• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  پروفیسر انوار احمد زئی

یہ اس دن کا قصہ ہے جس دن میرے بیٹے کا میٹرک کا نتیجہ آیا اور وہ نمایاں نمبروں میں کام یاب ہوگیا تھا۔ میں نے اس دن باہر کھانے کی نوید سنائی تھی اور بیٹے سے کہا تھا کہ آج میں تمہیں ایک عجیب جگہ بھی دکھائوں گا۔ وہ بہت خوش تھا کہ وہ عجیب جگہ دیکھے گا۔ میں گاڑی چلا کر بیوی، بیٹی اور بیٹے کے ساتھ کبھی کے ’’اولڈ کلفٹن‘‘ کے کونے پر لے گیا، جہاں کبھی سینٹ پیٹرکس اسکول کی خُوب صورت اور وجیہہ سرخ رنگ کی عمارت اس منظر کو مزید دل کش بناتی تھی۔

میں گاڑی سے اترا اور بیٹے کے ساتھ دیگر کو اس منڈیر کے کنارے لے گیا، جو ابھی تک سطح کے بالائی علاقے کو زیریں علاقے سے جدا کررہی تھی۔ بیٹا بے قرار تھا، نئی جگہ دیکھنے کے لیے… میں جب منڈیر کے سِرے پر پہنچا تو میں نے اپنے بیٹے سے پوچھا ’’سامنے کیا نظر آرہا ہے؟… اس نے ایک بار پھر دُور تک دیکھتے ہوئے کہا!! وہ اپنے سامنے سڑکیں، پختہ مکانات، خُوب صورت عمارتیں، بجلی کے کھمبے اور ان پر دمکتے بلب دیکھ رہا ہے…میں نے کہا یہی وہ عجیب جگہ ہے جو تمہیں دکھانے میں یہاں لایا ہوں… اس نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا ’’اس میں عجیب چیز کیا ہے؟‘‘ میں نے جواب میں کہا کہ آج تمہارا میٹرک کا نتیجہ آیا ہے، تو تم ان عمارتوں کو دیکھ رہے ہو ، جب میرا میٹرک کا نتیجہ آیا تھا تو مجھے میرے ماموں بھی اس جگہ لائے تھے، میں اس منڈیر کے ساتھ ٹکرانے والے سمندر میں نہایا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ وقت کے ساتھ سمندر کا رُخ بدل گیا یا، اسے بدل دیا گیا اور اب یہاں آبادی ہے، سمندر یہاں سے بہت دور چلا گیا، اسی کو زندگی کی تبدیلی اور وقت کا بدلنا کہتے ہیں۔

یہ بات تو بیٹے کے لیے تھی، مگر حقیقت یہ ہے کہ اب سے کئی سال پہلے جب میں کراچی آیا تھا، تو وہ کراچی آج کے کراچی سے بہت مختلف تھا۔ اب یہی دیکھیے نا کہ اولڈ کلفٹن تفریح پسندوں کا مرکز ہوا کرتا تھا، رات گئے یہاں فن کاروں، لوک موسیقاروں اور روپ بہروپیوں کا میلہ لگا رہتا تھا۔ سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا اور بچے، جوان اور مہم جو حضرات اس میں غوطے لگاتے تھے، چاروں طرف پکوان کی دُکانیں تھیں اور چٹورے تفریح بازوں کے چٹخارے۔ آج یہ پوش علاقہ ہے اور اہل ثروت کا ٹھکانہ ہے۔

