• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر مہاتیر بن محمد ملائیشیا کے قومی ہیرو کے علاوہ ہمارے وزیرِاعظم کے آئیڈیل بھی ہیں اور اُن کا شمار دنیا کے عظیم قائدین میں ہوتا ہے۔ وہ یومِ پاکستان 2019کی پریڈ میں مہمانِ خصوصی تھے، جنہیں دیکھ کر پاکستان کے عوام خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اُن کے ہمراہ ایک بڑا وفد بھی آیا تھا، جس میں اقتصادی ماہرین، کاروباری شخصیتیں اور ترقیاتی اُمور کے ماہرین بھی شامل تھے۔ اُنہوں نے اپنا زیادہ وقت دو طرفہ مفادات کو فروغ دینے اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے کی راہیں تلاش کرنے میں گزارا۔ دونوں طرف کے وفود نے اندازہ لگایا کہ دو طرفہ تجارت کا حجم 22؍ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پاکستان ملائیشیا کو افرادی قوت فراہم کرے گا۔ سب سے بنیادی بات یہ سامنے آئی کہ ملائیشیا پاکستان سے جے ایف تھنڈر طیارے اور میزائل خریدے گا، جو امریکی اسلحے کے مقابلے میں زیادہ قابلِ اعتماد ہیں۔

اِس بار پریڈ اِس اعتبار سے بڑی منفرد تھی کہ پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے جدید ترین اسلحے کی کمال مہارت سے نمائش کی، جس سے پوری دنیا پر اِس حقیقت کا نقش قائم ہوا کہ پاکستان داخلی اور خارجی چیلنجز سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِس فوجی پریڈ سے پاکستانی عوام کے حوصلے بلند ہوئے کہ ہمارے ہوا باز دنیا کے بہترین ہوا بازوں میں شمار ہوتے ہیں اور ہماری بحریہ نے چین کی مدد سے ایٹمی آبدوزیں بنا لی ہیں، جو انڈیا کی بلیو نیوی کو بحرِہند میں بالادستی قائم کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ یہ راز تو اب سبھی کو معلوم ہے کہ پاکستان بھارتی یلغار کو روکنے کے لیے چھوٹے بم تیار کر چکا ہے۔ فوجی پریڈ میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کی آمد نے سماں ہی کچھ اور باندھ دیا تھا۔ مسرت بھرے لمحات کے دوش پر جذبوں کی قندیلیں فروزاں تھیں اور مشکبار آرزوؤں کے اُفق تاحدِ نظر پھیلے ہوئے تھے۔ مہمانِ خصوصی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان کی جب جدوجہد جاری تھی، تو محکوم اور پسماندہ مسلمان ممالک یہی سمجھ رہے تھے کہ اُن کی آزادی کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اِس اعتبار سے پاکستان پوری مسلم اُمہ کی اُمنگوں کا مرکز اور ہم سب اِس کے دست و بازو ہیں۔ مسلم قیادتیں اگر کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملا کر چلنے کا مصمم ارادہ کر لیں، تو یقینی طور پر بساطِ عالم پر ایک موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اب مہاتیر محمد 93سال کے ہیں لیکن جواں فکر کے حامل دکھائی دیتے ہیں، وہ ایک طویل وقفے کے بعد دوبارہ وزیرِاعظم منتخب ہوئے ہیں۔ جب اُنہوں نے پہلی بار اقتدار سنبھالا تھا، تو ملائیشیا کی سیاسی اور معاشی حالت بڑی دگرگوں تھی۔ نسلی فسادات رکنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ ملائی جو اکثریت میں تھے، بہت پس ماندہ اور منتشر تھے۔ چینی آبادی دوسرے نمبر پر تھی جو معاشی طور پر بڑی خوشحال تھی۔ ہندو بھی بڑی تعداد میں تھے، جو انگریزوں کے زمانے سے آباد چلے آ رہے تھے اور تجارت میں پیش پیش تھے۔ ایک چھوٹی سی اقلیت پاکستانیوں کی بھی تھی۔ جناب مہاتیر محمد نے بڑے تدبر اور تحمل سے فسادات پر قابو پایا اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں اور نسلی گروہوں کے درمیان ایک توازن قائم کیا۔ ملائی آبادی کی حالت سنوارنے کے لئے حکیمانہ اقدامات کئے۔ نوجوانوں کے سینوں کو اُمید کی روشنی سے مزین کیا اور معیشت کے اندر استحکام پیدا کرنے کےلئے دور رس پالیسیاں وضع کیں، جن کا بنیادی مقصد خود انحصاری کی منزل تک پہنچنا تھا۔ سالہا سال کی کاوشوں سے وہ اپنے ملک کو خودکفیل بنانے میں اِس درجے کامیاب ہوئے کہ جب 1980میں عالمی کساد بازادی کا خوفناک طوفان آیا، تو نمائشی معیشتیں زمیں بوس ہوتی گئیں، مگر ملائیشیا مضبوطی سے اپنے پاؤں پر کھڑا رہا۔ میں پہلی بار 1982میں ملائیشیا گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کی سڑکیں ربڑ کی طرح ملائم اور صاف ستھری ہیں۔

