• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی ڈی اے، سپیشل آڈٹ کے دوران اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف

اسلام آباد (رانا غلام قادر، نیوز رپورٹر) سی ڈی اے کے شعبہ لینڈ و بحالیات کے سپیشل آڈٹ کے دوران اربوں روپے کی بے ضابطگیوں اور عملہ کی ناقص پرفارمنس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی پارلیمنٹ میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق سی ڈی اے نے اسلام آباد کے مختلف مواضعات میں زمین ایکوائر کی۔ بلٹ اپ پراپرٹی کے ایوارڈ دیئے لیکن ان پر عمل نہیں کیا زمین کا قبضہ لینے میں ناکام رہا جس سے 42960 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ تحقیقات کر کے ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور سی ڈی اے کے مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے جائیں ان مواضعات میں کری، ریہاڑہ، بوکڑا شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کیش پر زمین ایکوائر کرنے کی بجائے لینڈ شیرنگ فارمولا پر زمین ایکوائر کرنے سے 34978 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ زیادہ پلاٹ الاٹ کر کے 835 ملین روپے کا نقصان کیا گیا۔ ان سیکٹرز میں سی تیرہ، سی چودہ، سی پندرہ، سی سولہ، ڈی تیرہ، ای تیرہ اور ایف تیرہ شامل ہیں۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائے اور ذمہ دار افراد سے نقصان کی ریکوری کی جائے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2009ء میں سیکٹر ایچ سولہ اور آئی سترہ ایکوائر کئے گئے مڈل مین نے ایوارڈ سے ایک دو دن پہلے زمین اپنے نام ٹرانسفر کرائی اور فائدہ اٹھا گئے۔ 895 ملین روپے کی خلاف ضابطہ ادائیگیاں کی گئیں جن کی انکوائری کرانے کی سفارش کی گئی ہے۔ سی ڈی اے بورڈ کے فیصلے کی غلط تشریح کی گئی جس سے 835 ملین روپے کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ 340 ملین روپے مالیت کے چیک بغیر منظوری کے جاری کئے گئے سیکٹر سی 15 میں ایک متاثرہ کو چار پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ حالانکہ ان کے دو پلاٹ سیکٹر سی 15 میں بنتے تھےاور دو پلاٹ سیکٹر سی سولہ میں بنتے تھے اس طرح ایک کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق وزارت کی جانب سے الاٹمنٹ پر پابندی کے باوجود 206 پلاٹ الاٹ کئے گئے سیکٹر ڈی تیرہ اور ای تیرہ میں کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کی بجائے مینول طریقے سے من پسند پلاٹ الاٹ کئے گئے ۔یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 43574 ملین روپے مالیت کی اراضی کی میوٹیشن (انتقال) سی ڈی اے کے نام پر نہیں کیا گیا۔ سیکٹر ایچ سولہ اور سیکٹر آئی سترہ ایکوائر کئے گئے مگر قبضہ نہیں لیا گیا اس زمین کی مالیت 13343 ملین روپے ہے ان دونوں سیکٹرز کے بی یو پی ایوارڈ میں بلاجواز غیر معمولی تاخیر کی گئی ۔ سی ڈی اے نے 1989 میں ڈمپنگ سائٹ کے لئے شاہ اللہ دتہ میں 898 کنال زمین ایکوائر کی مگر اسے استعمال میں نہیں لایا گیا۔ زمین کا معاوضہ ادا کرنے کی کیش بک کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا جس کی مالیت 1885 ملین روپے ہے اس طرح 704 ملین روپے کی ادائیگی کا بھی ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ مارکیٹ سے زیادہ ریٹ پر ایوارڈ سنانے سے 401 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ بی یو پی ایوارڈ دیتے ہوئے ملبہ چارجز وصول نہیں کئے گئے جس سے 70 ملین روپے کا نقصان ہوا 50 ملین روپے کی مشکوک ادائیگی کی گئی بعض غیر مستحق افراد کو الاٹمنٹ کی گئی بد انتظامی کی وجہ سے سیکٹر سی 15 کی بجائے سیکٹر سی 16-میں 28 پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ پلاٹ نمبر کے بغیر 51 پلاٹس کی عبوری الاٹمنٹ کی گئی۔ سیکرٹری کی نامکمل رپورٹ کے باوجود 29 پلاٹ الاٹ کئے گئے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2011ء سے اب تک 83 محکمانہ انکوائریاں اسٹیٹ ونگ کے عملہ کے خلاف زیر التواء چلی آ رہی ہیں۔ ڈپٹی ڈی جی لینڈ کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ نائب تحصیلدار کا گریڈ 14 تھا لیکن وہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے اختیارات استعمال کرتے رہے ڈائریکٹر لینڈ کی پوسٹ کو ڈپٹی ڈی جی لینڈ و اسٹیٹ میں تبدیل کیا گیا۔ پوسٹ ختم ہو گئی تھی مگر اس کے باوجود ڈائریکٹر لینڈ کا کام کرتے رہے۔
تازہ ترین