لاہور(نمائندہ جنگ) چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وکیلوں کو قانون کیساتھ تاریخ، ریاضی اور ادب پر بھی عبور ہونا چاہئے،ایک زمانے میں ججز اور وکلاء کی بڑی عزت تھی مگر رویوں کی تبدیلی سے عزت میں فرق آیا،وکلاء اپنا رویہ درست کریں تو کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا،رویوں کوبہتر بنا کر ایک دوسرے کی عزت میں اضافہ کیاجا سکتا ہے ،آج ملک کا ہرسیاسی،معاشرتی اور اقتصادی مسئلہ عدالتوں میں ہی حل ہوتا ہے،وکلا کو اسی لیے حالات حاضرہ سے مکمل آگاہی ہونی چاہیے، ججز اور اور وکلا کا آج وہ احترام نہیں رہا جو ماضی میں دیا جاتا تھا،میرے والد صاحب بھی وکیل تھے وہ کالا کوٹ پہن کر جب سائیکل پر عدالت جاتے تو راستہ میں دوسرے لوگ کھڑے ہو جاتے کہ وکیل صاحب گزر رہے ہیں یہ وکیل کا احترام ہوتا تھا ۔وہ نجی لاء کالج کی تقریب اسناد کی تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔اس موقع پر جسٹس عمر عطاءبندیال نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدالتوں میں سخت محنت کے ساتھ ساتھ سچائی بہت ضروری ہے جو وکیل اپنی ساکھ کھو بیٹھے چاہے وہ دنیا کا بہترین وکیل ہو توبھی کوئی فائدہ نہیں،وکلا کو اپنے کردار سازی پرخصوصی توجہ دینی چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کہا کہ میڈیکل اور قانون کے شعبے بہت مقدس ہیں،ڈاکٹر انسانی جسم کا علاج کرتا ہے قانون دان معاشرے کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے،ڈاکٹر ایک مریض کو چیک کرتا ہے جبکہ قانون دان اپنے موکل کو اس کا حق دلاتا ہے،جب میں انگلینڈ میں پڑھتا تھا تو گاؤن کے پیچھے لگی پاکٹ کو سمجھتا تھا کہ یہ بارش سے بچاؤ کیلئے ہے،بعد میں مجھے پتہ چلا کہ اس پاکٹ کا مقصد موکل کی طرف سے اپنی استطاعت کے مطابق فیس ڈالنا ہے،اچھا قانون دان بننے کیلئے قانون پر دسترس ضروری ہے۔