ان کےشاہ کار قدیم عمارتوں پر آج بھی نظر آتے ہیں
وادی سندھ میں تاریخی اعتبار سے شکارپورنہ صرف قدیم بلکہ خوبصورت شہر کی بھی حیثیت رکھتا ہے،جس کی مثالیں مختلف زبانوں کے مورخین نے اپنی کتابوں میں بیان کر رکھی ہیں۔یہ شہر 1617ء میں داؤد پوتا نے تعمیرکیا تھا۔ سندھ میں سب سے پہلے داؤد پوتا کا امیر احمد آیا تھا۔ جس کا تعلق مکران سے تھا۔ وہ بلوچستان کے راستے سے سندھ میں داخل ہوا اور ٹھٹھہ شہر میں رہائش اختیار کی۔ 1603ء کی جنگ میں داؤد پوتا کو فتح حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس کامیابی کی یادہمیشہ قائم رکھنے کے لیے شکار پور شہرکی بنیاد رکھی۔یہ شہر کبھی بہت بڑا کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا اور ایشیا سے لے کر دور درازممالک تک دوسرا کوئی ایسا بڑا مرکز نہ تھا۔ یہ شہر ہندوستان کوبذریعہ درہ بولان، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیاکے مابین تجارت میں راہداری کا کردار ادا کرتا تھا۔اس شہر میں امیر ترین ہندو بستے تھے۔ اقدیم آثار کے محقق ،لوکرام ڈوڈیجا لکھتے ہیں ’’شکارپور شہر کی بناوٹ دنیا کے قدیم شہروں بخارا، سمرقند، استنبول جیسی ہے۔ جیسے ان کے شہروں میں بازار ڈھکے ہوتےتھے، بالکل اسی طرح شکارپور کے بازار دھوپ، بارش اور لُواور دھوپ کی تمازت سے بچنے کے لیے ڈھکے ہوتے تھے۔ ان قدیم شہروں کی طرح یہاں بھی اشک عظیم قلعہ تھا۔ جس کے سات شاہی دروازے تھے ، جو ہاتھی گیٹ، لکھی گیٹ، ہزاری گیٹ، خانپور گیٹ، سووی گیٹ، واگانا گیٹ، کرن گیٹ اور نوشیرو گیٹ کے نام سے معروف تھے اور ان پردن ڈھلتے ہی بڑے تالے لگ جاتے۔‘‘چار سو سال پرانا یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر باغات، خوبصورت گلیوں، حویلیوں، لکھی در، شاہو باغ، سندھ واہ، منفرد کھانوں اور سماجی رابطوں کی وجہ سے مشہور تھا۔
شکارپور میں سماجی سرگرمیوں اور تہوار منانے میں خاصا جوش و خروش دیکھنے میں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ شام میں جب لوگ سیر کے لیے نکلتے تواپنے لباس پرعرق گلاب چھڑکتے تھے۔ پھول بیچنے والے مختلف جگہوں پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ان کے پاس موجود پھولوں کی خوشبو سے گردو نواح کا ماحول معطر رہتا نھا۔
اس دور میں بھی خواتین علم و ہنر سے آراستہ، سمجھدار اور مل جل کر رہنے والی تھیں۔ حالانکہاس وقت عورتوں کو تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم کے فروغ کے حوالے سے خان بہادر قدردان خان اور شیخ صادق علی انصاری کے نام قابل تحسین ہیں۔ جنھوں نے سندھ میں تعلیم کو عام کرنے کے سلسلے میں بڑی جدوجہد کی۔ ڈاکٹر ساراں صدیقی سندھ کی پہلی مسلمان خاتون تھیں، جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گئیں۔گھروں میں ہالا یا کشمور کی جنڈی سے بنے جھولے ہوا کرتے۔ کھانا پکانے کے لیے مٹی کے برتن استعمال کیے جاتے۔ مٹی سے بنے ہوئے توے کی روٹی کا الگ ہی مزا تھا۔ پانی کے لیے صراحیاں اور مٹکے استعمال ہوتے۔
