• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کمپیئر، اداکار، صداکار،ا سکرپٹ رائٹر، نغمہ نگار، ڈائریکٹر، گلوکار، فلم ساز اور نہ جانے کیا کیا، فن اداکاری کا کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں ’’عمر شریف ‘‘کے نام کا ڈنکا نہیں بجاہو۔ مکمل ’سیلف میڈ‘عمر شریف نے جب شوبز کی دنیا میں قدم رکھا،تو نہ تو ان کے پاس فن کی تعلیم تھی اور نہ ہی کوئی بااثر پس منظر تھا ،جس کی بدولت وہ اس میدان کار میںبا آسانی قدم جماتے۔عمر شریف میں موجود خداد صلاحیتیں ہی ان کی کامیابی کا وسیلا بنیںاور مختصر مدت میں وہ اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے۔گزشتہ ہفتے ان کی بیماری کی خبریں سوشل میڈیاہر وائرل ہوئیںتو ان کے مداحوں کی ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھ گیا،لیکن جب ہم نے عمر شریف سے رابطہ کیا ،توانہوں نے قہقہہ لگایااور کہا،بی بی،اس عمر میں چھوٹی موٹی بیماریاں تو ہوتی ہیں۔اللہ کا شکر ہے ،میں خیریت سے ہوں،چند نئے اسٹیج شوز کی تیاریاں کررہا ہوں۔یقیناً یہ پڑھ کر ان کے مداح خوش ہوں گے۔ہم نے تفصیلی انٹرویو کے لیے وقت مانگاتو جواباً انہوں نے کہا،اپنے بارے میں بہت کچھ بول چکا ،مصروفیت مجھے مزید انٹرویو دینے کی اجازت نہیں دے سکتی،تاہم ٹیلی فون پر جو پوچھنا ہے پوچھ لیں۔آپ بھی آنے کی زحمت سے بچ جائیں گی اور میرا وقت بھی...... ہم نے موقع غنیمت جانا اور ٹیلی فون انٹرویو پر ہی اکتفا کیا۔ہمارے سوالوں کے جواب میں جو کچھ انہوں نے کہا آپ(قارئین) کے گوش گزار کررہے ہیں۔ 

عمر شریف نے 19 اپریل، 1955ء کوکراچی کے علاقے لیاقت آباد میں جنم لیا۔ ان کااصل نام محمد عمر تھا ۔ جب پانچ برس کے تھے تو والد کاانتقال ہوگیا ۔ان کی تربیت میں اہم کردار والدہ کا رہا ہے۔زمانہ طالب علمی میں ہی عمر شریف کونہ صرف فلمیں دیکھنے بلکہ اداکاری کابھی بہت شوق تھا ،لڑکپن سے ہی ان کی حس مزاح کا جواب نہیں تھا،لہذا جب اداکاری کا سوچا تو چوں کہ ہنسنا ہنسانا فطرت میں تھا لہذا اداکاری کے میدا ن میں ’کامیڈی‘ کی صنف کواپنایا۔سنا ہے آپ نے اپنے نام کے ساتھ ’’شریف‘‘کا اضافہ کیا تھا،ہم نے گفت گو آگے بڑھاتے ہوئے سوال کیا،عمر شریف نے کہا، ’’جی بالکل صحیح سنا،دراصل مجھے بچپن سے ہی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کا شوق تھا۔ ہالی وڈ کے مصری نژاد امریکی اداکار’عمر شریف‘ کی انگریزی فلم ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ دیکھ کر بہت متاثر ہوااور سوچا نام تو ہمارے ایک ہی ہیں کیوں نہ میں اپنے نام کے ساتھ ’’شریف‘‘لگا لوں ،اس طرح عمرکے آگے خود ہی شریف لگالیااور پھر مجھے ’عمر شریف‘پکارہ جانے لگا۔اداکاری کا جنون اپنی جگہ تھا ،لیکن کتابیں پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا،ساتھ شاعری بھی کی اور کہانیاں بھی لکھیں یہی وجہ ہے کہ میں نے اسٹیج ڈرامے خود لکھے بھی اوران میں اداکاری بھی کی‘‘۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے کراچی میں تھیٹر کو زندہ کیا؟’’جی میںنے شہر کراچی میں اُس وقت تھیٹر کرنا شروع کیا، جب یہاں کے باسی شہر کی مکدر صورت حال سے اکتائے اور ڈرے سہمے تھے۔یہ اسّی کی دہائی تھی جب سیاسی چپقلشوں کے باعث روشنیوں کے شہر کراچی کو اندھیروں کا سامنا کرناپڑا۔ایسے حالات میں اپنے مخصوص انداز سے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیا۔بہت مختصر مدت میں کامیڈی ڈراموں نے دھوم مچا دی۔میں نے اپنے مزاحیہ اسٹیج ڈراموں پر مشتمل آڈیو کیسٹ بنائے۔ اُن دنوں آڈیو کیسٹس پر فلمیں دیکھی جاتی تھیں، لہذامیرےمزاحیہ ڈراموںکے کیسٹ بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بِک جاتے تھے۔ اس طرح میری شہرت کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ کامیڈی اور اسٹیج ڈراموں کواندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک خاص کر جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے، وہاں کامیڈی کو عام ہونے کا موقع ملا۔’’بکرا قسطوں پر‘‘ میرا ایک ایسا اسٹیج ڈراما ہے جو بے انتہا مشہور ہوا۔ شاید ہی پاکستان میں کسی اسٹیج ڈرامے کو اس قدر مقبولیت ملی ہو ۔اس ڈرامے کے چار حصے بنائے گئے تھےجو وقفے وقفے سے تھیٹر پر پیش کیے گئے۔ ان چاروں حصوں نے شاندار کامیابیاں حاصل کیں۔جب ’’بکرا قسطوں پر پارٹ ٹو‘‘ کی ویڈیو کیسٹ ریلیز ہوئی، ٹھیک اسی دن بھارتی سینما کے سپر اسٹار امیتابھ بچن کی فلم’ شہنشاہ ‘بھی پاکستان میں ویڈیو کیسٹ کے ذریعے آئی تھی۔ اس زمانے میں کسی بھی فلم کی ویڈیو کا کرایہ چوبیس گھنٹوں کے لیے دس روپے ہوتا تھا۔’بکرا قسطوں پر پارٹ ٹو‘کی کامیابی نے بھارتی فلم کو چلنے نہ دیا اور بھارت میں بھی بے انتہا مقبول ہو ا۔میرے اسٹیج پر ادا کیے جانے والے ڈائیلاگ اور پر مزاح جملے عام بول چال میں بھی استعمال کیے جانے لگے ،خاص کر پرمزاح جملوں کو بھارتی فلموں میں بھی کاپی کیا جانے لگا ۔ اسی طرح ایک اور تھیٹر ڈراما ’’عمرشریف حاضر ہو‘‘ بھی بہت مشہور ہوا۔ جس میں میںنے ایک وکیل کا کردار ادا کیاتھا۔ ملک کی مختلف بار ایسوسی ایشنز نے اس ڈرامے کے بعد مجھ پر مقدمہ بھی درج کیاتھا، تاہم بعد میں اس مقدمے کی مزید سماعت ہونے سے قبل ہی فریقین میں صلح ہو گئی۔ ایک اسٹیج ڈراما’’بڈھا گھر پہ ہے‘‘بھی کافی مقبول ہوا۔

1992میںآپ نے بطور اداکار، مصنف و ہدایت کار ایک فلم ’’مسٹر420‘‘ بھی بنائی جو کامیاب رہی،اس بارے میں کچھ بتائیں؟ ’’اس فلم میں میں نے تین مختلف کردار بڑی مہارت سے ادا کیے،خاص طور پر ایک کردارہے جو جنگل میں رہتا ہے اور بندروں جیسی عادات کا مالک ہوتا ہے۔ اس کردار کو بہت سراہا گیا۔اپنی پہلی ہی فلم میں دو نیشنل ایوارڈبہترین رائٹر اور ڈائریکٹرکے حاصل کیے۔اسی فلم کے حوالے سے چار نگار ایوارڈ ایک ساتھ حاصل کیے۔غالباً میں پاکستان کے واحد اداکار ہوں جس نے چار ایوارڈایک ساتھ حاصل کیے۔اس کے بعد فلم ’’مسٹر چارلی‘‘ نے بھی بہت کامیابی حاصل کی۔ بعدازاں چند اور فلموں نے بھی کامیابیاں حاصل کیں ‘‘۔مگر ایک بات غورطلب ہے کہ آپ کی اداکاری کوان فلموں میں زیادہ سراہا گیا جس کے ڈائریکٹر آپ خود تھے؟اس بارے میں عمر شریف نے کوئی جواب نہیں دیا۔

عمر شریف نے اپنے ہم عصر معروف فن کار معین اختر کے ساتھ بھی کئی ڈراموں میں کام کیا۔مقبولیت کے اعتبار سے دونوں ہی بڑے اور ہم پلہ فن کار تھے۔معین اختر سینئر تھے۔عمر شریف نے کئی ڈرامے معین اختر کے ساتھ لکھے جو فرقان حیدر کی ہدایت کاری میں خاصے مقبول ہوئے۔معین اختر اسٹیج سے پھر ٹیلی ویژن کی طرف چلے گئے جبکہ فرقان حیدر کے ساتھ عمر شریف کراچی کے اسٹیج پربلا شرکت غیرے براجمان رہے۔ان ہی دنوں لیجنڈمعین اختر نے عمرشریف کے بارے میں کہا ’’اب اسٹیج کو عمر شریف کی ضرورت ہے‘‘۔ عمر شریف آڈیو کیسٹ، ریڈیو، تھیٹر، ٹی وی، فلم ہر میدان کے فاتح رہے۔وہ فلموں میں کامیڈین بھی بنےاور ہیرو بھی آئے۔انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں بطور اداکار کام کیا ، بعد میں ٹی وی شو ز کی میزبانی بھی کی۔ ان کے کئی کامیاب شوز ٹی وی سے نشر ہوئے،جن میں ’’ہپ ہپ ہرے‘‘ اور ’’عمر شریف شو‘‘کو بہت پزیرائی ملی۔90 کی دہائی میں عمر شریف کو جنوبی ایشیا کا’ کنگ آف کامیڈی ‘کا خطاب دیا گیا ،ان کی مقبولیت یو اے ای ،امریکا،لندن سمیت دنیا بھر میں پھیلی۔خصوصاً یو اے ای اور امریکا میں عمر شریف نے لاتعداد کامیاب شوز کیے ۔2006 میںحکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ’تمغہ امتیاز‘ سے بھی نوازا گیا۔

طویل وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر عمر شریف فارم میں دکھائی دے رہے ہیں ۔اس حوالے سے جب ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’چوں کہ میری بیماری کے حوالے سےجھوٹی خبریں تیزی سے پھیل رہی ہیں لہذا مجھے دوبارہ میدان میں آنا چاہیے۔اس لیے میرے مداح مجھے جلد ہی تھیٹر میں پرفارم کرتے ہوئے دیکھیں گے‘‘۔بات چیت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ،’’ میں ایک مرتبہ پھر اڑان بھرنے کو تیار ہوں۔عید الفطر پر آرٹس کونسل کراچی میں اسٹیج ڈراما کروں گا ،اس کے بعد حیدر آباد میں بھی مداحوں کے لیے پرفارم کروں گا۔اس کے علاوہ امریکا میں 18 شو کروں گا‘‘۔دیگر مصروفیات کے حوالے سے عمر شریف نے بتایا کہ’’میں ایک فلم بھی بنا رہا ہوں،جس کا نام’عشق عبادت ‘ہے،یہ لو اسٹوری ہے،فلم کے ہیرو کا تعلق پاکستان سے جبکہ ہیروئین کا سری لنکا سے ہے۔نیز یہ بھی بتا دوںآج کل میں چار کتابوں پر کام کررہا ہوں ،جو افسانے ،شاعری اور ڈراموں کے موضوعات پر ہیں۔جلد ہی ان کی رونمائی کروں گا‘‘۔

بقول عمر شریف ،میں اپنے مداحوں کی پرزور خواہش پر دوبارہ تھیٹر کررہاہوں۔میرا مقصد تھیٹر میں موجود جمود کو توڑنا اور ایک مرتبہ پھرمسکراہٹیں بکھیرنا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین