انسان کی جہاں محبت ہو، وہاں وہ کبھی کبھی لبرٹی بھی لے لیتا ہے۔ چنانچہ آج میرا ارادہ علامہ طاہر القادری سے لبرٹی لینے کاہے۔ مجھے یقین ہے وہ مائنڈ نہیں کریں گے۔ دراصل اس جسارت کا خیال دو اخباری خبروں کی وجہ سے میرے دل میں پیدا ہوا۔ ایک خبر روزنامہ ”پاکستان“ کی ہے جس کے مطابق کنیڈین حکام نے علامہ صاحب کے کنیڈین ملکہ سے وفاداری کے مبہم بیان کا نوٹس لے لیا ہے۔ خبر کے مطابق ”تحریکِ منہاج القرآن کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے کنیڈین شہریت اور وہاں کی ملکہ کے حلف کے متعلق مبہم بیان کا سخت نوٹس لیا گیا ہے۔ کنیڈین حکومت نے پاکستان میں موجود اپنے سفارتخانے سے بھی تفصیلات طلب کرلی ہیں جبکہ کینیڈا میں رائل کنیڈین ماؤنٹین پولیس نے بھی کارروائی کا آغازکردیاہے قانونی ماہر بیرسٹر ظفراللہ خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ طاہر القادری نے جس طرح کینیڈا کی ملکہ کی وفاداری کے حلف کے بارے میں باتیں کی ہیں اس پر وہاں کے قوانین کے مطابق نہ صرف ان کی شہریت کینسل ہوسکتی ہے بلکہ وہاں جانے پرانہیں گرفتار بھی کیا جاسکتاہے اور ملکہ کی وفاداری کے حلف سے مکرنے پر وہاں کے قانون کے مطابق عمرقید سمیت سخت سے سخت سزائیں بھی دی جانے کا امکان ہے!“
علامہ طاہر القادری چونکہ ان دنوں بہت انڈر پریشر ہیں اورظاہر ہے یہ خبر پڑھ کر ان کی پریشانی میں اضافہ ہی ہواہوگا چنانچہ انہیں میرا مشورہ ہے کہ وہ کینیڈا کی شہریت برقرار رکھنے کے لئے اس کو ّے کی تقلید کریں جو ایک مولوی صاحب کی روٹی اٹھا کر بھاگ گیا تھا۔ مولوی صاحب نے اسے پیچھے سے آواز دی اور کہا ”میری روٹی واپس کردو ورنہ میں فتویٰ دے دوں گا کہ کو ّا حلال ہے۔“ یہ سنتے ہی کوّا اُڈاری مار کرواپس آیا اورروٹی مولوی صاحب کو واپس کرتے ہوئے کہا ”حضرت! آپ خواہ مخواہ سنجیدہ ہو گئے میں تو مذاق کررہا تھا!“ علامہ صاحب بھی پہلی فرصت میں کنیڈین حکام کو خط لکھ دیں کہ ”جناب! آپ خواہ مخواہ سنجیدہ ہورہے ہیں میں تومذاق کر رہا تھا!“
دوسری خبر ٹی وی چینلز کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ پہلے تو علامہ صاحب نے پورے یقین سے ٹی وی پر کہاکہ طالبان ان پر حملہ نہیں کریں گے۔ اس کے بعد طالبان کے ترجمان نے بھی ایک رپورٹر سے فون پر بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ”طاہر القادری صاحب سے ان کے اختلافات ضرور ہیں لیکن ان کی طر ف سے حملے کی کوئی دھمکی نہیں دی گئی کیونکہ ہم حملہ پہلے کرتے ہیں اس کی ذمہ داری بعد میں قبول کرتے ہیں!“ طالبان کی طرف سے یہ بیان آنا بہت ضروری تھا ورنہ یہ سمجھا جاتا کہ ملک میں جمہوریت کو بچانے کے لئے تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں اکھٹی ہو رہی ہیں اور شاید تحریک طالبان بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ جبکہ طالبان کو یقین ہے کہ ملک میں جو انارکی بموں کے پھٹنے سے ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ انارکی علامہ صاحب کے لانگ مارچ سے جنم لے گی۔ سو ان کی طرف سے یہ اشارہ ہے کہ علامہ صاحب کے عقیدت مند بلاخوف و خطر اور جوق در جوق لانگ مارچ میں شریک ہوں۔ ان کی جانوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ طالبان کے ترجمان سے پہلے علامہ صاحب کی طرف سے متذکرہ خبر کو ”لیک“ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں ”جمہوریت پسند“ جماعتوں کے درمیان براہ راست بھی رابطہ ہواہے!
علامہ صاحب سے اپنی محبت کی بنیاد پر میں نے جو لبرٹی لینا تھی وہ میں نے ل لی۔ اب میں دوبارہ مودب ہوں چنانچہ مجھے علامہ صاحب کے ناقدین کے کچھ اعتراضات کے جواب دینا ہیں۔ میں نے اپنے گزشتہ کالم میں جس بدباطن دشمن کا ذکر کیا تھا جس کا دل علامہ صاحب کے لئے عناد، بغض، کینے اور حسد سے بھرا ہوا ہے، وہ آج پھر میری طرف آیا تھا۔ میں نے اسے بالکل منہ نہیں لگایا ۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو میری بے رخی دیکھ کر میرے پاس ایک منٹ بھی نہ ٹھہرتا لیکن وہ ڈھیٹ بن کر بیٹھا رہا۔ کافی دیر تک اس کی انٹ شنٹ گفتگو سن کر میں بالاخر پھٹ پڑا۔ میں نے کہا ”انسان کو اتنا متعصب بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ سامنے کی چیزوں کا بھی انکار شروع کردے۔ علامہ صاحب نے لاہور میں بیس لاکھ افراد پر مشتمل جو عظیم الشان جلسہ منعقد کیا وہ پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کے دلی جذبات کا ترجمان تھااور تم ان عوامی جذبات کی مسلسل توہین کرتے چلے جارہے ہو!“ اس پروہ اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے ہنسا اور بولا ”کسی ایک صحافی کی خبر اور کسی بھی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ میں اس جلسے کے حاضرین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ قرار دی گئی ہوتو مجھے اس کا حوالہ ضرور دینا۔ دوسری بات یہ کہ اس جلسے کے ڈیڑھ لاکھ سامعین تمہارے علامہ صاحب کے بھولے بھالے ذاتی عقیدت مند تھے۔ وہ پاکستانی عوام کے ترجمان نہیں تھے۔ رائے ونڈ میں تبلیغی جماعت والوں کا اس سے کئی گنا بڑا اجتماع ہوتاہے۔ اس ملک میں ”دعوت ِ اسلامی“ والے بھی ہیں لیکن یہ سب ایک مخصوص طبقے کے ترجمان ہیں۔ ان کے خیالات قابل قدر تو ہوسکتے ہیں لیکن انہیں اٹھارہ کروڑ عوام کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ تمہارے علامہ صاحب کابھی اپنا ایک سیکٹرہے، وہ یقینا اس کے ترجمان ہیں لیکن صرف اسی کے ترجمان ہیں!“ اس موقع پر فارسی کا ایک مقولہ ”جوابِ جاہلاں باشد خموشی“ میرے بہت کام آیا!
تاہم اس کے باوجود اس کی جہالت آمیز گفتگو کا سلسلہ ختم نہیں ہوا، چنانچہ اس نے ایک نئی بات شروع کردی، بولا ”تمہارے علامہ صاحب کہتے ہیں کہ وہ چالیس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد میں ھرنا دیں گے۔ میں تمہارے ساتھ وعدہ کرتاہوں کہ اگر ان کے مجمع میں چند ہزار سے زیادہ لوگ ہوئے اور تمہارے علامہ صاحب ان لوگوں کے ساتھ کھلی جگہ پر ایک دن اور رات بھی گزار سکیں تومیں ان کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا۔“اس کی دوسری بات تو بہت تھرڈ کلاس تھی۔ وہی ٹائلٹوں والی کہ وہ اگر چالیس لاکھ لوگوں کے اجتماع کی بات کرتے ہیں تو ان کے لئے اتنے ٹائلٹس کیسے تعمیر کریں گے؟ گفتگو کے اس مرحلے پر ادھر سے گزرتے ہوئے بھولا ڈنگر بھی آن ٹپکا اور اس نے دخل درمعقولات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈنگروں ایسی ہی بات کی۔ بولا ”تم علامہ صاحب کی تنظیمی صلاحیتوں سے واقف نہیں ہو۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ چالیس لاکھ لوگوں کے لئے ٹائلٹس کا انتظام ممکن نہیں، چنانچہ انہوں نے گارمنٹس کی ایک فیکٹری کو چالیس لاکھ پیمپرز کا آرڈر بھی دے دیا ہے۔“ اس کے بعد سنجیدہ گفتگو کی گنجائش کہاں رہتی تھی؟