• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کے چند قدیم علاقے مچھی میانی مارکیٹ، ککری گراونڈ اور کھڈہ

کھتری عبدالغفور کانڈاکریا

کھارادر کا بیرونی حصہ جو ماری پور روڈ اور اسمعیلی جماعت خانہ کے قریب ہے ، مچھی میانی کا علاقہ کہلاتا ہے۔1852تک یہ پورا علاقہ ماہی گیروں کی بے ترتیب جھونپٹریوں اور ایک بڑے میدان پر مشتمل تھا ۔ یہاں کے باسی اور آس پاس کے ماہی گیر قریب ہی واقع سمندر سے مچھلیاں پکڑ کراس میدان میں فروخت کرتے تھے۔نسل درنسل سمندر سے رزق حاصل کرنے والے ان قناعت پسند اور حال مست لوگوں اور بندرگاہ پر مزدوری کرنے والوں کے لیے انگریزی حکومت نے1852میں ایک رہائشی پروجیکٹ کا اعلان کیا ۔ اس کے تحت ان کم آمدنی والے لوگوں کے لیے ارزاں قیمت پر جھونپڑیاں فراہم کی گئیں۔ ان جھونپٹریوں کی حیثیت عارضی تھی ۔ پھر کچھ عرصے بعد انہیں اجازت دی گئی کہ وہ انہیں مکانات کی شکل میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس نوتعمیر شدہ نئی بستی میں مچھیروں کے ایک قبیلے میانے، کے افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ میدان میں فروخت ہونے والی مچھلیوں کو صاف ستھرے طور پر فروخت کرنے کے لیے1855میں ایک باقاعدہ مارکیٹ تعمیر کی گئی، جس کا نام مچھی میانی مارکیٹ رکھا گیا۔

مچھلی گوشت، کھانے پینے کی دیگر اجناس اور کپڑے سمیت کئی اشیا کے ایک ہی مارکیٹ میں ملنے اور اس کے باہر موجودپتھاروں سے دیگر اشیا صرف کی دست یابی کے سبب یہاں کھارادر، میٹھادر، کھڈہ، کیماڑی، منوڑہ اور بابا بھٹ کے رہائشی آج بھی کافی سہولت محسوس کرتے ہیں۔ اس مارکیٹ کو کراچی کی پہلی باقاعدہ مارکیٹ کا اعزاز حاصل ہے۔ مچھی میانی مارکیٹ سے لی مارکیٹ کی طرف جاتے ہوئے ایمبینک منٹ روڈ پر بائیں جانب ہر ایک قدیم میدان نظر آتا ہے۔ یہ ’’ ککری گروانڈ‘‘ ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب لیاری ندی کا رخ بند باندھ کرماری پورروڈ کے قریب سمندر کی طرف ابھی نہیں موڑا گیا تھا ، اور یہ پانی لیاری کے بڑے حصے میں پھیل کر قدرتی ڈھلان کے باعث موجودہ گھاس منڈی سے بہہ کرلی مارکیٹ سے گزرتا ہوا ککری گراونڈ کے میدانی علاقے سے ہوتا کھارادر کے قریب سمندر میں گرجاتا تھا ۔ ہوسکتا ہے پانی کے بہاو کے ساتھ آنے والی ریت اور کنکر یہاں جمع ہوتے رہے ہوں۔ اور پھر جب1911میں لیاری ندی کا رخ موڑے جانے کے بعد یہاں مکانات کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا تو مکینوں کے لیے کھیلوں کے میدان کی ضرورت کے پیش نظر کنکروں سے بھرے اس حصے کو میدان کی شکل دے کراس کا نام ککری گراونڈ رکھ دیا گیا۔ سندھی اور کچھی زبان میں ککری، کنکر کو کہاجاتا ہے۔

ککری گراونڈ کے سامنے پڑنے والی گلیاں میٹھادر کی طرف کھل رہی ہیں۔ کھارادر اور میٹھا در اٹھارویں صدی میں آباد ہونے والی کراچی کی اولین آبادیوں میں سے ہیں۔ کھلی سڑکوں اور ایک ترتیب سے بنے ہوئے مکانات کے حامل کھارادر کے برعکس، میٹھادر کی گلیاں نہ صرف تنگ اور پرپیچ ہیں، بلکہ کئی گلیوں میں تو باقاعدہ زینے بنے ہوئے ہیں۔ لگتا ہے اونچے نیچے ٹیلوں پر جس کو جہاں جگہ ملی ، اس نے اپنا ڈیرہ ڈال دیا۔ اور پھر وقت گزرنے کے بعد یہ عارضی ڈیرے پکی عمارتوں میں ڈھل گئے۔ جڑواں علاقہ کھارادر کی طرح یہاں بھی راتیں جاگتی ہیں۔

میٹھادر کے ساتھ ہی کراچی کی ایک ایسی مارکیٹ بھی ہے جس کے بارے میں برملا کہا جاسکتا ہے کہ شہر کی کوئی خاتون ایسی نہ ہوگی جواس سے واقف نہ ہو۔ یہ شہرکی، سونارا بازار( صرافہ بازار) ہے اسے جدید کراچی کا اولین صرافہ بازار ہونے کا شرف حاصل ہے۔

اب ہم ایمبینک منٹ روڈ پر ککری گراونڈ کے پچھلے حصہ سے ندی کے پرانے بہاو کے ساتھ اندر کی جانب جاتے ہوئے اس کے سمندر میں گرنے کے مقام پر پہنچ گئے ہیں۔ خودرو جنگلی جھاڑیوں سے اٹا یہ علاقہ ، کھڈہ ہے۔

لفظ ‘کھڈہ‘ کا مطلب سمجھنے کیلئے کسی تشریح کی ضرورت نہیں۔ یہ علاقہ بھی لیاری ندی کے سمندر کی طرف جانے کے پرانے راستے پرتھا۔1911میں جب ندی کارُخ موڑا گیا توپانی سوکھ جانے کے بعد ایک بڑا کھڈہ منظر عام پر آیا۔ کئی عرصے تک اس بے آباد علاقے کو کھڈے کے نام سے پکارا جاتا رہا ۔ کھڈہ کے علاقے میں رہائش پذیر ماہی گیر قبیلوں کے ذمے دار ، اور معمر افراد اپنے بزرگوں کے حوالے سے اس بستی کے قائم ہونے کی وجوہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج جہاں کے پی ٹی(KPT)کی عمارت ہے وہیں کچھ ماہی گیر قبیلے آباد تھے۔ پھر جب انگریزی حکومت کو یہاں مذکورہ عمارت کیلئے زمین کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس نے ان ماہی گیروں کو موجودہ کھڈہ کے علاقے میں منتقل کردیا، اور ساتھ یہ رعایت بھی دی کہ ان پلاٹوں کا مالکانہ حقوق غیر معینہ مدت کے لیے ہوں گے۔ کھڈہ کے حوالے سے چند ایسی نامور ہستیاں بھی ہیں، جن کے بغیر کراچی کی علمی،دینی اور سیاسی تاریخ نامکمل ہی کہلائے گی۔ ان میں حاجی عبداللہ ہارون ، محمد صادق کھڈے والے اور حکیم فتح محمد سہوانی سرفہرست ہیں۔ مولانا محمد صادق کھڈے والے،کھڈہ کے علاقے میں اپنے والد گرامی کے قائم کردہ مدرسہ، مدرسہ مظہرالعلوم میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے والا یہ نونہال آگے چل کر فرنگی استعمار کے خلاف چلنے والی تحریکوں کے ہر اول دستے کارکن بن گیا۔

مولانا محمد صادق کی کھڈہ سے اتنی گہری وابستگی تھی کہ وہ کھڈہ والے کے نام سے معروف رہے ۔ ان کی سیاسی خدمات اور ان کی والد کی دینی خدمات جن میں1884میں قائم کئے ہوئے ، مدرسہ مظہرالعلوم، اور بعد میں، فردوس مسجد، کے قیام کی بناپر یہ دونوں کھڈہ کی بستی کے لیے قابل فخر ہیں۔

سرعبداللہ ہارون۔چینی کے بادشاہ کہلانے والے اس تاجر نے 1913 میں سیاست کے عملی میدان میں قدم رکھا، مگر سیاسی سہاروں کواپنے کاروبار کی وسعت کے لیے استعمال نہیں کیا۔ بلکہ جاری کاروبار سے ہونے والے منافع کے ایک بڑے حصے کو مسلمانان ہند کی سیاسی اور معاشی بدحالی کے تدارک کے لیے استعمال کیا۔ قوموں کی آزادی سلب کرکے اسے غلام بنانے والے حاکم، مفتوحہ قوم کے افراد کا دل جیتنے کی کوشش میں انہیں کئی سہولتیں بہم پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن آزادی کا کوئی نعم البدل نہیں ہوا کرتا ۔ ہر شخص آزادی کا خواہاں تو ہوتا ہے۔مگر وہ انفرادی طور پر کچھ نہیں کرسکتا، اسے رہنما درکار ہوتے ہیں، جو تحریک لے کر چلیں۔ مگر قباحت یہ ہے کہ ان تحریکوں کے لیے سرمایہ چاہیے۔ اور اگر کسی تحریک کو مخلص رہنما اور سرمایہ میسر آجائے تو وہ تحریک غاصبوں کوناکوں چنے چبواسکتی ہے۔ آزادی کے لیے چلنے والی تحریکوں کو کراچی سے خوش قسمتی سے ایسا فرزند بھی مل گیا۔ جس نے نہ صرف ان تحریکوں میں حصہ لیا، بلکہ سرمایہ بھی فراہم کیا۔ ریشمی رومال تحریک ہو یا خلافت تحریک ہران دوتحریکوں کونہ صرف ان کی قائدانہ صلاحیت میسر رہی، بلکہ مالی اعانت بھی حاصل رہی ۔ ’’ روزنامہ الوحید‘‘ کے اجرا میں ان کاخصوصی مالی تعاون شامل تھا۔ بعد میں تحریک پاکستان میں بھی ان کی خدمات قابل تحسین رہیں۔ سندھ کے عوام میں بیداری کی خاطر مدرسے، اسکول اور کالج بھی قائم کئے۔ 1927میں کھڈہ کے علاقے میں، مدرسہ جامعہ اسلامیہ اور یتیم خانہ کے قیام سے اہلیان کراچی مستفیض ہوئےاور آج بھی ہورہے ہیں۔

تازہ ترین