تاریخ میں اس شہر کے حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں جن میں اس شہر کی تعلیم وتربیت، علم وادب، نظم و ضبط، تجارت اورصسفائی ستھرائی سمیت دیگر وجوہات شامل ہیں۔ ان میں سے ایک انتہائی اہم وجہ اس شہر کی دلفریب عمارات ہیں جو اپنے منفرد طرزِ تعمیر کے باعث نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔یہ عمارات اُس وقت کےماہر کاریگروں کی انتھک محنت اور جاں فشانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بغیر کسی بڑھاؤ چڑھاؤ کے ایک صدی سے زائد کاعرصہ گزرجانے کے باوجود آج بھی ان عمارات کا حسن معدوم نہیں ہوااور یہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔فنِ تعمیر کے ان شاہکارنمونوں کے قریب سے گزریں تو آج بھی یہ اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں،جنہیں تنگی وقت کے باوجود آپ کا دل بار بارانہیں دیکھنے کی تمنا کرتا ہے۔ انہی عمارات کی تزئین و آرائش کے لئے لکڑی سے بنائے گئےشاہکار نمونے اب تک ان ماہر کاریگروں کی سچائی اور محنت کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔
شکارپور کی ان خوبصورت عمارات میں جب بھی لکڑی پر’’ رُنبی‘‘ (مختلف اقسام کی چھینیوں سے لکڑی پر کی گئی نقش و نگاری)سے کئے گئے شاندار کام کی بات نکلتی ہے تو یہاں کے بابلانی خاندان کا ذکر بھی ضرور آتا ہے۔بابلانی در حقیقت سومرو قوم کی ایک شاخ کے طور پر پہچانے جاتے ہیں،جن کا وجود ان کےآباء میں سے بابل خان نامی شخص کے نام سے جُڑا ہے۔بنیادی طور پر بابلانی کاریگروں نےلکڑی کے کام میں مہارت کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچ کر اپنا نام روشن کیا۔ قدیم زمانے سے کاریگروں کو راج گیری،لوہے کا کام اور بڑھئی کا کام بھی سکھایا جاتا رہا ہے،متعلقہ کاموں میں مہارت حاصل کرنے والے کو سندھی میں استادیا مستری کہا جاتا ہے۔بابلانی برادری کے ماہر کاریگروں میں استادبابل خان،استاد فقیر لعل محمدبابلانی، استاد امام بخش بابلانی، استاد کریم بخش بابلانی،استاد رحیم بخش بابلانی، استاد مولا بخش بابلانی، استاد کریم بخش بابلانی دوئم،استاد رحیم بخش بابلانی دوئم،استاد عبدالسمیع بابلانی،استاد عبدالفتاح بابلانی، استاد محمد الیاس بابلانی، استاد غلام حسین بابلانی، استاد امیر بخش بابلانی، استاد شبر بابلانی،استاد منیر حسین بابلانی، استاد برکت بابلانی،استاد اوشاق بابلانی، استاد سلمان بابلانی ودیگر شامل ہیں۔ چوب کاری سے منسلک شکارپور میں کوئی باضابطہ ادارہ موجود نہ ہونے کے باوجود اس گھرانے کے ہنر مندوں نے اپنے شہر کے علاوہ مختلف مقامات پر اپنے فن کا لوہا منوایا۔
