پلوامہ کا واقعہ پیش آتے ہی پورا بھارت جنگی جنون کی لپیٹ میں آ گیا اور پاکستان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا کر پاکستان کو سبق سکھانے کا واویلا مچانا شروع کر دیا۔ اگر بھارتی میڈیا اور وہاں کے اربابِ اقتدار کے اس رویہ کو تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کوئی انوکھی بات نہ تھی کیونکہ بھارت کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ رہا ہے کہ ہر چھوٹے موٹے داخلی دہشت گردی کے واقعہ کی آڑ میں پاکستان کو مطعون کیا جائے۔
بھارت کی اس روش کے پیچھے جو مقاصد ہیں ان میں ایک تو اس طرح ایسے واقعات میں حکومت اور متعلقہ اداروں کی نااہلی سے توجہ ہٹانا اور دوسرا بین الاقوامی سطح پر پاکستان کیلئے سفارتی مشکلات پیدا کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ماضی میں روپذیر ہونے والے ایسے کئی واقعات کی حقیقت سامنے آنے پر پتا چلتا ہے کہ یہ بھارت اور ہندوستانیوں کا ہی کیا دھرا ہے جس میں سرفہرست سمجھوتہ ایکسپریس کا واقعہ ہے۔پلوامہ کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ بی جے پی کی حکومت کے باعث بھارت میں جنگی جنون اور پاکستان سے نفرت ابھر کر سامنے آئی لیکن اگر پلوامہ واقعہ کے بعد کی صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو پھر یہ معاملہ اتنا سیدھا اور سادہ نظر نہیں آتا۔ بھارت کے قومی ادارے خاص کر عسکری قیادت بلا چوں چراںبی جے پی کو الیکشن جتوانے کیلئے اس کے ایجنڈے پر عملدرآمد کرسکتی ہے؟ ہمیں بھارت کی طرف سے پلوامہ کے بعد کی مہم جوئی کو ہند و پاک تعلقات کے تناظر میں وسیع بنیادوں پر پرکھنا ہو گا اور اسے صرف مودی کی انتخابی چال اور انتہا پسند نظریاتی اسٹرٹیجی تک محدود نہیں رکھنا چاہئے۔ بھارت نے اس ساری مہم جوئی میں اپنے اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے جو بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی پاکستان سے متعلق اسٹرٹیجی کا حصہ ہے تو آئیے دیکھتے ہیں کہ بھارت آج کل پاک و ہند تعلقات سے متعلق کن مشکلات سے دوچار ہے اور جن مشکلات کو بھارت کی اسٹیبلشمنٹ پلوامہ واقعہ کی آڑ میں حل کرنے کی منصوبہ بندی پر مجبور ہوئی۔بھارت کیلئے بھی پریشانی یہ ہے کہ پاکستان ردالفساد میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے جو آگے بلوچستان میں بیرونی مداخلت کا قلع قمع کرنے میں مددگار ثابت ہوگا اور تاریخ عالم میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں کہ کسی ملک کی عسکری قیادت نے دہشت گردی جیسے عفریت سے نجات حاصل کی ہو۔ اب جب پاکستان دہشت گردی سے پاک ہوتا ہے تو پھر ملک میں ترقی اور استحکام فطری عمل ہے اور بھارت کیلئے ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان کہاں قابل قبول ہے؟ دوسرا افغانستان کے اندر اچانک حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ وہاں طالبان کی حکومت میں شرکت سے امن کا راستہ ہموار ہو رہا ہے اور کوئی مانے یا نہ مانے اس میں پاکستان کو کلیدی کردار حاصل ہے۔ بھارت نے یہ اچھی طرح بھانپ لیا ہے کہ افغانستان میں اس کی حکمت عملی مشکلات سے دوچار ہے اور اگر افغان مذاکرات اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتے ہیں تو پاکستان کے لئے اس میں آسانیاں ہیں اور بھارت افغانستان کے راستے پاکستان کی مغربی سرحد پر دبائو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ افغانستان میں بھارت کے اثر و رسوخ کا کم ہونا خطے میں بھارت کو گیم سے باہر دھکیل سکتا ہے۔ تیسرا مسئلہ بھارت کے لئے سی پیک کا ہے جو کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے اور افغانستان میں امن کے آتے ہی زیادہ تیزی سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا اور بھارت کو علم ہے کہ سی پیک اور گوادر کی بندرگاہ بحرہند میں بھارت کی اجارہ داری کے خواب کو چکنا چور کر دے گی۔چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کافی عرصہ سے اپنے آپ کو علاقائی سپر پاور کے طور پر دیکھ رہا ہے لہٰذا ایک اقتصادی طور پر مستحکم، عسکری طور پر طاقتور اور سفارتی سطح پر فعال پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور خاص اقتصادی طاقت کے حامل سعودی عرب کی دلچسپی کا باعث بن رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری افراتفری میں پاکستان اپنا کردار ادا کرکے خطے کو امن کی طرف لے جا سکتا ہے۔
لہٰذا اب وجوہات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت نے پلوامہ حملے کی آڑ میں پاکستان پر ہر سطح پر وار کرنے کی حکمت عملی اپنائی تاکہ پاکستان کو ان کامیابیوں سے دور رکھنے کیلئے جنگ میں الجھا دیا جائے اور پاکستان کی مشکل اقتصادی صورتحال کو مزید مشکل میں ڈال کر اس کو سنبھلنے نہ دیا جائے۔بھارت کو زعم تھا کہ وہ عسکری طاقت کا استعمال کرکے پاکستان کو اتنا نقصان پہنچا دے گا کہ جس سے پاکستان کی عسکری اور سفارتی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی بالخصوص بھارت کا سفارتی زعم تو آسمان کو چھو رہا تھا اور وہ پُرامید تھا کہ وہ پاکستان کو بری طرح تنہا کر کے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکے گا۔
بہرحال اللہ کا کرم شاملِ حال ہونے کے ساتھ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت کی ہوش مندانہ، مدبرانہ اور قائدانہ صلاحیتوں نے بھارت کو اپنی حکمتِ عملی میں ناکام بنایا اور اس کی ساری گیم الٹ گئی۔ اس کی ایک وجہ تو بھارت کا پاکستانی عسکری طاقت کا غلط اندازہ اور پھر پاکستان کے عزم کو سمجھنے میں غلطی تھی۔ دوسرا یہ کہ بھارت علاقائی اور بین الاقوامی حالات کو پڑھنے میں ناکام رہا اور اپنی سفارتی برتری کی رعونت میں ابھرتے ہوئے حالات کا ادراک نہ کر سکا۔ تقدیر کا کھیل ایسا ہے کہ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ جو ارادہ لے کر چلی تھی اس کے الٹے نتائج لے کر بیٹھ گئی۔یہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ جنگ میں پہلا وار تو آپ کا ہوتا ہے، آگے کوئی نہیں جانتا کہ کیا ہو گا۔بہرحال پاکستان کو بھارت کو پلوامہ واقعہ کے بعد کیے گئے اقدامات کو صرف فوری اور اس کی پاکستان نفرت اور ہندو انتہا پسندی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ یہ ہندو پاک تعلقات میں بھارت کی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کی عکاسی ہے اور جب تک بھارت اپنی طاقت کے غرور اور پاکستان کے لئے حقارت کو دل سے نہیں نکالتا، پاکستان کو اس قسم کی مہم جوئیوں کا سامنا رہے گا۔