• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10؍ دسمبر 1922ء ساڑھے چار بجے (یہ واضح نہیں صبح کے یا شام کے) مسٹر گولڈی ڈپٹی کمشنر اسپیشل برانچ ایک یورپین انسپکٹر پولیس کے ہمراہ آئے اور مولانا کو دریافت کیا، مولانا اوپر کی منزل میں اپنے نوشت و خواند کے کمرے میں تھے اور مسٹر فضل الدین احمد کو خطوط کا جواب لکھوا رہے تھے، انہوں نے مسٹر گولڈی کو وہیں بلوا لیا، مسٹر گولڈی نے سلام کے بعد کہا، کیا وہ ان کے ہمراہ چلیں گے، وہ انہیں لینے کے لئے آئے ہیں، مسٹر احمد نے پوچھا، کیا آپ کے ہمراہ وارنٹ ہے؟ جواب میں انکار کیا گیا مگر مولانا نے کہا وہ بلا وارنٹ کے بھی جانے کے لئے مستعد ہیں، اس کے بعد وہ اندر مکان میں گئے اور پانچ چھ منٹ کے بعد واپس آ کر جانے کے لئے مستعدی ظاہر کی، انسپکٹر نے کہا، اس قدر جلدی نہ کیجئے، اگر کوئی چیز اپنے آرام کے لئے ساتھ لینا چاہتے ہیں تو لے لیجئے لیکن انہوں نے صرف ایک گرم چادر اوڑھ لی اور کوئی چیز ساتھ نہ لی۔

جاتے وقت انہوںنے صرف یہ کہا ’’کلکتہ اور باہر کے تمام احباب اور قومی کارکنوں کو میرا پیام پہنچا دیا جائے کہ تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں پوری مستعدی کے ساتھ مشغول رہیں۔ مجھے ملنے کے لئے کوئی شخص نہ آئے نہ اپنی جگہ اور اپنے کام چھوڑے، گرفتاریوں کو ایک معمولی اور متوقع واقعہ کی طرح محسوس کرنا چاہئے، کسی طرح کی خلاف معمول اہمیت نہیں دینی چاہئے۔ مجھے بڑا ہی رنج ہو گا، اگر کسی کارکن نے میری ملاقات کے لئے اپنا ایک گھنٹہ بھی ضائع کیا۔‘‘

یہ ہے وہ گرفتاری جس کے بعد امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے انسانیت کے سفر میں عدالتی تاریخ کا جائزہ لیا جسے بعد ازاں ’’قول فیصل‘‘ کا عنوان دیا گیا ہم نے اس ’’قول فیصل‘‘ کی روداد کے لئے ایک شاہکار بک کلب کے شائع کردہ مواد سے استفادہ کیا۔ ہمارا اس روداد کی اشاعت سے کوئی خاص مقصد نہیں، بس یونہی بیٹھے بٹھائے عدالتوں کے موضوع پر مولانا کے خیالات جاننے کو دل چاہا کہ وہ اپنی ہستی میں جنہیں ہر شعبے میں پڑھ کر روح کو غذا، دل کو توانائی اور ذہن کو تازگی ملتی ہے، آپ بھی اب یہ بیان ملاحظہ فرمایئے، البتہ اس حوالے اپنے وطن کے پس منظر پر غور نہ کریں، بصورت دیگر ساری ذہنی بیداری آلودہ ہو جائے گی۔

امام الہندؒ نے فرمایا’’ہمارے اس دور کے تمام حالات کی طرح یہ حالت بھی نئے نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمران طاقتوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں ہتھیار اٹھائے ہیں تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان اور بے خطا ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا اختیار ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور ناانصافی دونوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف گورنمنٹ کے ہاتھ میں وہ عدل و حق کا بہتر ذریعہ ہے لیکن جابر اور ظالم حکومتوں کے لئے اس سے بڑھ کر انتقام اور ناانصافی کا کوئی آلہ بھی نہیں۔‘‘

’’تاریخ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوتی ہیں۔ دنیا کے مقدس بانیانِ مذہب سے لے کر سائنس کے محققین اور مکتشفین تک کوئی پاک اور حق پسند جماعت نہیں ہے جو مجرموں کی طرح عدالت کے سامنے کھڑی نہ کی گئی ہو، بلاشبہ زمانے کے انقلاب سے عہد قدیم کی بہت سی برائیاں مٹ گئیں، میں تسلیم کرتا ہوں کہ اب دنیا میں دوسری صدی عیسوی کی خوفناک رومی عدالتیں اور ازمنہ وسطیٰ (مڈل ایجز) کی پراسرار ’’انکویزیشن‘‘ وجود نہیں رکھتی لیکن میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جو جذبات ان عدالتوں میں کام کرتے تھے، ان سے بھی ہمارے زمانے کو نجات مل گئی ہے۔ وہ عمارتیں ضرور گرا دی گئیں جن کے اندر خوفناک اسرار بند تھے لیکن دلوں کو کون بدل سکتا ہے جو انسانی خود غرضی اور نا انصافی کے خوفناک رازوں کا دفینہ ہیں۔‘‘

عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے، تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہو سکی۔ ہم اس میں حضرت مسیح جیسے پاک انسان کو دیکھتے ہیں جو اپنے عہد کی اجنبی عدالت میں چوروں کے ساتھ کھڑے کئے گئے، ہم کو اس میں سقراط نظر آتا ہے جس کو صرف اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ وہ اپنے ملک کا سب سے زیادہ سچا انسان تھا۔ ہم کو اس میں فلورنس کے فدا کارِ حقیقت گلیلیو کا نام بھی ملتا ہے جو اپنی معلومات و مشاہدات کو اس لئے جھٹلا نہ سکا کہ وقت کی عدالت کے نزدیک ان کا اظہار جرم تھا۔

