• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رشیدبٹ

  • یہ اہم شاہراہ،کراچی کا دل ہے، پاکستان کی جان ہے۔
  • یہاں برطانوی دور کی تعمیر کردہ خوب صورت عمارتیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
  • بینکوں اور اہم تجارتی اداروں کے صدر دفاتر کی وجہ سے اسے پاکستان کی ’’وال اسٹریٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے

کراچی کی نشانیوں میں ایک اہم نشانی میری ویدر ٹاور ہے۔ ہم کیماڑی کی طرف سے آئیں تو عین اُسی مقام یعنی ٹاور سے دوسڑکیں نکلتی ہیں۔ ایک پرانا بندر روڈ اور موجودہ ایم اے جناح روڈ، دوسرا پرانا میکلوڈ روڈ اور موجودہ ابراہیم اسماعیل چندریگر روڈ یا زیادہ پیار سے پکارا جائے تو ’آئی آئی چندریگر روڈ‘، یہ نام  اِسے پاکستان بننے کے بعد ملا۔ ہاں انگریزوں کے نو آبادیاتی دور میں یہی سڑک میکلوڈ روڈ کے نام سے تھی۔ یہ سڑک کب وجود میں آئی؟ اِس کی کوئی سنَد تو نہیں، ہاں روایت ہے کہ برِ صغیر کی برطانوی نو آبادیاتی تاریخ میں دو میکلوڈ گزرے ہیں۔ اُن میں سے ایک کا تعلق سندھ سے بنتا ہے۔ یہاں زیادہ تر پرائیویٹ دفاتر ہیں۔ اس کے آگے ٹاور کے ساتتھ ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے۔ جو اب اجاڑ اور سُوکھا پڑا ہے، پانی ہی نہیں۔ کبھی کراچی میں پانی بھی ہوتا تھا۔ سندھ کے ممتاز دانش ور اور ادیب پیر علی محمد راشدی نے پرانے کراچی کے بارے میں لکھا ہے کہ ”ہر چوک میں فوارے پھوٹتے تھے“۔ پر اَب دھول پھوٹتی اوراُڑتی ہے۔ یہ ہم نے اِس شہر کا کیا حشر کر دیا! اوراور یہ سڑک، میکلوڈ روڈ یا آئی آئی چندریگر روڈ تو کراچی کا دل ہے، کاروباری مرکز ہے۔ دیکھا جائے تو کراچی کے سارے ہی رستے آئی آئی چندریگر روڈ کو جاتے ہیں۔ ملازمت پیشہ ہوں یا یا کاروباری لوگ صبح سویر ے اکثریت کا رخ اِدھر ہی ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ مالیاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ علاقہ کراچی کی وال اسٹریٹ (Wall Street) ہے۔ اندرونِ ملک آمدو رفت کا معاملہ ہو تو ریلوے کا بہت بڑا مرکز سٹی ریلوے اسٹیشن یہیں ہے۔ اور ذرائع ابلاغ کی بات آئے تو یہ لندن کی شہرہ آفاق فلیٹ اسٹریٹ سے کم نہیں۔ پاکستان کے بیشتر بڑے چھوٹے اخبار یہیں سے نکلتے ہیں، اور اب تو ٹی وی چینلز کی بھی بھرمار ہے۔ٹاور کے سامنے ہی سڑک پار ریلوے گودامز کی بوسیدہ سی دیوار ہے۔ اندر پٹریوں کا جال بچھا ہواہے جو بندر گاہ تک چلا گیا ہے۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں، کراچی اور اندرونِ ملک سے آنے والا مال یہیں سے بندرگاہ کے راستے جاتا تھا، اور آنے والے سامان کی بار برداری کے لیے ریلوے کے مال بردار ویگن موجود ہوتے تھے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 1914ءتک کراچی کی بندر گاہ برطانوی ہند سے اناج خصوصاً گندم برآمد کرنے والی سب سے بڑی بندرگاہ بن چکی تھی۔ پھر کسی مافیا نے ریلوے کو معذور و مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اب یہی کام بڑے ٹرالروں سے ہوتا ہے۔ ریلوے کی پٹریاں زنگ آلود ہو رہی ہیں۔ پاکستان بھر میں بچھی ریلوے لائنز کا آغاز یہاں سے ہوتا اور ختم بھی یہیں ہوتاہے۔ یہ ریلوے سسٹم برطانیہ کے نوآبادیاتی حکمرانوں نے قائم کیا اور کراچی کو برِصغیر کے دوسرے حصوں سے ملادیا۔یہاں پاکستان اسٹاک ایکس چینج کی عمارت ہے۔ ساتھ ہی دور تک دوسرے کاروباری دفاتر کی عمارتیں بڑھتی چلی گئی ہیں۔ بائیں ہاتھ پر ایک کھنڈر سا ہے؟یہ کسی زمانے میں کوئی کاروباری عمارت تھی لیکن اب تو چند ایک ٹوٹے پھوٹے بورڈ رہ گئے ہیں۔ کچھ حصے کی چھتیں بھی زمیں بوس ہوچکی ہے۔

