• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ماضی کے ڈراما نگاروں کو یونی ورسیٹیز میں پڑھانا چاہیئے

اسما نبیل، ڈراما لکھنے والوں میں کوئی نیا نام نہیں۔ انہوں نے چند برسوں میں ڈراما نگاری میں اپنی شناخت بنائی۔ انہوں نے معاشرے کی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کے خلاف سچائی اور جرات کے ساتھ لکھا۔ اگر وہ صرف جیو سے پیش کیا جانے والا ڈراما ’’خانی‘‘ لکھتیں اور کچھ نہ کرتیں ،تب بھی اتنی ہی مقبول ہوتیں، جتنی آج ہیں۔ قدرت نے انہیں نہایت قلیل عرصے میں عزت اور شہرت سے نوازا۔ انہوں نے قلم کی دُنیا میں ڈراما ’’خدا میرا بھی ہے‘‘ لکھ کر پہچان بنائی۔ بعدازاں ان کے تخلیقی سفر کو مزید عُروج ملا۔ اُن کے دیگر مقبول ڈراموں میں باندھی، خانی اور دل کیا کرے شامل ہیں۔ ڈراموں کے بعد انہوں نے کام یابی کی جانب ایک قدم اور بڑھایا اور گزشتہ برس ریلیز ہونے والی فلم ’’مان جاؤ ناں‘‘ لکھی، جسے بے حد پسند کیا گیا۔ نامور ٹیلی ویژن آرٹسٹ فیصل قریشی نے ان سے دوسری فلم لکھوائی، جس کا نام ’’سوری‘‘ ہے، اس فلم کی شوٹنگ ابھی کی جاری ہے۔ گزشتہ دنوں ہم نے ان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ہونے والی بات چیت کی تفصیل نذر قارئین ہے۔

جنگ۔ آپ کا قلم سے رشتہ کب قائم ہوا؟

اسما نبیل۔ میں کراچی یونی ورسٹی سے ماس کمیونی کیشن میں ماسٹرز کرنے کے بعد پندرہ برس تک مارکیٹنگ کے شعبے میں مختلف برانڈز کے لیے لکھتی رہی۔ پھر مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ کہانی لکھی جائے۔ پھر میں نے کچھ کہانیاں لکھیں۔ سب سے پہلے ڈراما سیریل ’’خدا میرا بھی ہے‘‘ لکھا، پانچ سال تک اس ڈرامے کو مختلف پروڈکشن ہائوس لے کر گھومتی رہی، مگرکسی نے رسپانس نہیں دیا۔ ان دنوں میری ملاقات ثناء شاہنواز سے ہوئی۔ ان کا ڈراما ’’من مائل‘‘ اس وقت سپرہٹ جا رہا تھا۔ انہوں نے میرا لکھا ہوا ڈراما پسند کیا اور ،یُوں میرا تحریر کردہ ٹیلی ویژن اسکرین پر پیش کیا گیا۔

جنگ۔ کیا آپ کے تعلیمی مراحل کراچی ہی میں مکمل ہوئے؟

اسما نبیل۔ میں نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔اس کے بعد انٹرمیڈیٹ پی ای سی ایچ ایس کالج سے اور ماسٹرز کی ڈگری کراچی یونی ورسٹی سے مکمل کی۔ میرے والد صاحب ایک پرائیوٹ کمپنی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کے تبادلے مختلف شہروں میں ہوتے رہتے تھے۔ اس لیے ہماری تعلیم بھی مختلف شہروں میں مکمل ہوئی۔

جنگ۔ آپ کی فیملی میں کون کون ہیں؟

اسما نبیل۔ ہم تین بہن بھائی ہیں۔ میرے بھائی نے شوبزنس میں میرا بہت ساتھ دیا، وہ میرا ساتھ نہ دیتے تو شاید میں یہاں تک نہ پہنچ پاتی۔ میرے والد کا اُس وقت انتقال ہو گیا تھا، جب میں نے میٹرک پاس کیا تھا اور میں ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ میں پاک آرمی میں بہ حیثیت ڈاکٹر جانا چاہتی تھی، لیکن میرا وہ خواب والد کے ساتھ ہی چلا گیا۔ ایسی بات نہیں ہے کہ مجھے بچپن سے لکھنے کا شوق تھا۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق بہت زیادہ کبھی نہیں رہا، مجھے آپ پڑھاکو نہیں کہہ سکتے۔ تھوڑا بہت پروین شاکر کو پڑھا ہے، حسینہ معین کے ڈرامے شوق سے دیکھتی تھی۔ وہ میرے لیے اکیڈمی کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان کہی،دھوپ کنارے اور تنہائیاں بار بار دیکھتی رہی ہوں، مجھے لکھنے کا آرٹ شاید میری والدہ سے ملا ہے۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ ٹیلی ویژن کی مشہور ڈراما نگار بن جائوں گی۔ بس حادثاتی طور پر ڈرامے لکھنے لگی ہوں۔

جنگ۔ لکھنے کے سلسلے میں شوہر سے مشورہ کرتی ہیں؟

اسما نبیل۔ میرے شوہر کا تعلق ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ہے۔ ان کو ڈراموں میں بالکل دل چسپی نہیں ہے۔ میرے دو بچے ہیں۔ بیٹا13برس اور بیٹی11برس کی ہو گئی ہے۔

جنگ۔ ماضی کے برعکس آج ٹی وی ڈراموں میں وہ مٹھاس کیوں محسوس نہیں ہوتی؟

اسما نبیل۔ پُرانے ڈرامے حقیقت کے زیادہ قریب ہوتے تھے۔ ناظرین ڈراموں میں ڈوب جاتے تھے، اب دور بدل گیا ہے۔ آج کا ڈراما بہت لائوڈ ہو گیا ہے۔ میں نے جب لکھنا شروع کیا تو ساس بہو کی کہانی کو عروج حاصل تھا۔ میں نے کچھ مختلف لکھنا شروع کیا۔ میرے ڈراموں میں رشتے سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوشش کرتی ہوں کہ مقصدیت کو فوکس کروں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’خانی‘‘ اور ’’دل کیا کرے‘‘ کے موضوعات بہت الگ ہیں۔

جنگ۔ ’’خانی‘‘ کی غیرمعمولی مقبولیت کی وجہ کیا تھی؟

اسما نبیل۔ یہ ٹیم ورک تھا، ثنا جاوید اور فیروز خان کی کیمسٹری بہت اچھی تھی۔ میرے لکھے ہوئے ڈرامے ناظرین کے دل میں اتر رہے تھے۔ ڈرامے کا ٹائٹل سونگ استاد راحت فتح علی خان نے بہت ہی خوب صورت انداز میں گایا تھا۔ پروڈیوسر عبداللہ کادوانی اور اسد قریشی کے کمالات بھی تھے۔ خانی کے ڈائریکٹر انجم شہزاد نے تمام فن کاروں سے عمدہ کام لیا۔ میرے نزدیک فیروز خان میں ایک بڑے فن کار کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔ ’’خانی‘‘ اور ’’دل کیا کرے‘‘ میں ان کی پرفارمنس دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ خانی میں ’’میر ہادی‘‘ کا یادگار کردار کیا۔ یہ سیریل دُنیا بھر میں اب میری شناخت بن گیا ہے۔

جنگ: آپ کو کبھی اداکاری کی پیش کش ہوئی؟

اسما نبیل: اداکاری کے بارے میں زیادہ سوچا نہیں۔ ویسے مجھے پیش کش ہوتی رہتی ہیں۔ میں ڈراما نگاری پر ہی ساری توجہ رکھنا چاہتی ہوں۔ اگر کبھی کوئی ایسا کردار آفر ہوا، جو مجھے اچھا لگا تو ضرور سوچوں گی۔ اداکاری مشکل کام ہے، ہر کوئی نہیں کرسکتا۔

جنگ:ڈراما لکھتے وقت کن باتوں کا خیال رکھتی ہیں؟

اسما نبیل:میں اپنے ڈراموں کے کرداروں کا سب سے پہلے ذہن میں خاکہ بُنتی ہوں۔ کردار کی نیچر کیسی ہونی چاہیے۔ میری سوچ ہے کہ ڈراما زندگی کے قریب ہونا چاہیے، جب جلائی گئی خواتین کے بارے میں لکھا تو ایسی خواتین کے ساتھ وقت گزارا۔ اسی طرح قیدیوں کی کہانی لکھی تو جیل بھی گئی اور دیکھا کہ قیدی کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ڈراما لکھنے سے پہلے ریسرچ کرتی ہوں۔

جنگ:آپ کو اتنے قلیل عرصے میں شوبز میں ایک الگ پہچان مل گئی،یہ سب کیسا لگتاہے؟

اسما نبیل:شہرت اور کام یابی، یہ سب قدرت کی جانب سے عطا ہوتی ہیں، ہم کچھ بھی نہیں کرتے۔ قدرت جب کسی کو کام یابی عطا کرتی ہے تو لوگوں کے دلوں میں اس کے لیے محبت پیدا کردیتی ہے۔

جنگ:آپ نے فلمی کہانیاں بھی لکھیں، اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟

اسما نبیل:میں نے فلمی کہانیاں لکھی ہی نہیں بلکہ ایک فلم پروڈیوس بھی کی ہے،جس کا نام ’’مان جائو ناں‘‘ ہے، اس کی شوٹنگ کے دوران چالیس روز تک سیٹ پر موجود رہی۔ فلم ایک مختلف سائنس ہے۔ فلم لکھنے کے لیے پہلے میں نے ہالی وڈ کی فلموں کے اسکرپٹ توجہ سے پڑھے۔

جنگ۔ آج کل سینئر ڈراما نگار کیوں نہیں لکھ رہے؟

اسما نبیل۔ یہ ایک المیہ ہے۔ ہم نے ان کی وہ قدر نہیں کی، جس کے وہ حقدار تھے۔ حسینہ معین، جیسی لکھنے والی مجھے کوئی دوسری نظر نہیں آتیں۔ وہ میری بہت حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں تعلیمی اداروں میں اسکرپٹ رائٹنگ نہیں پڑھائی جاتی۔ تعلیمی اداروں کو ان سینئرز کی خدمات حاصل کرنی چاہیے تاکہ نئی نسل کو معلوم ہو سکے کہ ڈراما کیسے لکھا جاتا ہے۔

جنگ۔ ثناء جاوید اور یمنٰی زیدی میں کون زیادہ باصلاحیت ہے؟

اسما نبیل۔ میں نے دونوں کے لیے ڈرامے لکھے ہیں۔ دونوں ہی بہت محنتی ہیں۔

جنگ۔ آپ لکھنے کے علاوہ اور کیا مصروفیات ہیں؟

اسما نبیل۔ میں ایک ادارے میں ’’سی او او‘‘ کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہوں۔

تازہ ترین
تازہ ترین