• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ندیم فاروق

 پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کوڑے کرکٹ کے بدترین مسئلے کا سامنا ہے۔کراچی ایک چھوٹا سا تجارتی قصبہ تھا۔ 1919 کے سندھ گزٹ کے مطابق 1843 میں کراچی کی آبادی بیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ یہ آبادی ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل تھی، اوروہ لیاری اور منوڑا کے علاقوں میں کچے گھروں میں رہتے تھے۔

ان دونوں علاقوں کے علاوہ شہر کے بڑے حصے ویران اور غیر آباد تھے۔ ان میں جھاڑیاں اور مینگرو کے جنگل، اور کہیں کہیں ریت کے ٹیلے تھے۔ ان جنگلوں میں مختلف قسم کے جانور،کتے، بلیاں، بھیڑیے، لومڑ، سانپ اور حتیٰ کہ چند ایک چیتے تک پائے جاتے تھے۔برطانوی سیاح، جغرافیے کا ماہر افسر سر رچرڈ ایف بروٹن، جنہوں نے انیسویں صدی کے وسط اور آخر میں کراچی میں قیام کیا، اُس نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ کراچی میں کہیں کہیں مساجد، صوفی بزرگوں کے مزارات اور ہندوؤں کے مندر تھے۔انگریزوں نے کراچی کی قدرتی بندرگاہ کو ترقی دنیا شروع کی، اس سے شہر کی آبادی بڑھنے لگی۔ انگریزوں نے چھاؤنی کے صاف علاقے قائم کیے، جو شہر کے آباد حصوں سے الگ تھے۔ کراچی کی آبادی، جو 1840 کی دہائی میں بیس ہزار کے قریب تھی، 1890 تک بڑھ کر ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ شہر میں کوڑے کرکٹ اور گندگی میں اضافہ ہونے لگا۔

1896 میں کلکتہ سے آنے والے ایک بحری جہاز سے نکل کر شہر میں داخل ہونے والے چوہوں اور پسوؤں کی وجہ سے طاعون کی خطرناک بیماری پھوٹ پڑی۔ جہاز سے نکل کربھاگنے والے چوہوں کو کراچی کے کچرے کے ڈھیروں پر کھانے کے لئے کافی خوراک مل گئی۔ اس کے بعد یہ گھروں میں داخل ہونے لگے۔ 1897 تک شہر کے گنجان آباد حصے طاعون کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ اس وبا نے سیکڑوں افراد کی جان لے لی۔ برطانوی ڈاکٹروں اور روایتی طریقوں سے علاج کرنے والے مسلمان اور ہندو ڈاکٹروں نے بیماری پر قابو پانے کی پوری کوشش کی۔ متاثرہ افراد کو صحت مند افراد سے الگ رکھا جاتا۔ آخر کار 1900 میں طاعون پر قابو پا لیا گیا۔ اس وبا نے کراچی کو 1896 سے لے کر 1900 تک اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔

1900 کی دہائی کے آغاز میں برطانیہ نے کراچی کے پیچیدہ سیوریج سسٹم کی تعمیر کی، اور کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کا نظام بنایا،گرچہ اُس دور کے اعدادوشمار کے مطابق 1930 کی دہائی تک کراچی کی آبادی تین لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی، کراچی گندگی کے ڈھیرسے نکل کر پرکشش تجارتی اور کاروباری مرکز کے علاوہ ایک اچھی تفریح گاہ بھی بن گیا تھا۔ اُس وقت یہ صاف ترین شہر تھا۔ اسے ‘ایشیا کا پیرس’ کہا جانے لگا۔1930 کی دہائی تک کراچی صفائی کے مسئلے پر کافی حد تک قابو پا چکا تھا۔ یہ معاشی اور تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ برطانوی راج میں ہندوستان کا سب سے صاف شہر تھا۔