میکلوڈ روڈ کی بیشتر عمارتیں برطانوی نو آبادیاتی دَور سے تعلق رکھنے والی کلاسیکی اور یورپی طرزِ تعمیر کی حامل خوب صورت عمارتیں ہیں۔ ان میں زیادہ تر بینکوں کی عمارتیں ہیں۔ آج سے کوئی پینتالیس سال پہلے کی بات کی جائے تو یہاں چند ایک پاکستانی بینکوں کے صدر دفاتر تھے اور غیر ملکی یعنی یورپی اور امریکی بینکوں کی بڑی برانچیں قائم تھیں۔ ایشیائی بینکوں میں سب سے اہم برانچ بینک آف چائنا کی تھی۔ یہ بھی ایک دلچسپ تاریخی حقیقت ہے کہ 1949ءمیں جب چین آزاد ہوا تو اسے اپنی درآمد اور برآمد میں، یورپی اور امریکی پابندیوں کے سبب بڑی مشکلات پیش آتی تھیں۔ ایسے میں پاکستان نے نیشنل بینک آف پاکستان کے ذریعے اقتصادی شعبے میں چین کی بڑی مدد کی۔ عقبی سڑک ”حسرت موہانی روڈ“ کہلاتی تھی اور اب بھی کہلاتی ہے۔ اس عقبی سڑک کے ساتھ ساتھ دوسری جانب، سندھ مدرستہ الاسلام کی دیوار چلتی چلی گئی ہے۔ انیسویں صدی کے اوآخر میں، سندھ مدرسہ بننے سے پہلے یہ کھلا میدان ”قافلہ سرائے“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ میکلوڈروڈ یا آئی آئی چند ریگر روڈ کی، کاروباری مرکزکی بات کوئی نئی بات نہیں، یہ تو صدیوں سے کاروباری علاقہ تھا۔ تب افغانستان اور وسط ایشیا تک سے تاجر اونٹوں پر سامانِ تجارت لاد کر، ہزاروں کوس کا سفر کرتے،تافتان اور چین کے راستے کراچی تک آتے۔ اس قافلہ سرائے میں ٹھہرتے ۔ اپنا سامان بیچتے، اپنے اپنے علاقوں کی ضرورت کا سامان خریدتے اوران ہی اونٹوںپرلاد کے لے جاتے ۔ تب سندھ مدرسہ کی اسلامی اور یورپی طرز کی عالی شان عمارتوں کی جگہ یہاں تاجر مسافروں کےلیے قطار درقطار کمرے، اونٹوں کے لیے تھان اور چارے پانی کےلیے کُھرلیاں بنی ہوئی تھیں۔ قافلہ سرائے تب زوال پذیر ہوئی جب اُس کے عین مقابل 1870ءکے زمانے میں سٹی ریلوے اسٹیشن تعمیر ہوا۔ قافلہ سرائے توختم ہوگئی لیکن سامانِ تجارت بندرگاہ تک لانے لے جانے اور اندرونِ شہر پہنچانے کے لیے اونٹ گاڑیاں بدستور سڑکوںپر رہیں۔ نیپئربیرکس، ڈینسوہال، نیو چالی سے ہوتی ہوئی آئی آئی چندریگر روڈ کو پار کرکے سٹی ریلوے اسٹیشن سے ملتی سڑک، اونٹ گاڑیوں کا بہت بڑا پڑاؤتھا،اب تو ایسی اونٹ گاڑیاں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔

آئی آئی چندریگر روڈ کے دائیں ہاتھ والی گلیاں یا چھوٹی سڑکیں اور اُن پر کاروباری دفاتر والی عمارتیں دُور تک چلی گئی ہیں۔ یہ گلیاں اور سڑکیں انگریزی دور کے کوئنیز روڈ اور موجودہ مولوی تمیز الدین خان روڈ سے جا ملتی ہیں۔