سندھ میں جہاں صدیوں پرانی دستکاری کی گونا گوں مثالیں پائی جاتی ہیں، وہیں رُنبی کا کام ایک الگ ہی نوعیت کا حامل ہے۔یہ کام کوئی آسان نہیں بلکہ یہ ان ہاتھوں کی محنت اورمہارت کا نتیجہ ہے جو لکڑی پراپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے نقوش ثبت کرکے،اسے حسن بخشتے ہیں۔اس کام کے لئے قدیم طریقہ کار کو ہی بروئے کار لایا جاتا ہےجس میں زیادہ تر کام ہاتھوں کی مددسے ہی کیا جاتا ہے۔ کسی بھی مشین کے ذریعے رُنبی کا کام نہیں کیا جاسکتا یہ کام تحمل طلب ہے، کیونکہ جتنا آرام وسُکون سے یہ کام کیا جائے گا اتنے ہی شاندار نتائج برآمد ہوں گے۔لکڑی سے بننے والی چیزوں میں جھولے، چارپائیاں، دروازے ، کھڑکیاں، سیڑھیاں،پلنگ، کرسیاں،ٹیبلیں ،بالکونیاں، ہوادانوں پر انسانی ہاتھ سےپھول پتیوں کے نقش و نگار بنائے جاتے ہیں جن پر خوبصورت رنگوں کے امتزاج سے ان کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ لوک ورثہ قرار دیئے جانے والے ان شاہ پاروں کو بنے ہوئے ایک زمانہ بیت چکا ہےلیکن آج بھی اُتنے ہی خوبصورتنظر آتے ہیںکہ جیسے کل ہی بنے ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ شکارپور میں تعزیوں اور عَلم سازی کی صدیوں پرانی تاریخ میں بابلانی کاریگروں کا جو حصہ ہے وہ بھی ناقابلِ فراموش ہے۔برِصغیر میں لکھنؤ اور ملتان کے بعد شکارپوربھی ان شہروں میں شامل ہے جہاں عزاداری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ عاشورہ کے دوران تعزئے نکالے جاتے ہیں جن پر کی گئی کندہ کاری لاجواب ہے۔
ساگوان کی لکڑی کے ٹکڑوں سے بنے ان بلندوبالا تعزیوں کے محراب،جھرونکے،گنبد اور مینار سب باکمال ہیں۔مزید اس پر یہ کہ ان تعزیوں کی جُڑت میں کوئی کیل یا میخ استعمال نہیں ہوتی، بلکہ مختلف حصوں کو ایک دوسرے میں پیوست کرکےفن کا یہ اعلیٰ نمونہ تیار کیا جاتا ہے۔اس انتہائی محنت طلب کام میں بھی بابلانی کاریگر پیچھے نہیں رہے۔تعزیہ سازی کے ساتھ ان کی انسیت اور محبت کا اندازہ انہیں دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔شکارپور میں اس طرح کا منفرد کام کرنے والے بابلانی خاندان کے ماہر کاریگربڑی ہی مہارت اور نفاست کے ساتھ لکڑی کو تراش کراس پر خوبصورت نقش و نگار بنا کراسے ایک شاہ پارے کی شکل دینے کا فن بخوبی جانتے ہیں، مگر ان کے کام کی بہ نسبت انہیں محنتانہ انتہائی کم ملتا ہے۔ بات جب ان کی اجرت اور دیگر سہولتوں کی آتی ہے تو افسوس ہوتا ہےکہیہ کام کرنے والےکس طرح اپنے فن کوزندہ رکھے ہوئے ہیں۔استاد منیر بابلانی نے اس فن کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی،لیکن اپنی سادگی اور زندہ دلی کے باعث کچھ جمع پونجی نہ کرسکے۔استاد منیر کے چھ بیٹے ہیں جن میں سےجاوید بابلانی،ریاض بابلانی،برکت بابلانی ،محبت بابلانی اور اوشاق بابلانی اپنے خاندانی ہنر سے وابستہ ہیں۔خاندانی کام کو جلا بخشنے کے باوجود ان کی زندگی میں کوئی بہتری نہ آنے کے باعث دل گرفتہ ہوکر ان کے خاندان کے باقی افراد نے اس کام سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے۔ اس کے باوجودبرکت بابلانی اور ان کا بیٹا سلمان بابلانی،محبت بابلانی اور اوشاق بابلانی شہر کےدرمیان ایک کارخانہ بنا کراپنے پرکھوں کے فن کوقائم و دائم رکھے ہوئے ہیں۔آج ان کے پاس زیادہ کام نہیں ہے لیکن انہیں امید ہے کہ کوئی مسیحا ان کے فن کی قدردانی کرکے ان کے بزرگوں کے خواب کو تعبیر بخشے گا۔
