامنے کیا ہے لیکن مقامِ افسوس ہے کہ پیمراانہیں کسی قسم کا تحفظ نہیں دے سکا اورنہ ہی اب تک ذمہ دار کیبل آپریٹروں کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا ہے۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغرخان نے بھی اس تشویش کا اظہار کیا تھا کہ چند افسران سیاسی ایجنڈے پر چل رہے ہیں جبکہ اس کیس میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ اداروں کا بطور ادارہ یا انفرادی سطح پر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا غیر قانونی فعل ہے، ذمہ داروں کے خلاف اپنے حلف سے روگردانی پر سخت ترین ایکشن ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ ’’ریاستِ پاکستان نے 12مئی2007کو کراچی کی سٹرکوں پر ہونے والے پُر امن شہریوں کے قتل اور اقدامِ قتل کے واقعات پر اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کر کے بُری مثال قائم کی ہے جس سے دوسروں کو اپنے ایجنڈے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کا حوصلہ ملا‘‘۔’’اگر متشدد نظریات کے محرکات اور اقدامات کی نگرانی نہ کی جائے تو یہ اکثر ریاست کے خلاف تبدیل ہو کر لوگوں کو دہشت زدہ کر دیتے ہیں اس لیے ہمیں گالیاں دینے والے نفرت پھیلانے والے اور تشدد کے حامی افراد کو تحفظ فراہم نہیں کرنا چاہیے۔اگر کوئی شخص فتویٰ جاری کر کے دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے کوئی ایسی سیاسی جماعت اگر قانون کے مطابق کام نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن کو بھی اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے‘‘۔ عدالت نے اس سلسلے میں قائداعظم کے اقوال بھی پیش کیے ہیں اور اپنے اس فیصلے کی نقول تمام حکومتی شعبہ جات کے علاوہ تمام ریاستی اداروں اور ان کے ذمہ داران کو بھی بھیجی ہیں۔ ہماری نظر میں دہشت گردی و شدت پسندی کی جڑ کاٹنے کے لیے سپریم کورٹ کی اس قابلِ ستائش کاوش سے معاونت حاصل کی جا سکتی ہے اگر اس پر عملدرآمد کروانے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں اس پر مباحثے کروائے جائیں۔

تازہ ترین