اصل شہر قائداعظم کے مزار پر ختم ہوجاتا تھا۔ بہت آگے ویرانوں سے گزر کر لالو کھیت آتا تھا جو اس وقت تک لیاقت آباد نہیں تھا، اسی طرح ایف سی ایریا یعنی فیڈرل کیپٹل ایریا نہیں بسا تھا۔ یہ آبادی صوبائی دارالحکومت کے کارندوں سے وفاقی ملازمین کو الگ کرنے کے لئے بسائی گئی تھی، جب ان کی ضرورت بڑھی تو ایف بی ایریا یعنی فیڈرل بی ایریا آباد کیا گیا۔ آج جیکب لائنز کا پرشکوہ اور گنجان آباد تجارتی مرکز ہے، اس وقت یہاں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی آبادی تھی۔ کسمپرسی، بے چارگی، غربت، ہجرت اور ناآسودہ عناصر کی منہ بولتی تصویر آبادی اور ویرانے کے درمیان کی چیسز تھی۔ یہاں لٹے پٹے قافلے زندگی گزارنے کی سعی کررہے تھے۔ میک شفٹ دُکانیں تھیں، پتھارے تھے، خوانچے تھے، کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے کیبن تھے۔ یہاں کے بے سروساماں لوگ خود خوانچے سجاتے اور شام کو سر پر رکھ کر اپنے جھونپڑے نماٹھکانوں میں لے جاتے۔ مگر ان لوگوں میں پاکستان سے محبت کا عجب جذبہ اور اسے آراستہ کرنے کا عجب جنون تھا۔ انہیں اس کا غم نہیں تھا کہ اس طرف کیا چھوڑ آئے، جائیدادیں، مکانات، املاک، زمینیں اور سب سے بڑھ کر خونی رشتے، عزیز رشتے دار، انہیں تو بس اس بات کی فکر تھی کہ اس نو آزاد ملک کو کس طرح مضبوط، توانا، خودکفیل اور آزاد رکھا جائے۔ اس وقت کراچی کی آبادی کم اور ترتیب اور تزئیں زیادہ تھی، ہر رات سڑکیں دھلتی تھیں اور نئی صبح چمکتی نظر آتی تھیں۔ بسوں میں رش کم ہوتا تھا، نجی گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں اس لئے ٹریفک کا نظام قدرے آسودہ اور بہتر تھا، چوراہوں پر سگنل نہیں تھے، مستعد سپاہی موجود رہتے تھے، البتہ کفایت شعاری کے تحت وہ پتلون کی جگہ لمبا سا نیکر پہنتے تھے۔ ٹرام پسندیدہ سواری تھی،خصوصاً نوجوانوں اور اسکول جانے والے لڑکوں کے لیے۔ ٹاور سے ایمپریس مارکیٹ اور صدر تک چلنے والی ٹرام اپنی پٹری پر چلتی تھی، جو سڑک کے بیچ بچھائی گئی تھی، اس طرح ٹرام کی پٹری خودبہ خود دو طرفہ ٹریفک کو تقسیم کردیتی تھی۔ ایک رو جانے کے لیے دوسری آنے کے لیے۔ ٹرام اصل میں ’’دو ‘‘ منہ کی سواری ہوتی تھی، یعنی جہاں اس کا مین ٹرمینل آگیا، وہاں ٹرام کا ڈرائیور اپنے اس ڈبے سے اترا جس میں اس کے لیے مختصر جگہ ہوتی تھی ، جہاں سے وہ کھڑے کھڑے ٹرام چلاتا اور ٹریفک کو تنبیہ کرنے کے لیے خودکار سیٹی بجاتا تھا ۔ پھر وہ اتر کر دوسرے سِرے کے اس ڈبے میں آجاتا تھا، جس کا رُخ نئی سمت اور نئے ٹرمینل کی طرف ہوتا تھا۔

صدر کا علاقہ مسیحی اور مجوسی برادری کا مرکز تھا۔ تاہم یہ شہر تہذیبی اعتبار سے منضبط ہورہا تھا۔ بعض چائے خانے ایسے تھے، جس میں شام کو کہیں کہیں دن کو بھی دانش وروں، شاعروں، پروفیسروں، نقادوںاور ادیبوں کے گروہ کبھی نہ ختم ہونے والی بحثوں سے اپنے وجود کا ثبوت دیتے تھے۔ ان ٹھکانوں کو طالب علموں کے لئے غیر رسمی دانش گاہیں کہا جاسکتا ہے۔ سستا زمانہ تھا، ایک اسکول ٹیچر کی تنخواہ 65 روپے تھی اور اسی تنخواہ پر عظیم دانش ور حکیم محمد سعید بھی کوتوال بلڈنگ اسکول میں پڑھاتے تھے، پھر انہوں نے اپنی دنیا اپنے ارادوں سے آباد کی۔ اس وقت بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدوں پر جو لوگ فائز تھے، ان میں سے تقریباً تمام ہی اد ب نواز، ادب پرور اور ادب دوست ہوتے تھے، ا س لیے آئے دن مشاعروں، مذاکروں اور محاکموں کا اہتمام تھا، طلبہ تنظیمیں فعال اور متحرک تھیں ، مگر اصولی سیاست ان کا شعار تھا۔ نقل مکانی کے سبب افراتفری تو تھی، مگر لاقانونیت خال خال تھی، لوگ تھانے دار کے ڈر سے نہیں پڑوس میں بدنام ہونے کے خوف سے غلط کام نہیں کرتے تھے۔ بداعمالی، چوری چکاری اور غنڈہ گردی تھی، مگر بے لگام نہیں تھی۔ مگر اسی دوران تعمیر میں جو تخریب کی پیوند کاری ہوئی، وہی آج تک ہمارے عذابوں کی کہانی ہے!!

تازہ ترین