اس بات سے ہم سب بہ خوبی واقف ہیں کہ جنگ مسائل یا کسی بھی تنازعے کا حل نہیں بلکہ خود ہی مسئلہ ہے،جس سے بچنے کے لیے کئی راستے موجود ہوتے ہیں،لیکنجبسرحدوں پر کشیدگی یا جنگ کی حالت پیدا ہوجائے تو اس سے نمٹنے کے لیے بھرپور صلاحیتوں کا ہونا بھی لازمی ہے۔یقیناً حربی صلاحتیں اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں لیکن دشمن کے آگے قوم اور جوانوں کا جذبہ جنوں اور حوصلہ بلند کرنے کے لیےہرسطح پر ہی کوشش کی جاتی ہے،فن و ثقافت کے میدان میں اگر بات کی جائے تو1965کی جنگ میں ہمارے فنکاروں نے جو تاریخی کردار ادا کیا وہ زندہ و جاوید ہے۔حالت جنگ میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے جوش و ولولے سے بھرپور جنگی نغمات وطن کے محافظوں کے ساتھ عوام کے لہو بھی گرمانے کی صلاحیت رکھتے تھے،اس دوران تخلیق کیے جانے والے ملی نغمے اور جنگی ترانے آج بھی لہو کو گرما دیتے ہیں۔چھے ستمبر کی صبح صدرِ پاکستان ایوب خان کی تقریر نشر ہوئی جس میںانہوں نےقوم کومادر وطن پر بھارتی حملے کے بارے میں بتایا اور جنگ کا اعلان کیا گیا۔ اس تقریر کے فوراََ بعد گلوکارہ منور سلطانہ، دھنی رام اورغلام فرید قادر فریدی کی آواز میں تنویرنقوی کا لکھا ہوا فلمی گیت نشر ہوا:
آواز دے رہا ہے زمانہ بڑھے چلو
جب صدرپاکستان نے اپنی تقریر میںکہا، ’’ ہندوستانی حکمران ابھی نہیں جانتے کہ اُنہوں نے کس قوم کو للکارا ہے‘‘ اس جملے کو بنیاد بنا کر حمایت علی شاعر نے گیت لکھا’’اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکارا، لے ہم بھی ہیں صف آرا‘‘اس گیت کوگلوکار مسعود رانا اور شوکت علی نے زبردست جوش و ولولے کے ساتھ ریکارڈ کرایا تھا۔ اِس قومی نغمے کو جنگِ ستمبر کا پہلا ریڈیو جنگی نغمہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ اسی طرح ان ہی دنوں بننے والی فلم ’’مجاہد‘‘کا ملی نغمہ بھی بہت مقبول ہوا ،اسے بھی حمایت علی شاعر نے لکھا تھا،جس کے بول تھے،
’’ساتھیوں مجاہدوں ،جاگ اٹھا ہے سارا وطن‘‘
بلاشبہ یہ نغمہ آج بھی وطن کی فضاؤں میں گونج رہا ہے۔اس کی موسیقی خلیل احمد نے ترتیب دی تھی،جبکہ گلوکار مسعود رانا اور شوکت علی نے اپنےمخصوص پرجوش انداز میں اسے گایا تھا۔گلوکار سلیم رضا وہ پہلے گلوکارہیں جو خود ریڈیو پاکستان لاہور آئے اور ملک و قوم کے لئے بلا معاوضہ اپنی خدمات پیش کیں۔یہ بھی ان کا اعزاز ہے کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نغمات انہوں نے ہی ریکارڈ کروائے۔مثلاََ‘ نغمہ نگار اُستاد دامن کا’ میرے لاہور شہر دیاں خیراں، قیوم نظرکا گیت ’ جُگ جُگ نگری داتا کی‘، انقلابی شاعرحبیب جالب کاولولہ انگیز نغمہ ’ توحید کے متوالو ! باطِل کو مٹا دیں گے‘ اور ناصر کاظمی کا ’ تو ہے عزیزِ ملت نشا ن ِحیدر‘ مقبول ہوئے، یہ قومی نغمہ سلیم رضا کی آواز میں عزیز بھٹی شہید نشان ِ حید کے لیے خراجِ تحسین کے طور پر پیش کیا گیا تھاہے۔ملکہ ترنم نور جہاں نےبھی بلا معاوضہ جنگی نغمے ریکارڈ کروائے۔ انہوں نے اپنی آواز کا نذرانہ جن ترانوں کی صورت میں پیش کیا ان میں غلام مصطفیٰ تبسم کے لکھے گئےنغمے’’میرے ڈھول سپاہیا‘‘،’’ اے پتر ہٹاں تے نئی وکدے‘‘، تیرے باجرے دی راکھی‘‘،’’کرنیل نی جرنیل نی‘‘، میرا سوہنا شہر قصور نی‘‘ ، جمیل الدین عالی کا نغمہ’’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘‘مظفر وارثی کا، ’’جاگ اے مجاہد وطن‘‘، ’’امیدفتح رکھو‘‘، تنویر نقوی کا ’’رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو‘‘،ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا ’’ہر لحظہ ہے مومن اورفیض احمد فیض کا لکھا ترانہ ’’اے وطن اے وطن تیری للکار پہ‘‘ جیسے نغمات نے دھوم مچا دی۔جب بھارت کی جانب سے لاہور پر ناکام حملہ ہوا تو افواہیں بھی عروج پر تھی، پاکستانی افواج کی جانب سےدشمن کو دندان شکن جواب دیا گیا،ان دنوں ریڈیو پاکستان کی ٹرانسکرپشن سروس کے ڈائریکٹر سلیم گیلانی ہوتے تھے۔لاہور کے حوالے سے انہوں نے جنگی نغمہ بنانے کی ٹھانی اور رئیس امروہوی مرحوم سے درخواست کی کہ لاہور کے لیے نغمہ لکھیں،ان دنوں رئیس امروہوی روزنامہ جنگ میں قطعہ لکھا کرتے تھے،اس روایت کے بانی بھی رئیس امروہی ہی ہیں۔ سلیم گیلانی کی درخواست پر انہوں نے کہا کہ تھوڑی دیر بعد مجھے فون کیجیے گااور کاغذ قلم ہاتھ میں رکھیے گا،گیلانی صاحب نے فون کیا اور رئیس امروہوی مرحوم نے انہیں فون پر ہی یہ نغمہ لکھوادیا،
خطہ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام
یہ نغمہ بہت مقبول ہوا۔اسی طرح قصور شہر بھی سرحدسے ملحق ہے،وہاں بھی بھارتی افواج کے خلاف ہماری فوج کو کامیابی ملی تھی۔اس پس منظر میں میڈم نورجہاں کی آواز میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا لکھا ہوا گیت ’’میرا سوہنا شہر قصورنی،ہویا دنیا وچ مشہورنی‘‘ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔ معرکہ ’رن کچھ‘ کےدوران میڈم نورجہاں کی آواز میں مقبول ہونے والا شاعرجمیل الدین عالی کا نغمہ’ ’ اے وطن کے سجیلے جوانو میرے نغمے تمہارے لئے ہیں‘‘آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔یہ نغمہ بارہ ستمبر کو ریلیز کیا گیاتھا۔نورجہاں کی ہی آواز میں سولہ ستمبر کوشاعر صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا گیت،’’ ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کر نیل نی جرنیل نی ‘بھی میڈم نورجہاں کی آواز میں نشر کیا گیا۔ اسی طرح برصغیر کے نامور فلمی گیت نگار تنویر نقوی کا معروف نغمہ بھی ہے:
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
یہ لہو سرخی ہے آزادی کے افسانے کی
یہ شفق رنگ لہو
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
جس کے ہر قطرے میں خورشید کئی
جس کی ہر بوند میں اک صبح نئی
دور جس صبحِ درخشاں سے اندھیرا ہوگا
رات کٹ جائے گی گل رنگ سویرا ہوگا
رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو
شاعر تنویر کاظمی شہادتوں کی عظمت سے پُر،ایسا لازوال نغمہ لکھنا چاہتے تھے،جووطن کے بچے بچے کی زبان پر ہو،لہذااس نغمے کی تخلیق کے لیے تنویر کاظمی خود اگلے مورچوں پرگئےتھے۔جہاں انہوں نے غازیوں اور شہیدوں کو دیکھا۔نورجہاں کی آواز میں یہ نغمہ اٹھارہ ستمبر کو نشر ہواتھا۔ نورجہاں کی اِن خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے انہیں تمغہء خدمت سے نوازا اور’ ملکہ ء ترنم‘ کا خطاب بھی دیا تھا۔ گلوکارہ نسیم بیگم نے بھی جنگِ ستمبر میں کئی نغمے ریکاڑ کروائے۔ نسیم بیگم کا ممتاز ترین قومی اور جنگی نغمہ’’ اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو، تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں‘‘ کو جنگِ ستمبر کے جنگی گیتوں میں شامل کیاگیا ہے۔بعدازاںاسے جنگ کے پس منظر میں بننے والی فلم ’’ مادرِ وطن‘‘ میں بھی شامل کیا گیاتھا۔ اِس فلم کے مصنف، فلمساز اور ہدایتکار سیف الدین سیف تھے۔ مذکورہ فلم میںگیت نگار مشیر کاظمی کے نام کو دوام بخشنے والا یہی معرکۃ الآرا نغمہ ہے۔ اس گیت نے مشیرکاظمی اور اِس گیت کی گلوکورہ نسیم بیگم کو لازوال شہرت بخشی۔ اُستاد امانت علی خان نے بھی جنگی نغمات ریکارڈ کروائے، شاعر اثرترابی کا نغمہ،’ اے شہیدانِ وطن تم پر سلام‘ کو بھی شہرت ملی۔ اس قومی نغمے پر استاد امانت علی خان کو تمغہء خدمت بھی دیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے بھی اِن کے لئے ایک نغمہ لکھاتھا،جس کے بول تھے،’’وطن پاک کی عظمت کے سہارے تم ہو،مجھ کو اپنے نغموں سے بھی پیارے تم ہو‘‘۔جنگِ ستمبر کے جنگی نغمات میں فلمی گلوکار عنایت حسین بھٹی کابھی اہم کردار ہے ۔ ناصر کاظمی کے قلم اور عنایت حسین بھٹی کی آواز نے سرگودھا کے باسیوں کو زندہ دلی کا ایسا خراج تحسین پیش کیا جس کی آج تک کوئی مثال نہیں ملتی ،’’زندہ دلوں کا گہوارہ سرگودھا شہر ہمارا‘‘،یہ نغمہ سرگودھا شہر کے باسیوں کا لہو گرما گیا اور وہ جوق در جوق ڈنڈے اور لاٹھیاں لے کر گھروں سے سرحدوں پرجوانوں کا ساتھ دینے کے لیے نکل گئے۔ یہاں قابل زکر بات یہ ہے کہ عنایت حسین بھٹی نے اپنا تمام سرمایہ پاک فوج کے دفاعی فنڈ میں جمع کروا دیا اور اپنے پاس صرف 250 روپے رکھے جب ان کی اہلیہ نے ان سے پوچھا کہ اگر یہ جنگ طویل ہو گئی تو پھر کیا ہوگا ؟ جواب میں بھٹی صاحب نے فرمایا کہ ’’اگر میرا وطن ہی نہ رہا تو پھر کیا ہوگا ؟ اس لیے میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے، اور وطن پر سب کچھ قربان‘‘۔ فلمساز چوہدری حسن الدین اور ہدایتکار رفیق سرحدی کی فلم ’’چنگیز خان‘‘جونسیم حجازی کے ناول ’’آخری چٹان‘‘سے ماخوذ تاتاریوں کی یورشوں پر ایک تاریخی فلم تھی،اس میں طفیل ہوشیار پوری کا تحریر کردہ عنایت حسین بھٹی کی جوشیلی آواز میں جنگی ترانہ بے حد مشہور ومقبول ہوا جو آج بھی سامعین کے جذبات کو گرما دیتا ہے۔ رشید عطرے کی موسیقی سے سجایہ جنگی ترانہ پاک فوج ملٹری بینڈ کا سرکاری ترانہ ہے،جس کے بول ہیں،
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا۔۔۔اب وقتِ شہادت ہے آیا
اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر
ملکہ ء موسیقی روشن آرا بیگم کی آواز میں بھی متعدد نغمے مقبول ہوئے۔حمایت علی شاعر کا نغمہ ’ اے بھائی تیرے ساتھ بہن کی ہیں دعائیں‘‘ کی سامعین کی جانب سے بار بار فرمائش کی جاتی تھی ۔ اُس وقت کے تمام جنگی نغمات سے ہٹ کر ملکہء موسیقی روشن آرا بیگم نے پاک فضایہ کے سیبر طیارے کے لئے ایک نغمہ ریکارڈ کروایا،’ اے پاک فضایہ تیرے سیبر کی خیر ہو‘۔لوک فنکار عالم لوہار کی ’ جگنی پاکستان دی اے‘ مقبول ترین جنگی نغمہ ثابت ہوا۔اسے ڈاکٹر رشید انور نے لکھا تھا۔عالم لوہار کاایک اور گیت جسے صہبا اختر نے لکھا تھا،’’ دنیا جانے میرے وطن کی شان ‘‘بھی بہت مشہور ہوا ۔ دوران جنگ بلیک آئوٹ میں موم بتی کی روشنی میں مسرور انور نے یہ لازوال نغمہ لکھا ۔ جسے مہدی حسن نے اپنی موسیقی میں ریکارڈ کروایا۔
