• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرم کی تا ریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کےانسانی حیات کی تاریخ، لیکن انسانی ار تقاء کے سا تھ ساتھ جرائم کی وارداتوںکے طر یقہ کار میں تبدیلیا ں ہو تی رہتی ہیں۔یہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانی معا شرے میں برادریو ں ،ادا رو ں ،پو لیس کے اعلی افسران اور حکومتیں ہر دور میں امن پسند لو گو ں کو تحفظ فراہم کر نے اور جرا ئم کی روک تھام کر نے کے حوالے سے اقدامات کر تی ہیں۔ پو لیس کا نظام بھی اسی سلسلےکی ایک کڑی ہے، دوسری طرف سندھ دھر تی پر بڑے بڑے او لیائے کرام اور صو فیائے کرام گزر ے ہیں جس کی وجہ سے سندھ کو باب الاسلام بھی کہاجا تا ہے۔ سندھ دھر تی پر بدلتے ہوئے حا لا ت پر نظر ڈالیںتو ان جرا ئم میں خصو صا ً ضلع سکھراور پنو عاقل میں خا طر خواہ کمی وا قع ہو ئی ہے۔ امن و مان کے بارے میں با ت کی جا ئے تو پو لیس بھی اپنی ذمہ دا ر یا ں خو ش اسلو بی سے انجام دے رہی ہے اور فرائض کی ادائیگی کے دوران کئی پو لیس افسران اورکانسٹیبلو ں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے لیکن اپنے فر ض سےکوتاہی نہیں کی۔ پو لیس نے مختلف سنگین جرا ئم میں ملوث ملزمان کو گرفتار بھی کیا اور جرا ئم پیشہ افراد کے خلاف کریک ڈا ئون بھی کئے جس کی وجہ سے ان میں سرا سیمگی پھیل گئی اور جرا ئم کی وارداتوں میں کمی وا قع ہو ئی ہے ۔ضلع سکھر میں پو لیس کے اعلی ٰ افسران جن میں پیر محمد شاہ، تنویر حسین تنیو، امجد شیخ اور دیگر پو لیس افسران شامل ہیں، ان کی جرا ئم پیشہ عناصر پر کڑی نظر ہے۔ پولیس حکام کی کوششوں سے برادریوں کے درمیان تصادم جیسےوا قعات میں کمی وا قع ہوئی ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس افسران اور سکیورٹی اہل کار انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باوجود اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سندھ کا تیسرا بڑا شہر ضلع سکھر جس کی اہم تحصیل پنو عاقل ہے جو سر سبز علا قہ ہے قدرت کی بیش بہا نعمتو ں سے ما لا ما ل ہے۔ اس کی آبا دی تقریبا ً سات لا کھ سے زا ئد نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ تحصیل پو لیس انتظا میہ کے حساب سے دو سب ڈویژن پرمشتمل ہے جس میں 09 تھا نے اور دس چو کیا ں قائم ہیں جن میں سب ڈویژن پنو عا قل میں پنو عا قل سٹی تھا نہ ،با ئجی شریف ،کینٹ سلطا نپور ،مبارکپور، سانگی ،دا د لو،شا مل ہیں جب کہ نرچھ چو کی ،مہیسرو ،جو ناس ،دیا گیر ،ٹھکرا ٹو ،ہنگورو ،ملا علی چو کیا ں شا مل ہیں۔سب ڈویژن کچہ( سدھوجہ ) میں تھا نہ سدھو جہ ،گدپور تھا نہ ،رضا گو ٹھ تھا نہ ، سو مرا پنہوا ری چو کی ،پھلا نی چو کی اور شاہ پور چو کی شا مل ہیں۔یا د رہے کہ سب ڈویژن سدھو جہ میں خاتون ڈی ایس پی ارم اعوان بھی اپنے فرا ئض انجام دیتی رہی ہیں۔ پنوعاقل کے تمام پو لیس اسٹیشنوں کی عما رتیں خستہ حا لی کا شکار ہیں ، جن کی نئے سرے سے تعمیربے انتہا ضروری ہے۔ جب کہ وقتاًفوقتاً مر متی کام کا سلسلہ بھی جا ری رہتا ہے۔ پنو عا قل پو لیس اسٹیشن سٹی ، جو پا نچ رہائشی کوارٹرز، ایس ایچ او آفس ،ہیڈ محرر آفس ،اسلحہ خا نہ ،ما ل خا نہ ،ایس ایچ او ہا ئوس ،ڈی ایس پی ہا ئوس پر مشتمل ہے۔ پولیس اسٹیشن کا طول و عرض کا فی دور تک پھیلا ہوا ہے ۔تھانے کی عمارت ایک صدی قبل 1918میں تعمیر ہوئی تھی لیکن اس وقت سے اس کی مرمت کا کام نہیں کیا گیا۔یہ عمارت امتداد زمانہ کا شکار ہوکرخستہ حالی کا شکار ہے۔ اس تھا نے کی حدود میں گرد ونواح کی آبادی سے روزانہ کثیر تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ 

تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہاں پرایمرجنسی کی صورت میں 15 کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔ یا د رہے کہ 2015-16 میں سید خور شید احمد شاہ نے 15 سینٹر کا افتتاح کیا تھا جس کی یادگار،سنگ بنیاد رکھنے کی تختی کے سوا کچھ بھی نہیں رہی ہے ۔ایس ایچ او مٹھل کھکھرانی اور ڈی ایس پی لیاقت علی عبا سی نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئےبتا یا کہ 15 ایمرجنسی کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور جلد ہی اس کے لیےعلیحدہ بلڈنگ اور نفری،موبائل سروس ،جوانوں کو مو ٹر سائیکلوں کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی، جس کے بعد پنو عاقل میں جرائم پیشہ عناصر کی سرگرمیوں میں خاصی حد تک کمی واقع ہو گی۔ یاد رہے کہ ضلع سکھر میں یہ ایک واحد پو لیس اسٹیشن ہےجو بہت بڑے رقبے پر قائم کیا گیا تھا۔ اس کی حدود میں ایک تفریحی پا رک بھی بنا یا گیا تھا جو دیکھ بھال نہ ہو نے کی وجہ سے اپنی افا دیت کھو چکا ہے ۔ تھانے کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ برسات کے دوران اکثرکمروں کی چھتیں ٹپکتی ہیں جب کہ بتا یا جا رہا ہے کہ تمام تحصیل کے تھا نو ں کے ملزمان یہاں کے لاک اپ میں قید کیے جا تے ہیں۔ کوارٹروں کی صور ت حال انتہائی مخدوش ہے جن میں پو لیس کے جوان صرف وردی تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان میں گیس کی کو ئی سہولت میسر نہیں ہے ۔

پنو عاقل سب ڈویژن کا با ئجی شریف تھا نہ ایک افسوس ناک وا قعہ کے بعد1992 میں قائم ہوا۔ با ئجی تھا نہ نہر کو را ئی واہ کے کنا رے پر وا قع ہے جس میں ایس ایچ او اور ہیڈ محرر کا کمرہ وا قع ہے۔ اس تھا نے کی حوالات ناقابل استعمال ہیں۔ مذکو رہ تھا نوں میں سے صرف ایک سلطان پور تھا نہ ہے جودور حاضر کے تقاضوںپر پورا اترتا ہے حالانکہ اس کی عمارت بھی انتہائی قدیم ہے جس کی تعمیر 1908 میں ہوئی تھی۔ اس تھانے کی عمارت تقریبا ً پا نچ ایکڑ رقبے پر قائم ہے جب کہ دو پو لیس اسٹیشن دا دلو اور سا نگی، نیشنل ہا ئی وےپر منتقل ہوگئے ہیں ۔سا نگی تھا نہ 1954 میں چوکی کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ مذکورہ چوکی اب بھی خستہ حالت میں ہے اس چوکی کو 2008 میں پو لیس اسٹیشن کی حیثیت سے ا پ گریڈ کیا گیا۔مبارک پور پو لیس اسٹیشن بھی دو کمروں پر مشتمل ہے جوتاحال ایک بوسیدہ عمارت میں قائم ہے۔ اور اس میں کسی بھی وقت کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آسکتا ہے ۔ کچے کے پو لیس اسٹیشنوں کو بھی نئے سرے سے تعمیرات کی ضرورت ہے جن میں رضا گو ٹھ تھا نہ ،گدپور تھا نہ ،سدھوجا تھا نہ شا مل ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ڈی ایس پی آفس پنو عاقل سٹی جس کی عمارت کی1992ء میں منظوری دی گئی تھی، اب تک اس پر عمل نہیں کیا گیا۔نہ توڈی ایس پی سٹی کا کوئی باقاعدہ دفتر ہے اور نہ ہی رہائشی عمارت۔ان کا دفترپنو عاقل کے سرکاری میٹرنٹی ہوم میں قائم کیا گیا ہے جو تین کمرو ں پر مشتمل ہے ۔ اسے بھی ازسر نو تعمیرو مرمت کی ضرورت ہے۔

اس سلسلے میں میں اے آئی جی سکھر ریجن پو لیس ڈا کٹر جمیل احمد نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تھا نوں کی خستہ حال عما رتوں کی ازسرنواور بہتر انداز میں تعمیر کرا ئیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کئی اضلاع کے تھا نوں کا دورہ کیا ہے جہاں عمارتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ اس سلسلے میں اعلیٰ حکام سے را بطہ کیا ہے اور اس کی تحریر ی رپورٹ بھی انہیںارسال کی جا چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ جلدہی عمارتوں کی تعمیر و مرمت کے سلسلے میں ٹینڈر جاری کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پولیس اہل کار ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی امن و امان بحال رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داریاںپوری تندہی کے ساتھ نبھا رہے ہیں لیکن جب انہیں بہترین سہولتیں دستیاب ہو ں گی تو وہ اپنے فرائض اور زیادہ خو ش اسلوبی کے ساتھ سے انجام دیں گے۔ ایس ایس پی سکھر، عرفان علی سموں اور ڈی ایس پی پنوعا قل لیاقت علی عبا سی کا تھانوں کی حالت زار کے بارے میں کہنا ہے یہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پولیس اسٹیشنوں کی مخدوش عما رتوں کی تعمیر نوکے لئے اقدامات کرے لیکن اس کے ساتھ پو لیس اہل کاروں کو دیگر بنیادی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں جن میں ان کے بچوں کی تعلیم کے لئے اسکول ،اسپتال اوررہائشی فلیٹ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ پولیس میں تنخواہیں بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ پنجاب پولیس میں ایس ایچ او کو 60 ہزار اور ڈی ایس پی کو 80 ہزار ما ہانہ الا ئونس دیا جا تا ہے۔ ہم نے صوبائی حکومت سے پولیس اہلکاروں کے گشت کے لئے مو با ئل گا ڑیاںفراہم کرنے کے لئے کہا تھا ، لیکن اس پر اب تک عمل درآمد نہیں کیا گیا۔پنو عاقل سب ڈویژن میں ایک صدی قبل قدیم عمارتوں میں قائم تھانوں کی حالت زار کے بارے میں، چیئر مین ٹائون کمیٹی شبیر احمد شیخ،یڈ ووکیٹ غلام قادر شیخ ،جمعیت علما ئے اسلام ایڈ ووکیٹ مفتی جمیل احمد کو را ئی ،عبد الر حیم حنفی ،حا فظ بشیر احمد انڈ ھڑ نے کہا کہ پو لیس عوام کی خدمت کے لئے دن رات کام کر رہی ہے اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ وہ تھانوں کی عمارتوں کو ازسر تعمیر کرے اور انہیں جدید سہولتوں سے آرا ستہ کرے ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین