• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئندہ دو عشروں کے دوران ہماری پیشہ ورانہ زندگیوں میں مکمل طور پر انقلاب آجائے گا۔ اس سے پہلے کہ ہم دو عشرے بعد کے ممکنہ منظر نامے پر نظر ڈالیں، آئیے جانتے ہیں کہ اس وقت افرادی قوت کی عالمی منڈیوں میں کیا ہورہا ہے۔

ہم اس وقت ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جہاں بہت سارے روبوٹس پہلے ہی سرگرمِ عمل ہیں اور افرادی قوت کیلئے بھی کام کی کمی نہیں  ہے۔ 2018ء کے اختتام پر کام کرنے والے روبوٹس کی تعداد ریکارڈ سطح پر جا پہنچی ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر بے روزگاری کی شرح 5.2فی صد ہے، جو گزشتہ 38سال میں کم ترین شرحِ بے روزگاری ہے۔ یہ لازمی نہیں ہے کہ ٹیکنالوجی انسانوں کی نوکریاں کھاجائے، موجودہ صورتحال اس کا ایک ثبوت ہے۔

افرادی قوت کی منڈیوں کی موجودہ صورتحال سے مستقبل کیلئے یہ نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:

٭مصنوعی ذہانت (AI)اور روبوٹکس، انسانوں کے لیے کام کے زیادہ مواقع پیدا کریں گے، بالکل آج کی طرح۔

٭نوکریوں کی کمی نہیں ہوگی، تاہم اگر ہم نے درست اقدامات نہ لیے تو ان اسامیوں کو پُر کرنے کیلئے ہنرمند افراد کی قلت پیش آسکتی ہے۔

٭ مستقبل میں بڑے شہر افرادی ذہانت کے لیے لڑیں گے۔ زیادہ تر لوگ اپنی جگہ پر رہتے ہوئے کام کرنے کو ترجیح دیں گے اور بڑے شہر اور میٹروپولیٹن علاقے اس ’موبائل لیبر فورس‘ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جتن کریں گے۔

٭امریکا میں فری لانسنگ کے رجحانات (2017ء) سے ظاہر ہوتا ہے کہ2027ء تک کام کے متلاشی زیادہ تر لوگ ’فری لانسنگ‘ کو کیریئر کے طور پر اپنالیں گے۔

٭ٹیکنالوجیکل تبدیلیاں تیزی سے رونما ہونے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس لیے آپ تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئےنئے ہنر سیکھتے رہیں، یہ آپ کی ضرورت ہے ورنہ آپ متروک اور ناکارہ بن جائیں گے۔

اس صورتحال کے پیشِ نظر سب سے بہترین مباحثہ بجائے یہ ہو کہ مستقبل میں تبدیلیاں رونما ہونگی یا نہیں، اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ ہم ان تبدیلیوں سے کس طرح زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکتے ہیں۔

درج ذیل تجاویز اس سلسلے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

تعلیم کا ازسرِ نو جائزہ لیں

تیزی سے ہونے والی ٹیکنالوجیکل تبدیلیوں کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت جدت پذیر مشینوں کو چلانے کے لیے ہمیں اسی تیز رفتاری سے نئے، ضروری اور مطلوبہ ہنر سیکھنے ہونگے۔ دنیا کا موجودہ تعلیمی نظام، اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت سست ہے اور اس رفتار سے چلنے کیلئے غیرمؤثر ہے۔

ہمیں مستقبل کی ضروریات پوری کرنے والا وہ تعلیمی نظام Pre-kindergartenسے تشکیل دینا ہوگا، جو مفت اور لازمی ہونا چاہیے اور ہر شخص کی تعلیم تک رسائی مساوی ہونی چاہیے۔

