وادی سندھ، قصوں اور کہانیوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کی لوک کہانیاں اتنی ہی پرانی ہیں، جتنی کہ سندھ کی تہذیب و ثقافت۔سندھی لوک کہانیوں میں عوام کے احساسات و جذبات کی وہ جھلکیاں نمایاں جس کے لئے وہ برصغیر میں مشہور ہیں۔ لوک کہانیاں دھرتی کے سینے سے پیدا ہوتی ہیں۔ جنہیں لوگ اپنے دلوں کی دھڑکنوں میں چھپائے نگری نگری پھرتے ہیں۔ سندھ کی لوک کہانیوں کی تعریف کے لئے اگر صرف یہ کہا جائے کہ یہ جذبات کے بے ساختہ پن ،تصنع و بناوٹ سے دور احساس کی آنچ پر نکھری ہوئی سیدھے سادے لوگوں کی سیدھے سادے اندازِ بیان میں ایک ایسی دستاویز ہے جو دلوں میں ترازو بن جاتی ہے، تو بے جا نہ ہوگا۔میں انسانی جذبات کے قدیم ترین تصورات و جذبات کا تحفظ ہے اور ہر کہانی میں انسانیت کے ان اثرات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ جو ایک ذمہ دار و صحت مند اور ترقی یافتہ ماحول کے لئے ضروری ہیں۔ سندھ کی لوک کہانیوں میں زیادہ تر ایک ایسا پیام ہے جو انسان کو سیدھے راستے پر چلنے اور برائی سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ یہ کہانیاں زندگی کی تلخ و شیریں حقیقتوں کا ایک ایسا نمونہ ہیں، جو ماحول کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ اس میں بیانی واقعہ بھی ہے اور داستان دل بھی۔ یہ رنگ محلوں کی داستان بھی ہے اور اس میں جھونپڑوں کے شاہکار بھی۔ان میں فحاشی کےجحان کا بھی پتہ چلتا ہے، اور تصوف کا بھی۔ غرض یہ کہ یہ لوک کہانیاں فطرت کی دین اور ساز و آہنگ کا ایک ایسا عطیہ ہیں، جو سینہ بہ سینہ ماضی سے حال تک پہنچا ہے اور حال سے مستقبل کی طرف گامزن ہے۔داستان نگاری کے اس فن کی مدد سے بے شمار سیاسی اور معاشرتی مسائل حل کئے گئے ہیں۔
سندھ کی کتھائوں، لوک کہانیوں اور گیتوں میں انسانیت کی یہ اعلیٰ و ارفع اقدار اس طرح مربوط نظر آتی ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی کاروبارِزندگی سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح انتہائی قدیم کھنڈرات میں پرانی تہذیب و تمدن مدفن ہیں، بالکل اسی طرح لوک کہانیوں میں بھی پرانے نفسیاتی نظام اور ذہنی ارادوں کی جھلکیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ لوک کتھائوں، داستانوں اور لوک گیتوں میں انسانیت کی یہ اعلیٰ و ارفع اقدار اس طرح گندھی ہوئی نظر آتی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی زندگی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ اقدار ہمیشہ سے سندھ کے ضمیر و خمیر کا جز لاینفک رہی ہیں۔ایسی ہی چند کہانیوں میںانگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد کرنے والے حریت پسندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ سندھ جب انگریزوں کے ہاتھوں مغلوب ہوا تو سندھی سپاہی بے جگری سے لڑے اور شکست کے بعدبھی وہ انگریزوں کے اطاعت گزار نہ بن سکے۔
تاریخی روایات کے مطابق 1843میںانگریزوں نے سندھ کی خوش حالی دیکھ کر اس پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور یہ کوشش کی کہ ٹالپر حکمرانوں میں ان لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے جو آسانی کے ساتھ ان کی جھوٹی باتوں میں آ جائیں اور پھر اس سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے صوبیدار ٹالپر کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور اس کی حمایت حاصل کر کے ٹالپروں کے خلاف سازش شروع کر دی ۔ ہوش محمد شیدی ہوش محمد جسے ’’ہوشو‘‘ کہا جاتا تھا اس کا تعلق شیدی قوم سے تھا۔وہ ٹالپر حکم رانوں کا بہادر جرنیل تھا۔ اس بات کا جب اسے کسی ذریعے سے پتہ چلا تو اس نے صوبیدار کو انگریزوں کی سازشوں سے آگاہ کیا اورکہاکہ انگریز اس طرح سے سندھ پر حملہ کر کے خطے پر قبضہ کر لیں گے۔صوبیدار نے ہوشوکی بات پر کان نہیں دھرا اور انگریزوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاتارہا۔اس کے بعدانگریزوں نے ٹالپر خاندان کےکئی با اثر افراد کو اپنے ساتھ ملالیا ۔جب انگریز سرکارنے ٹالپروں کا اعتماد پا لیا تو انھوں نے 11 جنوری 1943ء میں سندھ پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔
میانی کے میدان میں ایک فیصلہ کن لڑائی انگریز فوج اور ٹالپرسپاہ کے درمیان ہوئی انگریز سپاہیوں نے امام گھاڑہ قلعہ پر حملے تیز کر دیے اور آخر کار میرصوبیدار اور دوسرے سرداروں کو اپنا قیدی بنا لیا۔یہ صورتحال دیکھ کرہوش محمد شیدی شیر محمد ٹالپر کے پاس پہنچے جو میرپور خاص میں تھے۔انہوں نے فیصلہ کیا ا کہ کسی بھی صورت میں سندھ کو انگریزوں کے قبضے سے آزاد کروانا ہے۔ میر شیر محمدٹالپر ، ہوشو شیدی کا عزم و حوصلہ دیکھ کر انگریزوں سے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے۔ ہوش محمد اور شیر محمدٹالپر اپنی فوج کے ساتھ حیدرآباد کی طرف روانہ ہوئے۔ 23 مارچ 1843ء کو پھلیلی واہ کراس کر نے کے بعد ان کے لشکر کا انگریزی فوج سے مقابلہ ہوا۔ ہوش محمد بہت بہادر اور بے خوف جرنیل تھا۔وہ لڑتے لڑتے انگریزوں کی صفوں میں گس گیا تاکہ ان کے ساتھ جتنے بھی ساتھی فوجی ہیں ان کی ہمت بڑھے کہ ان کا جنرنیل خود آگے جاکر لڑ رہا ہے۔ ہیشو شیدی انگریز سپاہیوں کو للکارتے ہوئے کہنے لگا ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ (مر جائیں گے مگر سندھ تمہارے حوالے نہیں کریںگے) وہ بڑی جرأت کے ساتھ لڑتا رہا اوراس کےہاتھوں کئی انگریز فوجی مارے گئے۔اگرچہ ہوشو کے سپاہی تعداد میں کم رہ گئے تھے، پھر بھی انھوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ آخری الفاظ اہوشو کے منہ سے یہ نکلے تھے کہ’’ زندگی کی آخری سانسوں تک سندھ کی حفاظت کریںگے‘‘۔ ’’مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں‘‘ کانعرہ سرائیکی زبان میں ہے، کیونکہ جب انگریزوں نے سندھ پر حملہ کیا تو اس وقت سندھ کے عوام، سندھی اور سرائیکی زبانیں بولتے تھے۔راویں کا کہنا ہے کہ جب اس کا جسم روح سے خالی ہوکر ایک سرد لاشے میں تبدیل ہوگیا تو اس وقت بھی انگریز سپاہی اس کے قریب جانے سے ڈر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید اس کی روح ان پر حملہ آور ہوجائے گی۔
سندھ کا لوک ادب سندھ کے مزاج کی صحیح عکاسی کرتا ہے۔ اس کا انمول خزانہ وہ لوک کہانیاں ہیں جو سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔ صرف ان کہانیوں اور داستانوں ہی کے مطالعہ سے ہم سندھ کی معاشرت و معیشت اور اس کے باسیوں کی ذہنی ارتقا ءکو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ان کہانیوں میں زندگی اپنی لامتناہی وسعتوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔روزمرہ کے جھگڑے، قضئے، محبت کی آنچ، وصل کی سرشاریاں، فراق کی تاب و تب، اونچ نیچ کے بندھن، عاشق کی شجاعت، صداقت، راست روی اور خودداری و محبوب کی وفا شعاری، پاک باطنی اور سپردگی، یہ جلیل و جمیل، عناصر سندھی لوک کہانیوں میں تانے بانے کا کام کرتے ہیں۔