وزیرِاعظم عمران خان اور وزیرِاعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے جب مشترکہ پریس کانفرنس کی تو جناب مہاتیر نے اپنی معیشت کی ترقی کا راز نہایت اثر انگیز الفاظ میں افشا کیا کہ معیشت کی ترقی اور استحکام کے لیے داخلی استحکام ناگزیر ہے، اِس لیے ہم نے پہلے داخلی استحکام پر ساری توجہ مرکوز کی، جس کے نتیجے میں ہماری ملکی معیشت میں استحکام آتا گیا اور اس کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہونے لگا۔ جناب مہاتیر محمد سے جناب انور ابراہیم کے سلسلے میں جو فاش غلطی سرزد ہوئی تھیں، وہ اس کا کفارہ ادا کرنے کی اِن دنوں کوشش کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے حقیقی عظمت کا ثبوت دیا ہے۔ ہمارے بیشتر مسلمان ملکوں میں حکمرانوں کی ذاتی رعونت سے بڑے سنگین مسائل پیدا ہوتے آئے ہیں اور مقبول سیاسی قائدین بھی تباہی کا باعث بنے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کی ہچکولے کھاتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے وزیرِاعظم عمران خان داخلی استحکام کی طرف کتنی پیش قدمی کرتے ہیں، جس کا حصول معاشرتی ہم آہنگی اور سیاسی مفاہمت کے بغیر ناممکن ہو گا یعنی سوسائٹی میں ٹھہراو، رواداری اور برداشت کا کلچر غالب ہو۔ حکومت اور اپوزیشن ایک ضابطۂ اخلاق کے تحت سیاسی ٹمپریچر اعتدال پر رکھیں اور پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کا احترام کریں۔ حکومت جس پر امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ داری سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے، وہ اختلافی مسائل پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے مکالمے کو فروغ دے۔ بدقسمتی سے اِس وقت ہم جس فضا میں سانس لے رہے ہیں، اس میں نفرتوں، حقارتوں اور بدزبانیوں کا زہر بھرا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنا زیادہ تر وقت ایک دوسرے کی گردن دبوچنے میں صرف کر رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ ہنگامہ آرائی پر اپوزیشن سے زیادہ وزرائے کرام اُکسا رہے ہیں اور اپنے سیاسی مخالفین پر زہر میں بجھے تیر چلا کر اپنے نفس کی تسکین کا سامان فرما رہے ہیں۔ جمہوری معاشروں میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ قائدِ ایوان، اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانے اور بات کرنے کے بھی روادار نہیں ہوں گے۔ حکمران جماعت کے بعض کم فہم ارکان جناب نوازشریف کی ضمانت پر رہائی اور قائدِ حزبِ اختلاف جناب شہباز شریف کے نام کی ای سی ایل سے اخراج سے متعلق عدالتی فیصلوں کو طرح طرح کے معانی پہناتے ہوئے سیاسی اور اعصابی تناؤ میں اضافہ کئے دے رہے ہیں۔ دوسری طرف بلاول بھٹو پینترے بدل بدل کر فوج اور حکومت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ سیاسی طور پر اِس قدر کشیدہ حالات میں کاروبارِ حکومت درست انداز میں سرانجام نہیں پا سکتے۔ جناب عمران خان کو تاریخ میں زندہ رہنے کے لیے ڈاکٹر مہاتیر محمد کے نقشِ قدم پر چلنا اور اُن کی عظمت کے راز کو اپنا حرزِجاں بنانا ہو گا۔

تازہ ترین