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
قوم کے مرد مجاہد تجھے کیا پیش کروں
تو نے دشمن کو جلا ڈالا ہے شعلہ بن کے
ابھرا ہرگام پہ فتح کا نعرہ بن کے
اس شجاعت کا کیا میں تجھے صلہ پیش کروں
اپنی جاں نذر کروں اپنی وفا پیش کروں
ان دنوںشاعر رئیس امروہوی روزانہ ایک جنگی گیت لکھتے تھے۔جیسے :
اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقین ہے
اب فتح مبین فتح مبین فتح مبین ہے
اس نغمہ کو مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا۔لاہور اور اس کے شہریوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیےشاعر رئیس امروہوی نے ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر عظیم سرور کو فی البدیہہ اپنا تاریخی نغمہ فون پر لکھوا یا ۔یہ نغمہ بھی مہدی حسن اور ساتھیوں کی آواز میں نشر کیا گیا،
خطہء لاہور تیرے جان نثاروں کو سلام
شہریوں کو غازیوں کو شہسواروں کو سلام
ریڈیو پاکستان کراچی سے سب سے زیادہ جنگی ترانے گلوکار تاج ملتانی نے ریکارڈ کروائے ۔جنگ چھڑنےکے فوری بعد محشر بدایونی کا نغمہ نتھو خان کی موسیقی میں ریکارڈ کروایا جو چھے ستمبرکے روز سے ہی نشر ہونے لگا :
اپنی قوت اپنی جاں
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
ہر پل ہر ساعت ہر آن
جاگ رہا ہے پاکستان
تاج ملتانی کی آواز میں رشید انور کی آواز میںیادگار ترانہ :
اج ہندوواں جنگ دی گل چھیڑی اکھ ہوئی حیران حیرانیاں دی
مہاراج اے کھیڈ تلوار دی اے ! جنگ کھیڈ نئیں ہندی زنانیاں دی
جنگِ ستمبر کے یادگار گیتوں میں تاج ملتانی کا یہ نغمہ بھی مقبول ترین تھا: ’ ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کہتے ہیں‘جس کو جون ایلیا نے لکھا تھا۔’’ تم نے جیت لی ہے جنگ یہ ، اے جوانو اے جیالو‘‘۔ شاعر تراب نقوی کاگیت سندھی لوک گیت ہو جمالو کی دھن پر تاج ملتانی، عشرت جہاں کے ساتھ کورس میں بہت مشہور ہواتھا ۔فلمی پلے بیک سنگر احمد رشدی نے بھی ریڈیو پاکستان کراچی میں بہت سے نغمات ریکارڈ کروائے،’’لالہ جی جان دیو لڑنا کیہہ جانو تسی ‘‘اس گیت کو سلیم گیلانی نے لکھا تھا۔جنگِ ستمبر میں پاک فضایہ کے عالمی شہرت یافتہ غازی مجاہد ایم ایم عالم کو مشہور فلمی شاعر مظفروارثی نے خراجِ تحسین پیش کیا’ ناز ہے پاکستان کو تجھ پہ اے مشرق کے لال‘ اسے ریکا رڑ کرنے کا اعزاز بھی احمد رشدی کے سر ہے۔ جنگ ستمبر میں میڈم نورجہاں، مہدی حسن، عنایت حسین بھٹی،نسیم بیگم، مسعود رانا، تاج ملتانی استاد امانت علی، روشن آرا بیگم، طفیل نیازی،عالم لوہار اور شوکت علی، سلیم رضا،احمد رشدی، ناہید نیازی،عشرت جہاں، نگہت سیما، مالا بیگم اور اس وقت کے تمام شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں نے نایاب شاہکار جنم دے کر شہیدوں، غازیوں اور عوام کو ایسا خراج تحسین پیش کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔گلوکاروں ،موسیقاروں اور شاعروں نے ایسے لازوال و جوشیلے نغمے ریکارڈ کروائے جنہوں نے جنگ میں ہتھیاروں کا کردار ادا کیا۔