مستقبل میں آپ کی کالج ڈگری سے زیادہ آپ کے ہنر اور قابلیت کو دیکھا جائے گا۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کالج کی تعلیم کو سب کے لیے افورڈایبل بناتے ہوئے اسے مؤثر بنایا جائے یا پھر اس پر مکمل طور پر نظرثانی کرتے ہوئے ہنر مندی کی تربیت (Skills training) کے نئے طریقے تخلیق کیے جائیں، مثلاً اپرنٹس شپ کو زیادہ عام اور سب کی پہنچ میں کیا جائے۔

مزید برآں، ہمارے تعلیمی نظام میں لوگوں کو وہ ہنر سکھانا چاہیے، جس میں تاحال مشینوں کی کارکردگی اچھی نہیں ہے، جیسے انٹرپرینیورشپ، ٹیم ورک، مزید سیکھنے کی جستجو اورتصرف پذیری۔

ورکر سیفٹی نیٹ کو تبدیل کریں

ٹیکس، صحت کی سہولیات، بے روزگاری انشورنس اور پنشن، یہ سارے نظام مخصوص صنعتی دور کے لیے تشکیل دیے گئے تھے۔ اگر ہم نے ان میں ضروری اصلاحا ت نہ کیں تو یہ مستقبل میں مؤثر نہیں رہیں گے۔ کئی عشروں سے اداروں میں، اسی نظام کے تحت لوگوں کو ملازمتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ تاہم چونکہ یہ صورتحال تیزی سےبدل رہی ہے، ہمیں کل وقتی ملازمت سے جڑے اس نظام میں فوائد (Benefits)کو تحفظ (Protection)سے الگ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ انھیں پیداوار کے عمل میں شامل تمام افرادی قوت میں مساوی طور پر تقسیم کیا جاسکے۔

ڈنمارک میں پہلے ہی اسی طرح کے ایک پالیسی آئیڈیاپر کام ہورہا ہے، جسے Flexicurityکا نام دیا گیا ہے، اس کے تحت حکومت لوگوں کو بے روزگاری تحفظ (Unemployment security) اور بھاری سبسڈی پر ہنرمندی کی تربیت (Skill-training)فراہم کرتی ہے۔اسی طرح سے Portable benefitsاور Universal Basic Income(UBI)جیسے ماڈلز کا معائنہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

آزادی اور لچک فراہم کی جائے

لوگوں کی زیادہ شمولیت کو یقینی بناکر حکومتیں اور کاروباری ادارے مل کر ان کی زندگیوں کو زیادہ آسان بناسکتے ہیں۔ وہ اس پر عمل فاصلاتی کام (Remote work)، کام کے اوقات میں لچک اور پلیٹ فارم کی طاقت تسلیم کرتے ہوئے کرسکتے ہیں۔

سِنگل والدین، کسی معذوری کا شکار افراد یا ہمارے معاشرے کے دیگر کئی لوگوں کے لیے دفتر جاکر کام کرنا ممکن اور عملی نہیں ہوتا۔ تاہم اگر انھیں گھر سے کام کرنے یا اپنے اوقات کار کے مطابق کام کرنے کا اختیار دیا جائے تو وہ اپنے لیے آمدنی حاصل کرنے کے قابل بن جائیں گے۔ خوش قسمتی سے، بہت سارے لوگ پہلے ہی یہ کررہے ہیں۔

ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق، ’امریکا اور یورپی یونین کےپندرہ ملکوں (EU-15)میں 20سے30فی صد افرادی قوت خود مختار انداز میں کام کرتی ہے۔ ایمرجنگ مارکیٹس میں یہ تعداد اور بھی زیادہ ہے‘۔ انٹرنیٹ پر موجود فری لانسنگ پلیٹ فارم اس رجحان کو فروغ دینے کے لیے ایندھن کا کام کررہے ہیں۔میکنزی گلوبل کنسلٹنسی کا اندازہ ہے کہ کام کے خود مختار طریقوں بشمول فری لانسنگ کو فروغ دے کر 2025ء تک عالمی معیشت میں نہ صرف 2.7 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے عالمی لیبر مارکیٹ کو درپیش کئی مسائل کو بھی ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین