• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو اپنی قربت سے سرفراز فرمایااور کائنات کے اسرار و رموز کا مشاہدہ کرایا

روایت کے مطابق حضور پرنور ﷺ ایک رات خانۂ کعبہ کے پاس حطیم میں آرام فرمارہے تھے کہ جبرائیل امین ؑحاضر خدمت ہوئے، بے دار کیا۔ ارادئہ خداوندی سے آگاہی بخشی، حضور ﷺاُٹھے۔ چاہِ زم زم کے قریب لائے گئے ،سینہ اطہر کو چاک کیا گیا، قلبِ اطہر میں ایمان وحکمت سے بھرا ہوا طشت انڈیل دیا گیا، پھر سینہ مبارک درست کردیا گیا، حرم سے باہر تشریف لائے تو سواری کے لیے ایک جانور پیش کیا گیا جو براق کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی تیز رفتاری کا عالم یہ تھا کہ جہاں نگاہ پڑتی، وہاں یہ قدم رکھتا تھا۔ حضور پرنور ﷺ اس پر سوار ہوکر بیت المقدس آئے، اور جس حلقے سے انبیاء ؑکی سواریاں باندھی جاتی تھیں، براق کو باندھ دیا گیا، حضورﷺ مسجد اقصیٰ میں تشریف لے گئے، جہاں جملہ انبیائے سابقین علیہم السلام حضورﷺ کے لیے چشم براہ تھے۔حضور ﷺ کی اقتداء میں سب نے نماز ادا کی، اس طرح ارواحِ انبیاءعلیہم السلام سے روزِ ازل جو عہد لیا گیا تھا۔ (ترجمہ)کہ تم میرے محبوب پر ضرور ایمان لانا اور ضرور ان کی مدد کرنا (سورۂ آلِ عمران18)کی تکمیل ہوئی۔

ازاں بعد مرکب ہمایوں بلندیوں کی طرف پرکشا ہوا۔ مختلف طبقاتِ آسمانی پر مختلف انبیاءؑ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلے آسمان پر ابو البشر آدم علیہ السلام اور ساتویں آسمان پر اپنے جدکریم ابوالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرحباً بالنبی الصالح وابن الصالح ۔یعنی: اے نبی صالح ،خوش آمدید اور اے فرزند مرحبا! کے محبت بھرے کلمات سے استقبال کیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت المعمور(فرشتوں کے قبلہ)سے پشت لگائے بیٹھے تھے، حضور ﷺ آگے بڑھے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جو انوار ربانی کی تجلی گاہ تھا،اس کی کیفیت الفاظ کے پیمانوں میں سما نہیں سکتی،عقاب ہمت یہاں بھی آشیاں بند نہیں ہوا۔ آگے بڑھے کہاں تک گئے ہماوشما اسے کیا سمجھیں۔ زبانِ قدرت نے مقامِ قرب کا ذکر اس طرح کیا ہے، یعنی پھر وہ قریب ہوا اور قریب ہوا ،یہاں تک کہ صرف دو کمانوں کے برابر،بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔(سورۃ النجم)وہاں کیا ہوا یہ بھی میری اور آپ کی عقل کی رسائی سے بالاتر ہے، قرآن کریم نے بتایا ہے۔ترجمہ :پس وحی کی اللہ نے اپنے محبوب بندے کی طرف جو وحی کی۔اسی مقام قرب اور گوشہ خلوت میں دیگر انعامات نفیسہ کے علاوہ پانچ نمازوں کا تحفہ ملا۔

حضرت شداد بن اوسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:معراج کی شب راستے میں ایسی زمین پر میراگزر ہواکہ جس میں کھجوروں کے درخت بکثرت تھے۔جبرائیل امینؑ نے کہا! آپﷺ یہاں اتر کرنفل نماز پڑھ لیجیے،میں نے اتر کر نماز پڑھی،جبرائیل امینؑ نے کہاکہ آپ ﷺکو معلوم ہے آپﷺ نے کس مقام پر نماز پڑھی ہے؟رسول اکرمﷺ فرماتے ہیں،میں نے کہا مجھے نہیںمعلوم،جبرائیل امینؑ نے کہا آپﷺ نے یثرب یعنی مدینۂ طیبہ میںنماز پڑھی ہے۔جہاں آپﷺ ہجرت فرمائیں گے۔بعدازاں رسول اللہ ﷺ روانہ ہوئے،ایک اورزمین پر پہنچے،جبرائیل امینؑ نے کہا،یہاں بھی اترکر آپﷺ نماز پڑھ لیجیے۔میں نے اترکر وہاں نماز پڑھی،جبرائیل امینؑ نے وہی سوال دوبارہ کیا،اورپھر کہا،آپ نے وادی سینا میں شجرۂ موسیٰ کے قریب نماز پڑھی ہے۔جہاںاللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ ؑسے کلام فرمایا تھا،پھر ایک اور زمین پرگزر ہوا، وہاں نماز پڑھی یہ شعیبؑ کامسکن تھا۔ وہاں سے روانہ ہو کر ایک اورزمین پر پہنچے،نماز پڑھی،جبرائیل امینؑ نے کہا،یہ بیت اللّحم ہے۔ جہاں عیسیٰ ؑکی ولادت ہوئی۔(زرقانی)