اس سلسلے میں استاد اوشاق بابلانی نے بتایا کہ بابا (استاد منیر)، میں اور ہمارے دیگر شاگرد سابق صوبائی وزیر رحیم بخش سومروکے گھر میں کام کررہے تھے کہ ہمیر رحیم بخش سومرو نےامریکاسے واپسی پر میرے بابا کو وائٹ ہاؤس میں رکھی ایک نادر ونایاب شاہکارلکڑی کی ٹیبل دکھائی اور پوچھا "استاد منیر اسے بنالوگے"۔ میرے بابا نے اسے بنانے کی حامی بھر لی اور اس کے بعدہم نے اسےاپنی محنت اورمہارت کے ساتھ ایسا بنایا کہ ہوبہو اس جیسی ہی نظر آرہی تھی۔ جس پرسومرو خاندان کی جانب سے ہمیں خاصی پذیرائی ملی۔وہ شاہکار آج بھی ہمیر سومرو کے کراچی والے گھر میں محفوظ ہے۔انہوں نے بتایا کہ شکارپور سے تعلق رکھنے والے سیاستدان وسابق صوبائی وزیر مقبول احمد شیخ کے شکارپور والے بنگلے کا مرکزی دروازہ،سیڑھیوں میں لکڑی کا کام اور ان کے اپنےکمرے میں لگا لکڑی کا فرش بھی ہم نے بنایا ہےجسے خاصا پسند کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بھی نہ جانے کتنے امیروں کے بنگلوں کواپنی خاندانی مہارت سے خوبصورت بنایا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے فن کو پذیرائی کے علاوہ اسے وسیع بنیادوں پر پھیلانے کے مواقع آج تک میسر نہیں آسکے۔استاد منیر کے دوسرے بیٹےمحبت بابلانی بتاتے ہیں کہ جدی پُشتی ہم اس ہنر سے وابستہ ہیں،ہمارے باپ داداؤں نےاپنے خون پسینےسے لکڑی پر ہاتھ کی صفائی سے ان گنت شاہکار تخلیق کئے ہیں۔جن پر انہیں نہ صرف داد ملی بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا۔شکارپور میں موجود تاریخی شاہی باغ میں اُس وقت کے کمشنر سندھ سر ولیم میریویدر کی یادگار کے طور پر" میریویدر پویلین" تعمیر کرایا گیا تھا۔ جسے ہمارے پردادااستاد غلام حسین بابلانی نے انتہائی مہارت اور باریک بینی کے ساتھ بناکر اپنی مہارت کا بلند پایہ ثبوت دیا تھا۔
شکارپور میں قریباً آٹھ سو گز طویل تاریخی ڈھک بازار (سایہ دار بازار) کے اُوپر بنا ساگوان کی لکڑی کا سائبان بھی بابلانی خاندان کی فن کارانہ صلاحیتوں کا شاہ کار ہے۔ لکھی درپر ایستادہ تاریخی گھنٹہ گھر کی تعمیر کے وقت اس کے معمار سیٹھ کنہیا لعل بجاج ہمارے دادااستاد امیر بخش بابلانی کوتعمیراتی سامان کے انتخاب کےلیے (ضط اپنے ساتھ جئہ پور لے گئے تھے،جہاں سے لال پتھر اور لکڑی کی اعلیٰ اقسام خریدکر یہاں لائی گئیں۔اُس وقت شکارپور میں ہمارے دادا اور والد کی محنت سے جب فلک بوس گھنٹہ گھر تعمیر ہوا تو یہاں بسنے والوں کی عقل دنگ رہ گئی تھی۔ گھنٹہ گھر کی سیڑھیوں میں ساگوان کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اس گھنٹہ گھر میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کے اندر داخل ہونے والے دروازے پرمیرے دادا نے رُنبی کی مدد سے ہوبہو گھنٹہ گھر جیسا نقش بناکر برطانوی سرکاری عملداروں اوراسے کھڑا کرنے والے بجاج خاندان سےخوب داد سمیٹی تھی۔