پرتگال کے جہاز راں، واسکوڈی گاما کے بعد سیدی علی رئیس دوسرا جہاز راں تھا جس نے برصغیر کا سفر کیا تھا۔ لیکن دونوں جہاز رانوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ واسکوڈی گاما ایک بحری قزاق تھا، جس کاپیشہ لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھا۔ وہ بحری سفر کرتا ہوا 1498ء میں ہندوستان کے شہر کالی کٹ پہنچا، واپسی میں 16بھارتی ماہی گیروں کو اغواء کرکےپرتگال لے گیا۔ ہندوستان کےدوسرے سفرکے دوران واسکو ڈے گاما نے مسلمان زائرین کے ایک جہاز کو جو کالی کٹ سے مکہ جا رہا تھا اور جس میں 400 حجاج سوار تھے جن میں 50 خواتین بھی تھیں لوٹ لیا اور انتہائی سفاکی سے مسافروں کو قید کر کے جہاز کو آگ لگا دی۔کالی کٹ کے راجہ نے سامو تھری نے جہاز کے مطافروں کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کی اور بڑے پجاری کو گفت و شنید کے لیے واسکو ڈی گاما کے پاس بھیجا ۔ جس نے بڑے پجاری کے ہونٹ اور کان کاٹ دئیے اور کانوں کی جگہ کتے کے کان سی کرلگا دیئے اورپجاری کو راجہ کے پاس واپس بھجوا دیا۔اس کی بہ نسبت سیدی حسن رئیس شریف النفس اورعلم دوست انسان تھا۔ وہ ترکی کی بحری فوج کا سالار تھا، ۔اس نے سندھ میں قیام کے دوران صوفیائے کرام کی خدمت میں حاضر ہوکر دین کا علم حاصل کیا۔ اس نےوادی مہران میں قیام کے دوران علمی و ادبی خدمات انجام دیں اور ایک سفر نامہ بھی تحریر کیا۔اس کا باپ سیدی حسن رئیس ترکی کی مسلح افواج میں امیرالبحر کے عہدے پر فائز تھا۔ اس کو جہاز رانی میں اس قدر مہارت حاصل تھی کہ سیاحت کے پیشے سے وابستہ افراد اس سے جہاز رانی کی تربیت حاصل کرکے کھلے سمندر میں مختلف خطوں کے سفر پر گامزن ہوتےتھے۔ اس کےبیٹےسیدی علی رئیس نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اس نے اپنے باپ سے جہاز رانی کے اصول اور قاعدے سیکھے اور 960ھ کے لگ بھگ ترک حکم راں،سلطان سلیمان ثانی کی ملازمت اختیار کی ۔اس وقت مصر کا بحری بیڑہ ’’پیری بک ‘‘کی کمان میں ایک جنگی مہم کے سلسلے میں سمندر کے سینے پر محو سفر تھا کہ اچانک سمندر میں طوفان آگیاجس کی زد میں بحری بیڑہ بھی آگیا اور اس میں تباہی پھیل گئی۔ طوفان سے بحری بیڑے کے متعددجہاز تباہ ہوگئے باقی بچنے والے جہازانتہائی مشکلات سے گزر کریمن کی بندرگاہ عدن پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
ان جہازوں کی مدد سے پیری بک نے مسقط پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا۔ اسے خبر نہیں تھی کہ پرتگال کا بحری بیڑہ بھی اسی طرف آرہا ہے۔ جب اسے خبر ملی تو وہ اپنے تین جہازوں کو لے کر وہاں سے فرار ہوکر مصر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ان واقعات کا علم ہونے کے بعد مصری بیڑے کی کمان سیدی علی رئیس کو سونپی گئی اور کہا گیا کہ وہ اس مہم کو سر کرے۔ سید علی رئیس نے اپنی جنگی تیاریاں مکمل کیں اور جہازوں کو ضروری اسلحہ اور سامان سے لیس کرکے961ھ کو ماہ محرم حلب میں داخل ہوگیا۔ اس کے مہینے بعد اس نے بصرہ کی جانب اپنی توجہ مرکوز کی اور ماہ صفر 961ھ میں یہ منزل بھی سر کرلی۔ اس دوران اس کے چند جہاز خراب ہوگئے، جس کی وجہ سے اسے کئی دنوںانتظار کرنا پڑا۔ جب انجینئرز نے جہازوں کی مرمت کرکے ان میں پیدا ہونے والی خرابی دور کردی تو وہ اپنی اگلی مہم کے لیے موسم سازگار ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ کئی ماہ کے انتظار کے بعد موسمی صورت حال موافق ہوئی تو وہ ماہ شوال 962ھ میں بصرہ سے جاوا پہنچا۔ یہاںاسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اس کی زندگی کی پہلی بحری لڑائی تھی جس میں اس کو اپنے بحری جنگ کے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ اس نے اپنے مختصر سے بحری بیڑے کی مدد سےدشمن کے کئی گنا بڑے اور طاقت ورر بحری بیڑے کو شکست دی۔ سید علی رئیس کو گجرات کے حکمرانوں نے ملازمت کی پیش کی لیکن گجرات میں تخت نشینی کے مسئلے پرامیدواروں کے درمیان اس قدر اختلاف تھا کہ اس نے گجرات میں رہنے کے بجائے جلد سے جلد وہاں سے نکلنے کو ترجیح دی۔ وہ خیال کرتا تھا کہ اگر اس نے کسی ایک امیر یا حکم رانی کے امیدوارکی ملازمت کی تو تاج و تخت کا دوسراامیدوار اس کا دشمن ہوکر اسے راستے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرے گا۔
سیدی حسن رئیس حسن یکم ربیع الاول 962ھ کو گجرات سے رخت سفر باندھا اور سندھ کی طرف روانہ ہوا۔ 10؍ربیع الاول 962ھ کو وہ سندھ کے شہر ہالا پہنچا۔ یہاں اس کوسخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جرائم پیشہ عناصرنے اس کا راستہ روک لیا اور لوٹ مار کی کوشش کی لیکن اس نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا اور وہاں سے نکل کر ’’کچھ‘‘ کے صحراکو عبور کیا۔ پھر ونگہ کے سفر کی مہم اختیار کی۔ اس مہم کے ختم ہونے پر وہ 26؍ربیع الاول 962ھ کو بدین کے نواح میں موضع فتح باغ پہنچا۔جب سیدی علی رئیس فتح باغ پہنچا تو اس کو سندھ کی فضا انتہائی مسحور کن اور ماحول خوبصورت دکھائی دیا۔ فتح باغ اس وقت وادی سندھ کی حسین ترین تفریح گاہ تھی۔ اسے مرزا شاہ حسن ارغون نے بدین کے قریب آباد دیکھا تھا اور ہمایوں کی آمد کے موقع پر اسے ایک امارت گاہ کی حیثیت دی تھی۔سر سبز و شاداب باغات، شفاف نہریں اور خوبصورت مکانات اس علاقے کا حسن بڑھاتے تھے۔ سید علی رئیس کو فتح باغ میں ٹھہرےہوئے کچھ ہی روز ہوئے تھے کہ اسے معلوم ہوا کہ میرزا شاہ حسن ارغون کے ایک ترخانی امیرمرزا یحییٰ خان نے اس کے شاہ حسن ارغون کے خلاف بغاوت کردی ہے اور اس کے حامیوں کو قتل کردیا ہے۔ واقعہ یہ تھا کہ اس کے آنے سے چند روز پہلے محرم کی ابتدا میں ٹھٹھہ کے ارغونوں نے شاہ حسن سے منحرف ہوکرمرزا یحییٰ کی اطاعت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب مررزا یحییٰ خان کی اطاعت کریںگے کیونکہ وہ نیک دل، متقی اور پرہیزگار ہے۔مرزا یحییٰ خان کے لیے یہ صورت حال انتہائی سازگار تھی اس نے اسے اپنی خوش بختی تصور کرتے ہوئےاپنے دیرینہ محسن شاہ حسن ارغون سے جنگ کا ارادہ کیا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرزا یحییٰ خان،مرزا شاہ حسن ارغون کےدیگر امیروں کی نسبت نچلے درجے پر فائز تھا اور اسے امرء کی صف میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل نہیں تھا۔ اس نے باغیوں پر مشتمل ایک لشکر تیار کرکے ٹھٹھہ اور اس کے گردونواح کے علاقوں میں یورش برپا کردی۔ باغیوں کے حملے میں مرزا شاہ حسن بیگ کے کئی وفادار ساتھی مارے گئے، اس کے اہل خاندان پر الگ مصیبت آئی۔ اس کا تمام خزانہ نصرپور کے مقام پر لوٹ لیا گیا اور ترخانی امیروں میں مال غنیمت کے طور پر تقسیم کیا گیا۔یہ صورتحال مرزا شاہ حسن بیگ کیلئے انتہائی پریشان کن تھی۔ اس نے فوراً اپنے ایک امیر ،سلطان محمود خان کو بکھرکی امارت کا پروانہ عطا کیا اور ہدایت کی کہ وہ تمام باغی امیروں کو گرفتار کرکے اس کے حوالے کردے۔ سلطان محمود خان نے بکھر کا نظم و نسق سنبھالتے ہوئے تمام باغی امیروں کو گرفتار کرکے مرزا شاہ حسن کے پاس روانہ کردیا اور 22؍محرم 962ھ کو اسلحہ سے لیس ایک لشکر لے کر شاہ حسن کے پاس اس کی مدد کیلئے پہنچا۔ یہ لشکر جب مرزا شاہ حسن کی نظر سے گزرا تو اسے بڑی خوشی ہوئی۔ اس نے اس کی کارگزاری اور وفاداری کو ستائشی نگاہوں سے دیکھا اور اس کی کمان میں چار سو جنگی کشتیاںمرزا یحییٰ خان کے مقابلے کیلئے بھیجیں۔
ان دنوں سیدی علی رئیس، فتح باغ ہی میں مقیم تھا۔ وہ لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے حالات کو گہری نظر وںسے جائزہ لےرہا تھا۔ اس دوران ٹھٹھہ سے دو میل دور نالہ سانیا کے مقام پر مرزا عیسیٰ خان اور سلطان محمود خان کے لشکر میں زبردست جنگ ہوئی اور کئی دنوں تک اس کا سلسلہ جاری رہا۔ دونوںجانب کے بہت سے سپاہی اور لشکری مارے گئے۔ اس قدر جانی نقصان اور تباہی کے بعدمرزا عیسیٰ خان کو احساس ہوا کہ یہ خود اس کے لیے نقصان دہ رہے گا اس لیے اس نے مجبوراًباغیوںسے مصالحت کرلی۔سلطان محمود خان نے نالہ سانیا کے مقام پر اپنے جنگی خیمے نصب کررکھے تھے۔ یہاں اس کو ترکی کے امیر البحر سیدی علی رئیس کے سندھ میں آنے کی اطلاع ملی اور قتہ چلا کہ وہ فتح باغ کے مقام پرمقیم ہے۔ سلطان محمود خان نے فتح باغ پہنچ کر اس سے ملاقات کی اور نہایت دلجوئی اور ہمدردی کے ساتھ اسے اپنے ہمراہ لے آیا پھر اس کی وساطت سے وہ مرزا شاہ حسن ارغون کے دربار میں پہنچا۔مرزا شاہ حسن نے اس کی بہادری کے کارنامے سنے تو بڑی مسرت سے کا اظہار کیا اور اس کو اس کے شایان شان انعام و اکرام مرحمت فرمانے کے علاوہ ایک خلعت فاخرہ بھی عطا کی۔ان دنوں سندھ میں عالموں اور صوفیوں کی کمی نہیں تھی۔ وہ اپنے وعظ و نصیحت سے نہ صرف عوام کی رہنمائی کررہے تھے ۔ سیدی علی رئیس کے بھی دل میں خواہش ہوئی کہ وہ یہاں کے چند علماء سے نیاز حاصل کرے۔ اس وقت ٹھٹھہ میں شیخ عبدالوہاب پورانی کی خانقاہ مرکز رشد و ہدایت کا مرکزبنی ہوئی تھی۔یخ عبدالوہاب پورانی اپنے دور کے سرکردہ اور ممتاز مشائخ میں سے تھے۔ وہ بادشاہوں اور امیروں کو ہر ممکن طریقے پر نصیحت کرتے اور راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی مرتب کی ہوئی ’’جامع فتاویٰ پورانی‘‘ ٹھٹھہ اور بکھر میں بہت معروف تھی۔ سیدی علی رئیس نے 962ھ میں شیخ عبدالوہاب پورانی سے ٹھٹھہ میں ملاقات کی۔ عبدالوہاب پورانی کے جدبزرگوار شیخ میرس کا سلسلہ نسب ،عرب شاہی سادات سے ملتا ہے۔ ان کی بیوی شیخ جلال الدین بایزید پورانی کی صاحبزادی تھیں۔ شیخ میرس نے کئی سال تک سندھ میں شیخ الاسلام کےمنصب پرفرائض انجام دیئے۔ اکثر علماء و فضلاء نے ان سے علوم دینی کی تحصیل کی تھی اور اس سلسلے میں پایہ اجتہاد کو پہنچے تھے۔ سیدی علی رئیس کی سندھ میں آمد سے چند ہی روز قبل انہوں نے وفات پائی تھی۔ٹھٹھہ کے بزرگوں اور مشائخ سے ملاقات کے بعد کافی عرصہ سیدی علی رئیس نے مرزا شاہ حسن کی ہمراہی میں گزارا۔ یہ زمانہ مرزا شاہ حسن کی پیرانہ سالی کا تھا۔ اس کی صحت بگڑتی جارہی تھی، اسی حالت میں وہ کشتی میں سفر کرکے بکھر پہنچاجہاں پہنچتے ہی اس کی صحت مزید بگڑ گئی۔ طبیبوں کو یقین ہوگیا کہ وہ زندہ نہیں رہے گا لیکن وہ اسے تسلی دینے اور صحت یاب کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر اس نے 9؍جمادی الاول 962ھ کو انتقال کیا۔ چونکہ سیدی علی رئیس اس کا ہمراہی تھا، وہ اس کی بیماری کی کیفیت سے واقف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ حاجی ماہ بیگم نے اسے زہر دلوایا تھا جو بتدریج اثر کرتا گیا یہاں تک کہ اس کی موت واقع ہوگئی۔ سیدی علی رئیس شاعر بھی تھا۔ اس نے میرزا شاہ حسن کی تاریخ وفات ترکی زبان میں لکھی جو ان کی قبر پر کندہ ہے۔اگرچہ مرز اشاہ حسن بیگ کے ساتھ اس کی رفاقت چند مہینوں سے زیادہ نہیں رہی تھی لیکن وہ اس کی علم دوستی، بندہ نوازی اور حسن اخلاق و بہترین سلوک کا اس قدر گرویدہ ہوگیا تھا کہ ایک لمحے کیلئے بھی اس سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا دل سندھ سے اچاٹ ہوگیا۔ اس نے سلطان محمود خان والی بکھر سے اپنے وطن واپس جانے کی اجازت چاہی۔ بہت مشکلوں سے وہ اسے رخصت کی اجازت دینے پر راضی ہوا۔ سیدی علی رئیس نے بکھر سے ملتان اور اچ کی راہ لی اور وہاں سے ہوتا ہوا لاہور کی طرف نکل گیا۔
اپنے قیام سندھ کے دوران سیدی علی رئیس نے سندھ کے حالات ایک سفرنامے کی شکل میں مرتب کئے ہیں۔ اس سفرنامہ کا نام ’’مراۃ المالک‘‘ ہے۔ اس سفر نامے کی ہماری ادبی تاریخ میں اس اعتبار سے زیادہ اہمیت ہے کہ اس میں بعض اہم واقعات کا انکشاف کیا گیا ہوتا ہے جن تک ہمارے مورخوں کی نظر نہیں گئی ہے یا وہ ان مورخوں کی دسترس سے بہت دور تھے۔ اس سفرنامے کی اس اعتبار سے بھی بڑی اہمیت ہے کہ ہم اس کی مدد سے اپنی تاریخ کے بہت سے واقعات کی تصحیح کرسکتے ہیں۔