دنیا میں آج تک جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں، انہوں نے اپنے پیچھے تباہی و بربادی، ہلاکتوں، غربت، بھوک و افلاس کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔لیکن دوسری عالمی جنگ کی نشانی آج بھی تھر کے ریگستان میں صحرائی سواری کی صورت میں ریت کے سمندر و تودوں پر رواں دواں ہے۔
پہلی عالمی جنگ جو ایک آسٹروی شہزادے ہزبرگ آرک ڈیوک فرانز فرڈی ننڈ کے دوران سفر مشہور زمانہ ٹرین اورینٹ ایکسپریس میں قتل کے بعد شروع ہوئی۔ مذکورہ شہزادے کو 28 جون 1914ء کو ایک سرب شہری نے ٹرین میںگولی مار کر ہلاک کردیا تھا، جس کے بعد آسٹریا نے سربیا کے خلاف اعلان جنگ کردیا، آسٹریا کا حلیف جرمنی بھی اس جنگ میں شامل ہوگیا جب کہ ہالینڈ، بیلجیم، فرانس اور انگلینڈ کی فوجیںسربیا کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اس طرح یہ معمولی تنازعہ ایک بڑی جنگ کا سبب بنا ۔ بعد میں محوری قوتوں کے طور پر آسٹریاکی حمایت میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری،، ترکی اور بلغاریہ شریک ہوگئے جبکہ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا تھے۔یہ جنگ پانچ سال تک جاری رہی اور اس میں6سے آٹھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک کروڑ فوجی بھی شامل تھے۔ پہلی عالمی جنگ نے دنیا کا نقشہ تبدیل کردیا۔ اس کے عالمی سیاست و معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے جو دو عشرے بعد ہی دوسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔پہلی عالمی جنگ میں مشین گن، اور مہلک گیسز کے علاوہ ہوائی و بحری فوج اور جدید مہلک ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ قدیم آلات حرب کا استعمال بھی کیا گیا۔اس جنگ میں سائیکل ، موٹر سائکلیں، گھڑسوار دستوں اور شمشیر زنوں کو بھی استعمال کیا گیا۔
دوسری جنگ عظیم پہلی عالمی جنگ کی بہ نسبت زیادہ جدید ہتھیاروں کے ساتھ لڑی گئی اور اس میں پہلی مرتبہ ایٹم بم کا استعمال کیا گیا۔1939سے 1945تک جاری رہنے والی اس جنگ نے کئی ممالک کو قصہ پارینہ بنا دیا۔ اس جنگ میں 61ممالک بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک ہوئے اور یہ چالیس ممالک کی حدود میں لڑی گئی جس میں کروڑوں انسانی جانیں ضائع ہوئیںجب کہ دو ایٹمی حملوں کے نتیجے میں جاپان کے دو شہر، ہیروشیما اور ناگاساکی راکھ کا ڈھیر بن گئے۔اس جنگ اثرات اتنے بھیانک تھے کہ جرمنی سمیت کئی ممالک کے ٹکڑے ہوگئے جب کہ پاکستان سمیت نئی مملکتیں معرض وجود میں آئیں۔جنگ عظیم دوئم میں کوئی فاتح رہا اور کوئی مفتوح قرار پایا، کہیں فتح کا جشن منایا گیا، کہیں خون میں لتھڑی لاشیں اٹھائی گئیں، دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا، جنگ کے بادل چھٹے تو فتح و شکست میں کئی ممالک کو مال غنیمت ملا، جرمنی کےحکم راں، ایڈولف ہٹلر کو خودکشی کرنا پڑی جب کہ اس کے دست راست فیلڈ مارشل ایرون رومیل، جسے ریگستانی جنگ کا ماہر ہونے کی وجہ سے ’’صحرائی لومڑی‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا،شمالی افریقہ میں جنگ کے دوران ،الامین کے محاذ پراسےشکست ہوئی ، بعد ازاں اس نے بھی خودکشی کر کے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
صحارا کے ریگستان میں لڑائی کے دوران جرمن فوجوں کی جانب سے ٹینکوں، ہیوی موٹر سائیکلوں ، جیپوںاور جی ایم سی ٹرکوں کا استعمال کیا گیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعدمذکورہ ٹرک اور جیپیںمال غنیمت کے طور پر برطانیہ کے حصے میں آئے جنہیں اس نے اپنی نو آبادی، ہندوستان منتقل کردیا۔اس زمانے کی جیپیں بلوچستان کے سرداروں نے خرید لیں جوخضدار کے علاقے میں محبت شاہ فقیر سے بلاول شاہ نورانی کے مزار تک جانے کے لیے پتھریلے و پہاڑی راستوں پر سفر کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ جیپیں بھی ’’کیکڑا‘‘ کے نام معروف ہیں،جب کہ مذکورہ ٹرک دنیا کے د9ویں بڑے صحرا، تھرپارکر میں پہنچا دئے گئےجہاں ان سے باربرداری کا کام لیا جانے لگا۔بعدازاں ان میں مناسب تبدیلیاں کی گئیں اور ان فوجی ٹرکوں کو صحرا میںسفری اور مال برداری کے کے ذریعے کے طور پراستعمال کیا جانے لگا۔ ان ٹرکوں کا انجن انتہائی طاقت ور اور اونچے اور بڑے پہیے ہیں جو،۔ صحرائی ٹیلوں سے بہ آسانی گزر جاتے ہیں جس کے سبب ان ٹرکوں کو مقامی باشندوں نے کیکڑے کے نام سے منسوب کردیا۔ اب کیکڑا گاڑی تھرپارکر کی منفرد سواری کہلاتی ہے، جو صحرا کی مسافتوں کو سمیٹتی ، لوگوں کو اپنی اپنی منزل مقصود پر پہنچانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اس سواری کو ’’ریگستانی اونٹ‘‘ کا بھی خطاب دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اونٹ کوریت کے سمندر میں سفر کرنے کی وجہ سے (Ship of Desert )کا خطاب دیا گیا ہے کہ مذکورہ مشینی سواری بھی کسی اونٹ کی طرح رتیلے سمندر میں باآسانی چلتی ہے۔
سندھ کے 29 اضلاع میں تھرپارکر کو انفرادی اہمیت حاصل ہے، مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ ’’دراصل یہ نام تھل اور پارکر کا مرکب ہے۔ تھل کے معنی ٹیلہ اور پارکر، عبور کرنے کے معنی میں مستعمل ہے۔ تھرپارکر میں موجود ریت کے ٹیلوں کو عبور کرنا، یا ان پر سفر کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے، گرمیوں کے دنوں میں تو یہ سفر جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے زمانہ قدیم ہی سے یہاں کے باشندے صحرائی جہاز یعنی اونٹوں کو ذرائع آمدورفت اور مال برداری کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، بعد میں ان کی معاونت کے لیے دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے ٹرکوں کا استعمال شروع ہوگیا۔ دوسری جانب چوں کہ صحرائے تھرپارکر کا مجموعی رقبہ 19 ہزار 6سو 38کلو میٹر پر محیط ہے جب کہ آبادی 9ملاکھ 14ہزار 291نفوس پر مشتمل ہے۔ اس میں موجود زندگی کے تمام تر دھنک رنگ دنیا کو اپنی جانب متوجہ رکھتے ہیں۔ اس لیے یہ کیکڑا ٹرک تھر کے باشندوں اور سیاحت کی غرض سے آنے والے افراد کے لیے انتہائی کارآمد ثابت ہوئے۔ صحرا میں بگل بجاتی اس گاڑی کو تھر کا شیر بھی کہا جاتا ہے۔ اس گاڑی کا بگل اس کی آمد کی نوید ہوتی ہے۔ ابتدائی طور پر یہ کیکڑا گاڑی اسلام کوٹ سے ننگرپارکر تک آمدورفت کے لیے استعمال ہوتی تھی، لیکن صحرا کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اس فوجی کیکڑا گاڑی کو بھی پانی کی ضرورت پڑتی تھی، چناں چہ پانی کی قلت کے سبب آہستہ، آہستہ جرمنی کے فوجی ٹرک تو ختم ہوگئے، مگر ان کی جگہ پرانے روس اور امریکا کے بنے گاڑی نما ٹرکوں نے لے لی ہے، جن میں پانی کے بجائے پیٹرول یا ڈیزل کا استعمال ہوتا ہے۔ تھر کےمختلف راستوں پر چلنے والی ان کیکڑا گاڑیوں کے مالک اور ننگرپارکر کے تعلقہ چیئرمین سردار محمد خان کھوسو نے بتایا کہ ’’تھرپارکر میں یہ کیکڑا ٹرک لوگوں کی زندگی کےلیےکلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ان میں لوگ جہاں اپنے جانوروں کے ساتھ سفر کرتے ہیں، وہاں بیمار اور بچے بھی اس سہل ذریعہ سفر کو استعمال کرتے ہیں۔ وہاں یہ ایک گائوں سے دوسرے گائوں یا اس سے آگے کسی اہم واقعہ، یا انتہائی اہم نوعیت کی خبر پہنچانے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران تھرپارکر میں جدید طرز کی سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں، بجلی کی فراہمی کے لیے سولر سسٹم نصب کئے گئے، پانی کے لیے آر او پلانٹ لگ چکے ہیں، اسلام کوٹ میں بین الاقوامی معیار کا ایئرپورٹ بھی تعمیر ہوچکا ہے، مگر تھرپارکر کے دیہی علاقوں میں لوگ آج بھی ان ہی کیکڑا گاڑیوں پر انحصار کرتے ہیں۔یہ عوام کے لیے انتہائی سستی سواری بھی ہے جب کہ تھری باشندے اس پر سفر کرنے کے عادی بھی ہوچکے ہیں۔ ان کیکڑا گاڑیوں کے روٹس مقرر ہیں، عموماً بڑے گائوں اس کے اسٹاپ ہیں، لیکن راستے سے بھی مسافروں کو بٹھایا اور سوار کیا جاتا ہے۔ اسلام کوٹ سے کیکری، ویھار، ڈونج، ڈنڈی، سن و دیگر، اسی طرح ننگرپارکر شہر سے مدرو، ڈیسنی، پرانوا، ڈھونگری، انکلو کے علاوہ مٹھی، چھاچھرو، عمرکوٹ، نوکوٹ کے نواحی علاقوں اور گائوں کے درمیان یہ کیکڑا گاڑی چلتی ہے۔ان کی تعداد گھٹتی جارہی ہے اور اس کمی کر پورا کرنے کے لیے سندھ کے مختلف علاقوں میںپرانے ٹرک خریدے جاتے ہیں۔عموماً یہ کیکڑا گاڑی ایسےٹرکوں کو یہاں لاکر تیار کی جاتی ہے، جو سندھ میں کسی حادثے یا فنی خرابی کی بنا پر ناکارہ ہوجاتے ہیں، ایسے ٹرکوں کو کم سے کم قیمت میں خرید لیا جاتا ہے، جس پر بعدازاں مزید رقم خرچ کرکے ریگستانی راستوں کے مطابق تبدیلیاں کرکے قابل استعمال اور پائیدار بنالیا جاتا ہے۔ ننگرپارکر کے ایک موٹر مکینک رام داس کولہی نے بتایا کہ عام طور پر ناکارہ ٹرک 5 سے 10 لاکھ روپے میں مل جاتے ہیں، جن پر مزید رقم خرچ کرکے اسے کیکڑا موٹر گاڑی بنالی جاتی ہے۔ اس طرح جہاں ناکارہ گاڑیاں کارآمد ہوجاتی ہیں، وہاں تھر کے باشندوں کو معمولی کرائے میں سفر کی سہولت بھی میسر جاتی ہے اور چند ماہ میں اس گاڑی کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم بھی مالک کو حاصل ہوجاتی ہے۔
جہاں کیکڑا گاڑی تھری عوام کے لیے سفری سہولت کا ذریعہ ہیں ، لیکن ان گاڑیوں کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر یہ چلتے چلتے بند ہوجائیں تو بے شمار مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اگر مذکورہ ٹرک کا کوئی پرزہ خراب ہوجائے تو اس کے لیے سانگھڑ، میرپورخاص، مٹھی یا حیدرآباد کے علاوہ کراچی جانا پڑتا ہے۔ ایک معمولی پرزے کی خریداری اور اس کی تبدیلی پر پر لاگت کہیں زیادہ آجاتی ہے،
صحرا میں بگل بجاکر شیر کی طرح دھاڑتے، دوڑتے یہ کیکڑا ٹرک گاڑی ایک سمت سے دوسری سمت جانے کے دوران مسافروں سے لدی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کے مسافروں میں مرد و خواتین کے علاوہ مویشی بھی شامل ہوتے ہیں۔ مسافر اس امر میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے کہ انہیں جگہ مل رہی ہے یا نہیں۔ انہیں بس اپنی منزل پر سورج ڈھلنے سے پہلے پہنچنے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ وہ اس مقصد کے لیے کیکڑا گاڑی کے بونٹ، چھت، پائیدان پر لٹک کر بھی سفر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ صحرا میں سفر کے دوران ڈرائیور اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ گاڑی کی رفتار قدرے تیز ہو، تاکہ وہ ریت کے کسی چھوٹے یا بڑے ٹیلے میں پھنس کر نہ رہ جائیں، چناں چہ بسااوقات ان کی یہ سوچ محض خام خیالی ثابت ہوتی ہے اور ٹرک گاڑی الٹنے کے واقعات بھی رونما ہوجاتے ہیں، جن سے مسافروں کے زخمی یا ہلاک ہونے کے علاوہ، مال و اسباب کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
تھرپارکر میں ترقی اور خوش حالی کی ہر روز مقامی اور عالمی میڈیا کے ذریعے نوید سنائی جاتی ہے کروڑوں کی لاگت کے منصوبوں پر یہاں تیزی سے کام جاری ہے۔ ایک سیاسی جماعت نے یہ نعرہ بھی لگایا ہے کہ ’’تھر بدلے گا پاکستان‘‘ مگر تھرپارکر کے دیہی علاقوں کو دیکھ کر یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ 9واں بڑا صحرا پاکستان کی تقدیر تو شاید بدل دے، مگر پاکستان کے حکمراں اس صحرا کی تقدیر بدلنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور آئندہ 50 سال کے دوران بھی یہاں کے باشندے اسی کیکڑا گاڑی کو اپنی منزل پر پہنچنے کا واحد ذریعہ بناتے رہیںگے۔