’’اس جگہ کی عظیم الشان اور عمیق تاریخ پر جب میں غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ اسی جگہ کھڑے ہونے کی عزت آج میرے حصہ میں آئی ہے تو بے اختیار میری روح خدا کی حمد و شکر میں ڈوب جاتی ہے اور صرف وہی جان سکتا ہے کہ میرے دل کے سرور و نشاط کا کیا عالم ہوتا ہے، میں مجرموں کے اس کٹہرے میں محسوس کرتا ہوں کہ پادشاہوں کے لئے قابل رشک ہوں انہیں اپنی خوابگاہِ عیش میں وہ خوشی اور راحت کہاں نصیب جس سے میرے دل کا ایک ایک ریشہ معمور ہو رہا ہے؟ کاش غافل اور نفس پرست انسان اسی کی ایک جھلک ہی دیکھ پائے، اگر ایسا ہوتا تو میں سچ کہتا ہوں کہ لوگ اس جگہ کے لئے دعائیں مانگتے۔‘‘

مولانا ابوالکلام آزادنے اپنے بیان کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا ’’مسٹر مجسٹریٹ! اب میں اور زیادہ وقت کورٹ کا نہ لوں گا، یہ تاریخ کا ایک دلچسپ اور عبرت انگیز باب ہے جس کی ترتیب میں ہم دونوں یکساں طور پر مشغول ہیں، ہمارے حصہ میں یہ مجرموں کا کٹہرا آیا ہے تمہارے حصہ میں وہ مجسٹریٹ کی کرسی، میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس کام کے لئے وہ کرسی بھی اتنی ہی ضروری چیز ہے جس قدر یہ کٹہرا، آئو، اس یادگار اور افسانہ بننے والے کام کو جلد ختم کر دیں، مورخ ہمارے انتظار میں ہے، اور مستقبل کب سے ہماری راہ تک رہا ہے۔ ہمیں جلد جلد یہاں آنے دو اور تم بھی جلد جلد فیصلہ لکھتے رہو، ابھی کچھ دنوں تک یہ کام جاری رہے گا۔ یہاں تک کہ اس دوسری عدالت کا دروازہ کھل جائے، یہ خدا کے قانون کی عدالت ہے۔ وقت اسی کا جج ہے، وہ فیصلہ لکھے گا اور اسی کا فیصلہ آخری فیصلہ ہو گا‘‘۔ 9؍ فروری 1922کو فیصلہ آیا، عدالت نے انہیں ’’ایک سال قید بامشقت‘‘ کی سزا سنائی۔ فیصلہ آنے سے پہلے مولانا کی طرف سے عوام کے لئے ایک ’’ہدایت نامہ‘‘ جاری کیا گیا جس کے اصول اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ کوئی شخص عدالت کی کارروائی دیکھنے کے لئے نہ آئے نہ کسی طرح کا ہجوم سڑکوں پر ہو۔یہ یقینی ہے کہ انہیں سزا کا حکم سنایا جائے گا، پبلک کو چاہئے کہ پورے صبر و سکون کے ساتھ اس کی منتظر اور متوقع رہے، کوئی ہڑتال نہیں ہونی چاہئے نہ کسی طرح کا غیر معمولی مظاہرہ کرنا چاہئے۔ لوگ جیل کی طرف بھی ہجوم نہ کریں نہ انہیں دیکھنے کے لئے جدوجہد کریں، صرف اپنی معمول کی روزانہ جدوجہد جاری رکھیں ۔

بعض کارکنانِ خلافت و کانگریس نے غلطی سے کارخانوں اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والوں کو ہڑتال کے ارادے سے نہیں روکا تھا اور خاموشی اختیار کر لی تھی۔ جب مولانا کو معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً رکوا دیا اور ہر جگہ یہ بات پہنچا دی۔ ہڑتال اور مظاہرہ نہ صرف اصول کے خلاف ہے بلکہ مقاصد کے لئے بھی مضر ہے۔

ایک عوامی پس نوشت

ملک کے یتیم، غریب، مساکین اور مستحقین ملک کے سربراہ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ ایک عرصہ سے زکوٰۃ کا فنڈ بند کر دیا گیا ہے اور ابھی تک بیت المال لاہور کا سربراہ منتخب نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ بتائی جائے اور کب تک یتیموں کا حق اُن تک پہنچے گا۔ مزید لاہور میں گزرنے والی ایمبولینسز کو مخصوص راستہ دینے کا پلان کب بنایا جائے گا۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک قوانین کو سخت کیا جائے اور سڑکوں پر بورڈ آویزاں کریں کہ دو لائنوں سے تین بنانے والوں کو جرمانہ ہو گا تاکہ ٹریفک کے بہائو کو تیز کیا جائے اور ایمرجنسی اور ایمبولینس کے لئے ایک مخصوص لائن چھوڑی جائے۔ مزید دھرمپورہ سے ہربنس پورہ روڈ پر ’’قاتل روڈ ‘‘ جہاں اب تک دس سے زیادہ لوگ سڑک عبور کرتے ہوئے ہلاک اور بے شمار زخمی ہو گئے ہیں ان پر اوور ہیڈ گزرگاہیں فوری طور پر بنائی جائیں۔ صحافی برادری اور سب چینل ترجیحاتی بنیاد پر حکومت کی توجہ اس طرف مبذول فرمائیں جزاک اللہ خیر!

تازہ ترین