• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رفعت علوی

ایک وقت تھا جب عروس البلاد کراچی لسبیلہ کے پل سے اُدھر ہی ختم ہوجاتا تھا اور خاصی چوڑی اور جوش و خروش سے جھاگ اڑاتی لیاری ندی کراچی کے باسیوں کے لئے حد آخر تھی جہاں لوگ اکثر بنسیاں ڈالے سگرٹ کے مرغولے اڑاتے مچھلیوں کا شکار کرتے نظر آتے تھے، لیاری ندی کے دور تلک لق و دق سنسان علاقہ تھا جس میں جنگلات تھے جہاں گیڈر، لومڑی اور دوسرے جنگلی جانوروں کا بسیرا تھا، پھر یوں ہوا کہ پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے لئے ایک نئی بستی بسانے کا پلان کیا، جو لیاری ندی کی دوسری طرف یعنی کراچی کے باہر آباد کی گئی، حکومت نے یہ غیر آباد علاقہ ایک قبائلی سردار مستی بروہی خان سے خریدا اور یہاں کی زمین مہاجرین کو تین روپے پچاس پیسے فی اسکوائر یارڈ کے حساب سے بیچی ، یہ انیس سو باون کی بات ہے۔

راج نے شاقول اور کیرنی سنبھالی، رنگسازوں نے برش اور رنگوں کی بالٹیاں اٹھائیں، فولاد کے بیوپاری لوہے کے ٹرکس بھر بھر کر لانے لگے سمنٹ ریت اور فولاد کے گارے سے مکان بنے، مہاجرین کی پہلی نسل کے مردوں نے مکان بنا کر اپنا فرض پورا کیا اور یوپی کی سگھڑ بیبیوں نے ان مکانوں کو گھر بنا دیا، صحنچے، دالان برامدے گملوں سے اٹ گئے، باہر گھاس کے تختوں کے پاس کی کیاریاں بگن ویلیا رات کی رانی اور عشق پینچاں کے پھولوں سے سج گئیں، گھر کے پچھواڑے میں کدو لوبیا سیم کی بیلوں نے دیواروں کو ڈھک دیا، ٹماٹر میتھی ہرا دھنیا اور پودینے کے ہرے بھرے پودوں کی مہک سے رسوئی خانے مہکنے لگے، کسی نے اپنے گھر پر نشیمن لکھوایا، کسی نے کہکشاں، کوئی کاشانہ بتول لکھوا کر شاد ہوا اور کوئی مصطفے منزل پر قانع ہو گیا، یہ سارے نام ان کے ماضی سے جڑے تھے وہ گھر جو مہاجرین ہندوستان میں نے اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے، یہ صرف ان کے ماضی سے جڑی یادوں کو خراج تحسین ہی نہ تھا بلکہ نئی سرزمین میں اپنی ذاتی ملکیت کے احساس کا اطمینان بخش اظہار بھی تھا، دیکھتے دیکھتے ہی ناظم آباد کراچی کے ایلیٹس کی محبوب بستی بن گیا

یہ تو سب جانتے ہیں کہ کراچی کے نہایت ذہین فطین اور باصلاحیت لوگوں کا قیام ناظم آباد میں ہی رہا ۱۹۵۰ سے ۱۹۷۰ تک ناظم آباد انٹلیکچولز کی رہائش گاہ اور کلچرل ایکٹیویٹیز کا گڑھ تھا، پی آئی بی کالونی، آگرہ تاج کالونی اور بہار کالونی کے پڑھے لکھے لوگوں نے ان علاقوں کو خیر آباد کہہ کر ناظم آباد میں نئے سرے اپنی زندگی شروع کی۔

پورا علاقہ اپنی صفائی ستھرائی کھلے میدانوں اور تازی ہوا کے جھونکوں کی وجہ سے کراچی کے دوسرے علاقوں سے منفرد تھا اور جلد ہی کراچی کے پوش ایریاز میں شمار ہونےلگا، ایک وقت آیا جب ناظم آباد میں گھر بنانا صاحب حیثیت ہونے اور تعلیم یافتہ ہونے کا سمبل بن گیا کراچی کے دوسرے علاقوں کے باسی ناظم آباد کے مکینوںکو مہذب تعلیم یافتہ اور انٹلکچول سمجھتے اور انکی خوش لباسی اور صلاحیتوں سے مرعوب بھی ہوتے،لوگوں نے ناظم آباد کو فرانس کے شہر پیرس میں واقع مونٹ پارناسے نامی علاقے کا ہم پلہ قرار دیا جہاں ایک ہی وقت میں بیکیٹ، پیکاسو، ھیمنگوے، روسو، عذرا پاؤنڈ اور سلازار جیسے بہت سے دانشور اور آرٹسٹ، رقاص، مجسمہ ساز، مصو ر اور شاعر رہا کرتے تھے، گنگا جمنا تہذیب کا جتنا شہر ہ آج ہے اگر اس تہذیب کا نمونہ دیکھنا ہے تو یہاں کے مکینوں سے ملئے، جسٹس لاری، تنقید نگار فرمان فتحپوری، فلم ساز سعید رضوی، عالیہ امام، مجاہد بریلوی، مجنوں گورکھپوری ، مختار زمن، ڈاکٹر سرور، ذکیہ سرور، ڈاکٹر طیب، کالمسٹ نصر اللہ خان ، انعام درانی، کون کون یہاں نہیں رہتا تھا، صادقین، اقبال مہدی، محسن بہوپالی، سنگیتا، زیبا،ندیم شکیل حنیف محمد، اقبال صفی پوری، سحر انصاری اور سلمی زمن جیسے انٹلیجنسیا، رائیٹرز، پوئٹس ارٹسٹ اسکالر، سول سرونٹ، سیاستداں، ڈاکٹرز، گلوکار، وکیل، تعلیمی ماہرین۔ یہ سب لکھنؤ، دہلی، امروہہ، کانپور، بدایوں، علی گڑھ، ملیح آباد، حیدرآباد، جونا گڑھ سے ہجرت کرکے آئے ہوئے نابغہ روزگار لوگوں کی پہلی نسل تھی۔