یہاں یہ بات بھی انتہائی فخر کے ساتھ بیان کرتا چلوں کہ مزارِ قائد پر نصب کئے گئےدروازوں میں لکڑی کا کام میرے چچا استاد غلام شبربابلانی اور میرے والد استاد محمد منیر بابلانی نے کیا ہے ،جوکہ ہمارے خاندان کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ شہر کے وسط لکھیدر چوک پر اس وقت کی تعمیر شدہ وسیع العریض وکثیر المنزلہ عمارت "نارائن نِواس بلڈنگ"کے اندر لکڑی کا ہاتھ سے بنا سارا کام بھی بابلانی خاندان کے ماہر کاریگروں کی نشانیاں ہیں۔ اس عمارت میں لکڑی سے بنی ہر ایک چیز قابلِ تعریف اور قابلِ ذکر ہے ،لیکن اس میں ہمارے والد کی دیدہ زیب ڈیزائن سےبنائی گئی سیڑھی انتہائی خوبصورت اور قابلِ رشک ہے۔بابلانی خاندان کے ماہر کاریگروں کی دیگر خصوصیات میں سیہون میں قلندر لعل شہباز کی مزار پر نصب کیا گیا مرکزی عَلم پاک اور بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی کی مزار پر ان کا بنایا گیا نہایت ہی خوبصورت کٹہرہ اور مزارِ قائد پرنصب کئے گئے مرکزی دروازوں سمیت نہ جانے کتنی مزارات پر عقیدت واحترام کے ساتھ کام کیا،جو آج بھی قائم و دائم ہے۔اس کے علاوہ قائدِاعظم محمد علی جناح کے گھر،شہید ذوالفقار علی بھٹو کے لاڑکانہ ہاؤس اورپیر سائیں پگارہ کے کنگری ہاؤس سمیت دیگر کئی امراء کے بنگلوں میں ہاتھ سےکئے گئے لکڑی کےکام کی ذمہ داریاں بھی بخوبی سرانجام دیں۔ اور تو اورسندھ کے نامورسیاستدان شہید اللہ بخش سومرو کے گھرانے کے ساتھ چالیس برس کام کرنے کا اعزاز بھی بابلانی خاندان کے اس ماہر کاریگر کے پاس ہی جاتا ہے۔ نہ جانے کتنے وزیروں اور مشیروں کے گھروں میں سجاوٹ کی ذمہ داریاں بھی انہیں نصیب ہوئیں۔محترمہ بینظیر بھٹو کی شادی کے موقع پر انہیں دیا گیا لکڑی سے بنا نہایت ہی خوبصورت فوٹو البم جو کہ آج بھی بلاول ہاؤس کراچی میں موجود ہے۔محبت بابلانی بتاتے ہیں کہ ہمارے والدکوکئی بار اِن حکمرانوں اور وزراء کے گھروں میں کام کرنےکا موقع ملا،جہاں ان کے فن کی قدردانی بھی کی گئی،انہیں انعام واکرامات سے بھی نوازا گیا۔ہمارے والد کے تربیت یافتہ متعدد کاریگر آج بھی پورے ملک میں مختلف مقامات پر اپنا گزر بسر کررہے ہیں۔اس دوران بہت سےلوگوں کیجانب سے ان کے فن کوپھیلانے کے لئے اقدامات اٹھانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی،لیکن تاحال ان کےخوابوں کو حقیقت کا روپ دینے والا کوئی قدردان نہیں مل سکا ہے۔شکارپور میں ان ماہر کاریگروں کے زیرِ دست ایک تربیتی ادارہ قائم ہونے کا دیکھا ہوا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ بن سکا ہے۔ ہماری دیرینہ خواہش ہے حکومت کی زیرِ نگرانی ہمارےشہر میں ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جہاں نوجوانوں کو اس پیشے کے متعلق معلومات اور عملی تربیت دیکر آرٹسٹ پیدا کئے جائیں۔ جس سے نہ صرف ہمارے خاندانی ہنر کو پذیرائی ملے گی بلکہ بیروزگار نوجوانوں کو بےراہ روی سے چھوٹکارا دلاکر روزگار کی طرف گامزن کیا جاسکتا ہے۔جہاں بابلانی خاندان کی خدمات قابلِ تحسین ہیں وہیں اس بات کا دکھ بھی ہے کہ اتنی نفاست کے ساتھ کام کرنے والے ان ہنرمندوں کو اپنی محنت کا معقول معاوضہ نہیں ملتا۔ اس نظام کے تحت وہ دہائیوں تک بھی کام کرتے رہیں تب بھی ان کے شب و روز نہیں بدلیں گے اور نہ ہی یہ لوگ آنے والے وقت میں خود کو بہتر حالت میں دیکھ پائیں گے۔اس حوالے سے حکومتی سطح پر اس ہنر کو فروغ دینے کے لئے متعلقہ حکام کو اپناکردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔جہاں ان ہنرمندوں کے لئے شہری سطح پر تقریبات منعقد کراکےانہیں ملکی معیشیت میں حصہ دار بناکر عزت سے بہتر زندگی بسر کرنے کے مواقع فراہم کئے جائیں۔
تاریخ
یہ شہر 1617ء میں داؤد پوتا نے تعمیرکیا تھا۔ سندھ میں سب سے پہلے داؤد پوتا کا امیر احمد آیا تھا۔ جس کا تعلق مکران سے تھا۔ وہ بلوچستان کے راستے سے سندھ میں داخل ہوا اور ٹھٹھہ شہر میں رہائش اختیار کی۔ 1603ء کی جنگ میں داؤد پوتا کو فتح حاصل ہوئی۔ انھوں نے اس کامیابی کی یاد قائم رکھنے کے لیے شکار پور شہرکی بنیاد رکھی۔یہ شہر کبھی بہت بڑا کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا۔ ایشیا سے لے کر دور دراز ملکوں تک دوسرا کوئی ایسا بڑا مرکز نہ تھا۔ اس شہر میں امیر ترین ہندو بستے تھے۔ لوکرام ڈوڈیجا لکھتے ہیں ’’شکارپور شہر کی بناوٹ دنیا کے قدیم شہروں بخارا، سمرقند، استنبول جیسی ہے۔ جیسے ان کے شہروں میں بازار ڈھکے تھے، بالکل اسی طرح شکارپور کے بازار دھوپ، بارش اور لُو سے بچنے کے لیے ڈھکے ہوئے تھے۔ ان قدیم شہروں کی طرح یہاں بھی زبردست قلعہ تھا۔ جس کے آٹھ شاہی دروازے تھے۔ جن پر سرشام بڑے تالے لگ جاتے۔‘‘
چار سو سال پرانا یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر باغات، خوبصورت گلیوں، حویلیوں، لکھی در، شاہو باغ، سندھ واہ، منفرد کھانوں اور سماجی رابطوں کی وجہ سے مشہور تھا۔
شکارپور میں سماجی سرگرمیوں اور تہوار منانے میں خاصا جوش و خروش دیکھنے میں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ شام میں جب لوگ نکلتے توکپڑوں پر خوب گلاب کا پانی چھڑکتے۔ پھول بیچنے والے الگ جگہ جگہ دکھائی دیتے۔ ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ پھولوں کی خوشبو سے پورا ماحول معطر ہو جاتا۔ لوگوں کا لباس، اٹھنا بیٹھنا، ادب وآداب، لہجے کی نرمی، رومانیت پسندی، گھروں کی سجاوٹ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ عورتیں پڑھی لکھی، سمجھدار اور مل جل کر رہنے والی تھیں۔ حالانکہ اس زمانے میں عورتوں کو تعلیم دلوانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ تعلیم کے فروغ کے حوالے سے خان بہادر قدردان خان اور شیخ صادق علی انصاری کے نام قابل تحسین ہیں۔ جنھوں نے سندھ میں تعلیم کو عام کرنے کے سلسلے میں بڑی جدوجہد کی۔ ڈاکٹر ساراں صدیقی سندھ کی پہلی مسلمان خاتون تھیں، جو ایم بی بی ایس کرنے کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گئیں۔
گھروں میں ہالا یا کشمور کی جنڈی سے بنے جھولے ہوا کرتے۔ کھانا پکانے کے لیے مٹی کے برتن استعمال کیے جاتے۔ مٹی سے بنے ہوئے توے کی روٹی کا الگ ہی مزا تھا۔ پانی کے لیے صراحیاں اور مٹکے استعمال ہوتے۔