1947 میں کراچی پاکستان کا حصہ بن گیا۔ 1941 میں اس کی آبادی 435,887 تھی، لیکن 1951 تک اس میں ہوشربا حد تک اضافہ ہو چکا تھا، اور یہ 161 فی صد اضافے کے ساتھ 1,137,667 ہو گئی۔ اُس وقت شہر کے وسائل پر بے پناہ دباؤ تھا، حکومت نے آنے والی آبادی کو بسانے کی کوشش کی۔ تاہم 1950-51 میں پاکستانی زرعی پیداوار کی برآمد میں اضافے سے صورتِ حال میں قدرے بہتری آئی۔صفائی کا نظام بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ برداشت کر رہا تھا۔ 1960 کی دہائی میں حکومت نے کورنگی کے وسیع و عریض علاقے میں رہائشی کالونیاں بنائیں اور شہر کے مرکز سے ہزاروں خاندانوں کو وہاں منتقل کر دیا۔اس دور میں کراچی کے کچھ علاقوں میں گندگی پھیلانے پر جرمانہ کیا جاتا تھا۔1966 میں کراچی صنعتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ جب تیزی سے فروغ پاتی ہوئی صنعت کاری نے دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کوملک بھر سے متوجہ کیا تو کراچی کی کچی آبادیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ 1961 میں کراچی کی آبادی 2,044,044 سے بڑھ کر 1972 میں 3,606,744 ہو گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت (1971-77) نے 1973 میں کراچی کو خوبصور ت بنانے کا پروگرام بنایا۔ لیکن یہ منصوبہ صفائی اور کوڑے کرکٹ کے مسائل، جو 1969 کے بعد سے بڑھنا شروع ہو گئے تھے، پر قابو نہ پا سکا۔

کراچی میں کوڑے کرکٹ کا ا مسئلہ 1980 کی دہائی میں سامنے آیا۔ اس دہائی میں شہر میں مہاجرین کی دوسری کھیپ داخل ہوئی۔ اس مرتبہ یہ افغانی تھے جو افغان خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہوئے تھے۔ کراچی کی مہاجر اور پشتون نسلوں کے درمیان تناؤ میں پہلے ہی اضافہ ہو رہا تھا۔ شہر میں جرائم کے علاوہ نشے کی عادت بڑھ گئی تھی۔ شہر کے وسائل دباؤ میں تھے۔ 1986 میں سنگین نوعیت کے نسلی فسادات بھڑک اٹھے۔ 1980 کی دہائی کے آخر تک صفائی کا نظام مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا تھا۔ 1990 کی دہائی میں نسلی فسادات نے شہر کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ اس دہائی کے آخر تک شہر افسوس ناک منظر پیش کر رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کراچی کو کئی ملین ٹن کوڑے میں دفن کر دیا گیا ہے۔

جب جنرل پرویز مشرف 1999 میں اقتدار میں آئے تو اُنہوں نے کراچی کی تباہ حال معیشت میں اربوں روپوں کی سرمایہ کاری کی۔ اس میں بھاری رقوم شہر کو صاف اور خوبصورت بنانے کے منصوبوں پر صرف کی گئیں۔ ملکی معیشت میں مجموعی بہتری کی وجہ سے یہ منصوبہ کامیاب ہوا، اور شہر پر گندگی اور کوڑے کرکٹ کے چھائے ہوئے بادل چھٹنے لگے۔ کئی سال تک یہ شہر صاف ستھرا منظر پیش کرنے لگا۔

2017 تک کچی بستیاں اور سڑکیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی تھیں۔صوبائی حکومت اور میونسپل حکام کو ہر گزنہیں پتہ تھا کہ وہ اس مسئلے کا کیا حل نکالیں۔

اربوں روپوں کے عطیات، مشینری ملیں۔ شہر کو صاف کرنے کے لئے کئی مہمیں چلائیں گئیں لیکن کوڑے کا مسئلہ نہ صرف اپنی جگہ پر موجود رہا، بلکہ اس میں بتدریج اضافہ بھی ہوتا گیا۔اس حوالے سے ایک اور مسئلہ دیواروں اور یادگاروں کو بدنما تحریوں اور تصویروں، اور پوسٹر اور پان کے داغوں سے مسخ کرنا ہے۔ بے مقصد پوسٹر اور تحریریں لگانے کی ذمہ داری سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کارکنوں، اتائیوں اور چھوٹے کاروباری افراد پر عائد ہوتی ہے۔ بجلی کے کھمبوں پر پارٹی پرچم لگائے جاتے ہیں، لیکن پھر اُنہیں بھلا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بوسیدہ اور بدنما ہوکر کھمبوں سے لٹکے رہتے ہیں۔ سندھ حکومت نے وال چاکنگ کو صاف کرنے کی مہم شروع کی لیکن پارٹی پرچموں، پوسٹروں اور پان کے داغوں سے نجات پانے کے لئے بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کے کھمبوں کے ساتھ خطرناک طریقے سے لٹکی ہوئی کیبل تاروں کے الجھے ہوئے جال بھی اپنی جگہ پر ایک مسئلہ، اور بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی، کے الیکٹرک کی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہیں۔

کوڑا ڈالنے والے ڈبے شہر میں رکھے جانے کے باوجود کچرے کے ڈھیر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔

تازہ ترین