سندھی لوک کہانیوں کا بڑا وصف محبوب کے کردار کی عظمت ہے۔ ان میں تصنع و بناوٹ نہیں ہے۔ایک سجنی کو چاؤ چوچلے،بے جا نخرے اور دل لبھانے والی ادائیں نہیں آتیں۔ وہ اپنے ساجن کی خاطر سب کچھ کرسکتی ہے، سماج کی فرسودہ روایات سے بغاوت کرکے اس کے بنائے ہوئے کڑے قوانین توڑ دیتی ہے۔راستے میں حائل رکاوٹوں اور حالات کے جبرسے ٹکرا سکتی ہے۔ موقع پڑنے پر اپنی جان کی بازی بھی لگا سکتی ہے ۔ زندگی کےتپتے ہوئے صحرا میں ساری عمر اپنے محبوب کا انتظار کرسکتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کی قدیم کہانیاں زیادہ ترزمینی حقائق پر مبنی تھیں، جن پر بعد میں حکایتی اور ناصحانہ رنگ چڑھایا گیا ہے۔
لوک کہانیوں کے آئینے میں سندھ کے عوام کی اخلاقی، سماجی اور روحانی اقدار منعکس نظر آتی ہیں۔ خاص کر سندھی عورت کا حقیقی روپ نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔سندھی لوک کہانیاں ویسے تو لاتعداد ہیں، لیکن سسی پنوں، لیلا چنیسر،سوہنی مہینوال ،عمر ماروی، مومل رانو، سورتھ رائے ڈیاج اور نوری جام تماچی وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ یہ کہانیاں اگرچہ ایسے مافوق الفطرت واقعات سے بھری ہوئی ہیں جو مشرق میں بے حد پسند کیے جاتے ہیں۔ ان میں سب سےنمایاںداستان سسی پنہوں کی ہے، جس پر شاہ لطیف نے زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔ ان میں سرُ سستی، سرُآبری، سرُمعذوری، سرُکوہیاری، سرُحسینی، سرُدیسی اور سرُرپ شامل ہیں۔ نظموں کے مجموعہ کا بڑا حصہ ان ہی سات سروں پر مشتمل ہے۔ ان سرُوں میں شاعری کا معیار ذرا سا کھردرا سا لگتا ہے۔ سرحسینی جو کہ تنہا طویل نظم ہے، سب سے زیادہ معیاری ہے۔ جبکہ سررپ میں خوبصورت شاعری کے کچھ آثار نظر آتے ہیں۔لوک کہانیاں ایک ایسی تخلیق ہیں جو ایک نسل سے دوسری نسل کو ورثہ میں ملتی ہےاور ان کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک انسان کا ذہن غور و فکر کی کے احساس سے عاری نہیں ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ لوک ادب اتنے نشیب و فراز سےگزرنے کے باوجود بھی عوام کے دلوں میں محفوظ ہے۔آج بھی جب سندھ میں تپتی ہوئی دھوپ پڑتی ہے اور شام کو کھلے میدانوں میں چٹکی ہوئی چاندنی اپنا حسن دکھلاتی ہے، تو سندھ کے بھولے بھالے لوگ اس چاندنی میں انہی لوک کہانیوں، گیتوں اوررقص کے درمیان مستقبل کا ایک پرتو پاتے ہیں۔
سندھ کی لوک کہانیوں میں بے شمار پہلو ہیں۔ ان میں انسانی جذبات کے قدیم ترین تصورات، روایات کے تحفظ کا احساس نمایاںنظر آتاہے۔ ہر کہانی میں انسانیت کے ان اثرات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ لوک کہانیوں کی مدد سے بے شمار سیاسی اور معاشرتی مسائل حل کئے گئے ہیں۔ان کہانیوں میں انسانی سن شعور سے پہلے جادو، دیومالائی داستانوں،جنر منتر، پریاں، جنات اور چڑیلوں کے قصے انسانی زندگی کے لازمی جزو تھے، اور ان کی عملی زندگی میں بھی ان باتوںکا بڑاعمل دخل تھا۔ لوک کہانیوں کی ابتدا بالکل اسی انداز میںہوئی، جس طرح سے بات کا پتنگڑ بن گیا ہواور ذراسی بات نے بڑھنے کے بعدقصے، کہانیوں کی صورت اختیار کرلی ہو۔ بعض دفعہ ان لوک کہانیوں میں یہ بھی ہوا ہے کہ ان کی جگہ نئی شاخوں نے لے لی اور پرانی شاخیں کاٹ کر پھینک دی گئیں۔ ان کی تعریف ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے اس طرح کی ہے کہ’’ یہ فقیر کی ایک ایسی جھولی ہے جس میں مختلف چیزوں جمع ہوتی گئیں، یا لنگر کی ایسی دیگ ہے جس میں جس کا جو دل چاہے ڈالتا چلا گیا اور کھچڑی پکتی گئی اور آخر میں یہ پتہ چلانامشکل ہوگیا کہ دیگ کس کی ہے، کس نے چڑھائی تھی اور کب چڑھی تھی اور اس میں جو ،جو چیزیں شامل ہیں وہ کس کس نے ملائی ہیں۔سندھی لوک کہانیوں کو ہم تین ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ابتدائی دور میں طوطامینا، جادوئی لکڑی، دیو، پریاں، جن، بھوت، ڈائن اور چڑیلوں کے ذریعے کہانیوں کو ترتیب دیا گیا ہے اور ان کہانیوں میں طوطا، ہرن، سانپ، عقاب وغیرہ کاکردار اہم ہے اور انہیں یہی کردار آگے بڑھاتے ہیں۔ اس قسم کی کہانیوں کا نہ کوئی محل وقوع ہوتا ہے، نہ ان کے دور کا پتہ چلتا ہے۔ یہ عموماً اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ’’ ایک تھا راجہ اسے اولاد نہیں ہوتی تھی۔ وہ چوراہے پر جاکر اوندھے منہ لٹ گیا۔ وہاں سے جوگیوں کا قافلہ گزرا اور انہوں نے کچھ شرائط کے ساتھ اس کے ہاں بچہ ہونے کی دعا دی، وغیرہ وغیرہ‘‘۔ یا کسی کہانی میں کوئی شہزادہ کسی جادو گر کے جال میں پھنس جاتا ۔ پھر کوئی درویش آتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے، سانپ، طوطا، عقاب اس کے مددگار ثابت ہوتے ہیں اور وہ کامیاب و کامران واپس لوٹتا ہے۔بعض کہانیوں میں انسان اور پریوں کی محبت کی داستان کو مرکزی خیال بناکر جادو کے قصوں کو پھیلایا گیا ہے۔ آخر میں ان کہانیوں میں نیک کام کرنے، برے کاموں سے بچنے اور ظالم سے مقابلہ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
دوسرے دور کی کہانیوں میں کچھ تاریخی قصے پائے جاتے ہیں ۔ ان کے محل وقوع ، اہم کرداروںکے نام اور ان کے خاندان کے آثار کتابوں میں ملتے ہیں ۔ ان کہانیوں میں بھی برے ماحول و صحبتوںسے بچنے اور نیک کاموں کی طرف اشارے ہوتے ہیں۔ تیسرے دور کہانیوں میںمیں سندھ کے حکمرانوں کے کردار اورتاریخی حیثیت کو نمایاں کیا گیا ہے، جن میں ان کے معاشقے اور بہادری کی داستانیں موجود ہیں۔ اس دور کے متعلق پوری پوری معلومات ہوتی ہے۔ ان کہانیوں میں عمر ماروی، مومل رانو، سسی پنہوں، نوری جام تماچی قابل ذکر ہیںجن کی یادگاریں آج بھی سندھ میں موجود ہیں۔ اس نوع کی کہانیوں کو سندھ کے بہت سے شعرأ نے ماضی میں ’’الف‘‘ سے ‘‘یے‘‘ تک منظوم انداز میں کیا ہے۔ تیسرے دور کی کہانیوں کا زمانہ سولہویں صدی عیسوی میں ختم ہوجاتا ہے۔ اس دور کے بعد حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا دور شروع ہوتا ہے۔ سندھ کے دوسرے صوفیائے کرام نے بھی شاہ عبداللطیف بھٹائی کی طرح ان کہانیوں کا سہارا لے کر عشق حقیقی کا فلسفہ سمجھایا ہے۔دیگر لوک داستانوں کی طرح سندھ کی لوک کہانیوں کے متعلق بھی ادبی محقیقن اس بات سے لاعلم ہیں کہ ان کی ابتداکب ہوئی ور کہاں ہوئی؟ان کہانیوں کے آغاز میں کسی پریشان شخص کی مددکے لیے کسی بہادر شخص کے کارنامے کو بنیاد بنایا گیا۔ اس کے بعد بادشاہوں، سرداروں نے عالموں اور دانشوروں کی مدد سے کچھ کہانیاں ترتیب دیں جس میں جانوروں کی زبانی حکایتیں بیان کرکے حکمت عملی کے گر سمجھائے گئے۔ سندھ کی لوک کہانیوں میں ماضی کی ارتقائی تحریک کے آثار ملیں گے، جن میں جادو کے کرشمے اور بادشاہوں اور شہزادوں کے کارنامے نمایاں ہیں۔ان میں اس قسم کے اشارے زیادہ واضح ملیں گےکہ نیک نام زندہ رہتے ہیں اور برے نیست و نابود ہوجاتے ہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ان قدیم کہانیوں میں بہت سےفلسفیانہ نکتے تلاش کئے ہیں اور ان کے جستہ جستہ حصوں کو اپنے پیغام کو موثر طریقے سے پیش کرنے کا وسیلہ بنایا ہے۔ انہوں نے ان کہانیوں کو اس لئے منتخب کیا کہ عوام کی زبانوں پر یہ کہانیاں عام تھیں اور وہ انہیں اپنی ثقافت اور تہذیب کی میراث سمجھتے تھے۔ شاہ سائیں نے ان کہانیوں کی قبولیت عام سے فائدہ اٹھایا اور ان کے سبق آموز عصر دلکش پیرائےمیں ڈھال کر ، اپنے فلسفیانہ اور صوفیانہ افکار کی نشر و اشاعت کی۔ شاہ سائیں غم و تلاش کا ایک منفرد تصور رکھتے تھے۔ وہ محبوب حقیقی کو تلاش کرنے والے کو عزم اور پختہ یقین رکھنے کی تلقین کرتے ہیں کہ اس یقیں سے ہی منزل مقصود تک پہنچ ہوسکتی ہے۔