آپﷺ براق پر سوار جارہے تھے کہ راستے میں ایک بڑھیا کے سامنے سے گزرہوا۔اس نے آپﷺ کوآواز دی،حضرت جبرائیلؑ نے کہا،حضورﷺ ،آگے تشریف لے چلیے،اور اس کی طرف التفات نہ کیجیے،آگے چل کر ایک بوڑھا نظرآیا،اس نے بھی آپﷺ کو آواز دی،حضرت جبرائیلؑ نے کہا،آگے تشریف لے چلیے،آگے چل کر آپؐ کاگزر ایک جماعت پرہوا،جنہوں نے آپؐ کوان الفاظ میں سلام کیا۔ ’’السلام علیک یااول،السلام علیک یاآخر۔ السلام علیک یاحاشر۔ جبرائیل امینؑ نے کہا آپؐ ان کے سلام کا جواب دیجیے،اوربعدازاں بتایاکہ وہ بوڑھی عورت دنیاتھی۔ دنیاکی عمر اتنی ہی قلیل باقی رہ گئی ہے۔جتنی اس عورت کی عمر باقی ہے،اوروہ بوڑھا مرد، شیطان تھا،دونوں کا مقصد آپؐ کواپنی طرف مائل کرنا تھا۔وہ جماعت جنہوں نے آپؐ کو سلام کیا۔وہ حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰؑ تھے۔ (خصائص کبریٰ)

نیزراستے میں آپﷺ کاایک ایسی قوم پرگزر ہوا۔ جن کے ناخن تانبے کے تھے ،وہ اپنے چہروں اور سینوں کوان ناخنوں سے چھیلتے تھے۔ آپؐ نے جبرائیل امینؑ سے دریافت کیاتوفرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانوں کاگوشت کھاتے ۔یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں۔ان کی آبرو پر حرف گیری کرتے ہیں۔(سنن ابودائود)

شب معراج آپﷺ کا ایک ایسی قوم پرگزر ہوا جو ایک ہی دن میں بیج بوتے اورایک ہی دن میںکھیتی کاٹ لیتے ہیں۔ کاٹنے کے بعد کھیتی پھرویسی ہی زرخیز اورہری بھری ہوجاتی ہے جیسے پہلے تھی،جبرائیل امینؑ نے بتایاکہ یہ وہ لوگ ہیں جواللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں ۔ان کی ایک نیکی سات سو نیکیوں سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے اوریہ جو کچھ بھی خرچ کرتے ہیں،اللہ تعالیٰ انہیںاس کا نعم البدل عطافرماتا ہے،پھر آپﷺ کا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جارہے تھے۔کچلے جانے کے بعد وہ پھرویسے ہی ہوجاتے ،جیسے پہلے تھے۔اسی طرح سلسلہ جاری ہے۔کبھی ختم نہیںہوتا، آپؐنے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟جبرائیل امینؑ نے فرمایا : یہ فرض نماز کے معاملے میں کاہلی کرنے والے ہیں۔ پھرایک اور قوم پر گزرہوا،جن کی شرم گاہوں پر آگے اورپیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے تھے اوریہ اونٹ اوربیل کی طرح چرتے تھے، ضریع اورزقوم یعنی کانٹے اور جہنم کے پتھر کھارہے تھے۔آپؐ نے فرمایا ،یہ کون لوگ ہیں؟جبرائیل امینؑ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیںجواپنے مال کی زکوٰۃ نہیں دیتے۔پھرآپؐ کاگزرایک ایسی لکڑی پرہوا جو سرِراہ واقع ہے۔جوکپڑا اورجوشے بھی اس کے پاس سے گزرتی ہے۔وہ اسے پھاڑ ڈالتی اور چاک کردیتی ہے۔آپؐ نے جبرائیلؑ سے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ماجراہے؟جبرائیلؑ نے کہا، یہ آپؐ کی امت میں ان لوگوں کی مثال ہے جو راستے میں چھپ کر بیٹھ جاتے ہیں،اورراہ گزرنے والوں پرڈاکا ڈالتے ہیں،پھر آپؐ کاایک ایسی قوم پر گزرہوا،جس نے لکڑیوں کا ایک بڑا بھاری گٹھا جمع کررکھاہے اوروہ اسے اٹھانے کی طاقت نہیںرکھتے،مگر لکڑیاں لالاکر اس میںاورزیادہ کرتے رہتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ کون لوگ ہیں؟جبرائیل امینؑ نے فرمایا، آپؐ کی امت کا وہ شخص ہے کہ جس پر حقوق اور امانتوں کا بارِ گراں ہے کہ جسے وہ ادانہیں کرسکتا اوراس وجہ سے وہ اپنے اوپر اور بوجھ لادے جاتاہے۔پھر آپﷺ کاگزرایسی جماعت پر ہوا جن کی زبانیں اور لبیں لوہے کی قینچیوں سے کاٹی جارہی تھیں اورجب کٹ جاتیں توپھر ویسی ہی ہوجاتیں،یہ سلسلہ جاری رہتا ہے،ختم نہیں ہوتا۔ آپﷺ نے فرمایا! یہ کیاہے؟ جبرائیلؑ نے فرمایا، یہ آپﷺ کی امت کے وہ خطیب اور واعظ ہیں، جو دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں اور خود عمل نہیں کرتے۔(ابنِ جریر)

تازہ ترین