سرسید گرلز کالج ، ناظم آباد اسکول، ناظم آباد کالج ، عثمانیہ کالج، ہیپی ڈی اسکول، خان صاحب کا پریمیئر کالج، حورانی صاحب کا سٹی کالج، عبدللہ کالج، رابعہ زبیری کا کراچی اسکول آف آرٹ اینڈ کرافٹ، وسطانیہ اسکول کے علاوہ لڑکیوں اور بچوں کی لاتعداد نرسریاں اور اسکول کھلے اور کراچی کے دوسرے علاقے کے قدیم اور معتبر تعلیمی اداروں سے ٹکر لینے لگے۔ کچھ ہی عرصے میں ناظم آباد کے اندر چھوٹے چھوٹے ناظم آباد بن گئے، گولیمار، عثمانیہ کالونی فردوس کالونی، رضویہ سوسائٹی، مسلم لیگ کوارٹرز، پاپوش نگر اور بڑا میدان، جن کی اپنی آبادی چھوٹے شہروں کے برابر تھی، انو بھائی پارک، ہادی مارکیٹ، گول مارکیٹ، نجی اسپتال، صادقین ہاؤس ، سبطین منزل، محسن منزل اور حکیم سعید کی ہمدرد لیباریٹریز کا صدر دفتر بھی تھا، اس علاقے کے لینڈ مارک تھےیہاں پاک کریسنٹ کرکٹ کلب جہاں سے حنیف محمد، وزیر رئیس مشتاق اور صادق محمد نے کرکٹ کھیلی، ظہیر عباس اور آصف اقبال اس کلب سے کھیل کر فخر محسوس کرتے تھے، صلاح الدین سلو اور انتخاب عالم، نیشنل کرکٹ کلب کے قریب رہتے تھے جبکہ رضویہ سوسائٹی کی ٹیم ڈائمنڈ کرکٹ کلب کا مشہور اسپن بولر محمود الحسن تھا۔

آغا جوس ہاؤس، انبالہ سوئیٹ، ملا حلوائی، کیفے ذائقہ،الحسن کافی ہاؤس اور کیفے وزیر کے خوش ذائقہ کھانے، دلی اور اودھ کے کھانوں اور مٹھائیوں کو مات دیتے تھے، کیفے وزیر میں جو دن میں بائیس گھنٹے کھلا رہتا تھا، ایک آنے کی چائے ایک روپے پچاس پیسے کا چکن تکہ اور چار آنے کی نہاری ملتی تھی، ایک پیالی چائے کے عوض آپ اپنے دوستوں کے ساتھ دو دو گھنٹے بیٹھ کر ساحر، فیض، عصمت چغتائی، کرشن چندر، جیلانی بانو، جوش اور اداس نسلوں کے خالق عبدللہ حسین کے علاوہ رونا لیلی، ناہید اختر، خورشید انور، ندیم وحید مراد اور شمیم آرا پر بحث و مباحثہ کر سکتے تھے۔ ناظم آباد کلب اہل ناظم آباد کا ریلیکسییشن پوائنٹ تھا اور پھر غالب لائبریری تھی جس میں تین ہزار سے ذیادہ کتابیں تھیں اور جس کو حبیب بنک نے فیض احمد فیض اور مرزا ظفر الحسن کی کوششوں سے بنایا تھا ، اس زمانے میں یہ ادبی تقریبات کا مرکز تھی، یہاں ریلیکس سینما، نایاب سینما، شالیمار سینما لبرٹی سینما تھے جہاں شرفائے ناظم آباد اپنی فیملیز کے ساتھ فلم دیکھنے جاتے، میٹنی شوز میں گھریلو خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے ہاؤس فل ہوتا، لڑکیاں بالیاں اپنی پڑوس اور کالج کی سہیلیوں کے ساتھ بے خوف و خطر فلمیں دیکھتیں مگر کبھی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت سننے میں نہیں آتی تھی۔

ان دنوں گرمیوں میں گھر کے دالان صحن اور چھتوں پر سونے کا عام رواج تھا۔ کھڑکیاں کھلی رکھی جاتیں جن سے فراٹے بھرتی ہوا پورے گھر کو فیضیاب کرتی، چوری چکاری، اسٹریٹ کرائمز، ڈاکے کلاشنکوف کا نہ ڈر تھا اور نہ کوئی تصور تھا پھر محرم آتا تو زیڈ اے بخاری اور رشید ترابی کی مجلسوں اور شہدائے کربلا کے اذکار سے ناظم آباد کی گلیوں میں سوگواروں کے جمگھٹے لگ جاتے، سبیلیں لگتیں لڑکے لڑکیاں سیاہ لباس پہنے ایک گھر سے دوسرے گھر مجالس میں شریک ہوتے اور مجال ہے کوئی شیعہ سنی کے اختلاف کی بات بھی سنی گئی ہو۔

چراغوں کا دھواں ہوگئے ہیں، وہ زمانے رفتگاں ہو گئے ہیں، آج یہ سب باتیں ایک خواب سی لگتی ہیں، مگر جو لوگ ان سنہرے برسوں میں ناظم آباد کی اس گولڈن لائف کا حصہ رہے ہیں وہ آج بھی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس یادگار دور کو یاد کرتے ہیں اور گنگناتے ہیں کہ:

قصہ ناظم آباد مرحوم کا اے دوست، نہ چھیڑ……

تازہ ترین