کسی زمانے میں اِس سڑک پر (میکلوڈروڈ)معروفِ زمانہ برطانوی لائیڈز بینک تھا، چارٹرڈ بینک تھا، گرنڈلیز بینک تھا، بینک آف امریکا تھا، اب صرف اُن کی کچھ قدیم اور عالی شان عمارتیں موجود ہیں، جن پر بعد میں بننے والے بینکوں کے بورڈ نظر آتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک سے متصل زرد پتھر سے بنی برطانوی نو آبادیاتی دور کی یہ پُر شکوہ عمارت ابتداً ”انڈیا ہاؤس“ کہلاتی تھی۔ اور اس میں ریز رو بینک آف انڈیا کے دفاتر تھے۔ پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نئی عمارت بنی اور اس عمارت کو پہلے اسٹیٹ بینک لائبریری اور پھر اسٹیٹ بینک کے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی کراچی پولیس کا صدر دفتر ہے۔ بائیں ہاتھ پر کئی پرانی عمارتوں کو گرا کر نئی عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی عمارت تک پہنچتے پہنچتے نئی پرانی عمارتوں کا ایک عجوبہ سا نظر آتا ہے۔ دائیں جانب نیشنل بینک کے ہیڈآفس کی عمارت ہے، جس کا ایک رخ تو آئی آئی چندریگر روڈ کی سمت ہے اور دوسرا طویل رخ ایک نسبتاً چوڑی سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا چلا گیا ہے۔ یہ ”ٹالپر روڈ“ بھی کہلاتا ہے۔ جہاں نیشنل بینک کی عمارت ختم ہوتی ہے، وہاںپر ریل کی پٹریوں کا جال ہے۔ اسے عبور کرکے ”شکر گودام“ ہے۔ کسی زمانے میں یہاں شکر ہوتی ہو گی، اب تو اس وسیع و عریض عمارت کے اندر دفتروں ، کا وباری اداروں اور چھاپے خانوں کا ایک جنگل ہے۔

محمدی ہاؤس، ریلوے سٹی اسٹیشن، قافلہ سرائے کا علاقہ ہے۔ ااس کے دائیں ہاتھ ایک بغلی سڑک ہے، یہ پُرانا نکل روڈ اور موجودہ ایوانِ تجارت روڈ ہے۔ اور یہیں ایوانِ تجارت و صنعت ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے یہ انڈین کراچی مرچنٹس ایسوسی ایشن کا دفتر کہلاتا تھا۔ اِس کا افتتاح 8 جولائی 1934ءکو موہن داس کرم چند گاندھی یعنی گاندھی جی نے کیا تھا۔ اس کے مقابل سندھ مدرسہ کی بیرونی دیوار ہے۔

اسٹاک ایکس چینج ہو، کاٹن ایکس چینج ہو یا آٹے، چاول، دالوں کا ایکس چینج، ان میں بولی جانے والی بولیاں، آوازیں شاید ہی کسی کی بھی سمجھ میںآئیں، بس اُن ہی لوگوں کے پلے پڑتی ہیں جو یہ آوازیں لگاتے ہیں۔ کراچی سٹی ریلوے اسٹیشن کے سامنے اور حبیب بینک پلازہ کے ساتھ والی گلی کے کونے پر کراچی کاٹن ایکس چینج ہے۔ یہاں کچھ عرصے تک ایک فونڈری کا بورڈ بھی نظر آتا تھا۔ جب کمپیوٹر نہ تھا تو ٹائپ کے حروف ڈھالنے والی اس فونڈری کا بڑا نام تھا۔ مونوٹائپ اور لیتھو ٹائپ کی بڑی مانگ تھی۔ کاری گروں اور مالکوں کو سر کھجانے کی فرصت نہ ملتی تھی۔

آئی آئی چندریگر روڈ ختم ہوتے ہی شاہین کمپلکس آجاتا ہے۔ گول سی عمارت۔ نیچے سے اوپر کی طرف اس کا قطر کم ہو تا جارہا ہے۔ اچھے دنوں میں اِس کی چھت پر گھومنے والا ریستوراں بنایا گیا تھا۔ کھانا کھاتے جائیں اور شہر کی ہر سُو پھیلی روشنیاں اور منظر دیکھتے جائیں۔ کچھ عرصے اس ریستوراں میں بھیڑ بھڑّ کا رہا۔ پھر دھیرے دھیرے کم ہوتا گیا۔ ہوتے ہوتے نہ ہونے کا ہو رہا۔ ریستوراں کب تک گھومتا؟ رُک گیا اور اب تک رُکا ہوا ہے۔ 

تازہ ترین