• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 وسیم صدیقی

کراچی کے ایک قدیم علاقے ’جمشید کوارٹرز‘ میں ایک مکان87 سال پرانا ہے۔ مختلف ادوار میں اس پورے علاقے میں اس وقت کے امیر ترین ہندو، مسلم ،پارسی اور یہودی رہا کرتے تھے، لہذا اس مکان کے بارے میں یہی امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ مختلف ادوار میں یہودی، عیسائی اور ہندوؤں کے زیر استعمال رہا ہوگا۔

1930 میں ایک بادام کے درخت کے نیچے تعمیر کیا گیا تھا، جس میں ہاتھ سے بنی ٹائلیں استعمال ہوئی تھیں۔ تاریخی ورثے سے مزین اس عمارت کو اس کی سابقہ حالت تبدیل کیے بغیر جدید طرز پر قابل استعمال بنایا گیا ہے۔

کسی دور میں 'جمشید کوارٹرزنہایت پوش علاقہ ہوا کرتا تھا۔ شہر کے امیر ترین پارسی اور یہودی خاندان یہاں آباد تھے۔شہر کراچی کی ترقی کے پیچھے قیام وطن سے قبل ،جن لوگوں نے دن رات کام کیا، ان میں ایک شخصیت، کراچی کے پہلے پارسی میئر جمشید نسروانجی رستم جی مہتا بھی تھے، جنہیں ’’بابائے کراچی‘‘ کا لقب بھی دیا گیا۔ ان کے دور میں نہ صرف شہر میں پانی کی نکا سی اور فرا ہمی کا بہتر انتظام تھا بلکہ ان ہی کے دور میں ایک رہائشی اسکیم بھی متعارف کرائی گئی ،جس کے تحت جمشید کوارٹرز (جو سولجر بازار سے گرومندر اور گرومندر سے تین ہٹی تک تھے) نامی منصوبے میں ایک منزلہ اور دو منزلہ مکانات بنائے گئے۔۔مختلف قومیتوں کی رہائش کی وجہ سے کراچی بالخصوص جمشید کواٹرز ثقافتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔1961 ایک فاؤنڈیشن نے اس عما رت میں خواتین کو ہنرمند بنانے کےلیے ایک سلائی سینٹر قائم کیا، جہاں نہ صرف سلائی کڑھائی سکھائی جاتی بلکہ خواتین بالخصوص لڑکیوں کو ٹا ئپنگ، کھانا پکانے، پینٹنگ اور دیگر کاموں کی تربیت بھی دی جا تی تھی۔

پھر اس گھر پر قبضہ ہوگیا ۔عدا لت میں با قاعدہ طور پر مقدمہ چلا۔ بالآخر فاؤنڈیشن کو یہ عمارت واپس مل گئی، مگر اس وقت تک عما رت کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگی تھی۔اس کی دوبارہ تزئین و آرائش کے بعدنئی نسل کو شہر کے ثقافتی ورثے سے روشناس کرانے کے لیے اس قدیم مکان کوعوام کی دلچسپی کی خاطر ایک چھوٹے سے میوزیم کی شکل دے دی گئی ۔ گھر میں نادر اور قیمتی ساز و سامان نمائش کے لیے رکھا گیا ہے ۔اس عمارت کی تزئین و آرائش ماضی کے گھروں کی طرح کی گئی ہے، جس کے تحت اس گھر کی نچلی منزل میں پرانا فرنیچر ، پرانے ٹیلیفون، گراموفون، ریڈیو، پرانی گھڑیاں، شطرنج کی میز، ٹائپ رائٹر، ڈریسنگ ٹیبل، ریڈنگ ٹیبل، بک شیلف اور جمشید نسروانجی کی مہر، (جسے وہ بحیثیت میئر استعمال کرتے تھے) رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی کے سیاست دانوں کی پرانی یادگار تصاویر بھی یہاں ایستادہ ہیں۔ کراچی شہر میں اس وقت دکھائے جانے والے کھیل تماشوں کی تصاویر بھی یہاںہیں۔، فرنیچر، برتن، کتابیں اور بجلی کے سامان سمیت ایسی درجنوں اشیاء بھی ہیں جو عام طور پر کہیں نظر نہیں آتیں۔

یہاں ایک کیفے کا بھی خصوصی انتظام کیا گیا ہے جوکراچی میں مشہور ’ایرانی کیفے کلچر‘ کی یاد دلاتا ہے، جہاں لوگ پرانی ایرانی کرسیوں پر بیٹھ کر چائےکا مزہ لیتے تھے، مہمانوں کی نشست کے لیے لکڑی کی کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ یہاں ایک لائبریری بھی ہے، جہاں کتب بینی کا شوق رکھنے والے اپنا شوق پورا کرسکتے ہیںنیز شہر کی تاریخ کو جاننے کے لیے ایسی کتابیں بھی ہیں جو نادر ہونے کے سبب بہت ہی کم دستیاب ہوتی ہیں۔

کی چھت سے مزار قائدکا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔مکان میں تین نمائشی ہال اور ایک ٹریننگ روم بھی ہے ،جسے ٹریننگ، ورکشاپس، سیمینارز اور دیگر تربیتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اس مکان کو اصل شکل میں قائم رکھنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے۔جیسے جیسے لوگوں کو اس بارے میں معلوما ت ہورہی ہیں، وہ یہاں میں گھنٹوں بیٹھ کر ماضی کی خوشگوار یادوں میں کھو جاتے ہیں۔

تازہ ترین