رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی ہر طرف صُوفیانہ کلام، حمدیہ کلام اور نعتیہ کلام سنائی دیتا ہے۔خاص طور سحری اور افطار کے مواقع پرحمد، نعت اور منقبت پڑھی اور سُنی جاتی ہیں۔ رمضان المبارک کے آغاز ہوچکا ہے،جس کی وجہ سے نعت خوانوں کی مصروفیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ملک کے مختلف شہروں میں نعتیہ محافل کا اہتمام شروع ہوچکا ہے۔ دیگر نعت خوانوں کی طرح عالمی شہرت یافتہ ثناء خواں الحاج قاری سید محمد فصیح الدین سہروردی کا نام شعبۂ نعت خوانی کے حوالے سے بے حد مقبول ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص اندازِمدحت سے نہ صرف نعت خوانی میں جدت پیدا کی، بلکہ کروڑوں دلوں میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغ بھی روشن کیے۔ سید فصیح الدین سہروردی نے نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ مناقب اہل بیت بھی جداگانہ انداز میں پڑھیں۔ ان کی آواز میں’’میں تو پنجتن کاغلام ہوں‘‘ بہت مقبول ہوئی۔گزشتہ دنوں ان سے ایک ملاقات ہوئی،جس میں انہوں نے نعت اور تاریخ نعت کے بارے میں بتایا کہ ’’نعت خوانی وہ مقدس عمل ہے، جو اہل بیت اطہار اورصحابہ کرام کے ذریعے امتِ مسلمہ کوعطا ہوا۔ کفارکا یہ شیوہ تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے ادبی کے اشعارپڑھتے تھے۔ صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار جو شاعری سے آشنا تھے، وہ کفار کو اِس کاجواب نعت کی شکل میں دیتے تھے۔ لفظ نعت سب سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے استعمال کیااور عربی زبان میں نعت کے معنی تعریف کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں کہے جانے والے وہ اشعار جن میں آپؐ کی شان بیان کی جائے، آپؐ کے حسن وجمال کاتذکرہ ہو، آپؐ کے کمالات بیان کیے جائیں، یہ سب نعت کے زمرے میں آتے ہیں۔‘‘ آپ نے پہلی بار نعت کب پڑھی؟ اس سوال کے جواب میں سید فصیح الدین سہروردی نے بتایا کہا کہ’’میں نے پہلی بار نعت پانچ سال کی عمر میں پڑھی اورپہلا روزہ بھی پانچ سال کی عمر میں رکھا۔ ماہِ رمضان المبارک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کاایک بڑا انعام ہے، جو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل مسلمانوں کو عطا ہوا اور اس کااحترام ہرمسلمان مردوعورت پر لازم ہے۔ جو لوگ روزہ رکھنے کی استطاعت رکھتے ہیں، وہ روزہ ضرور رکھیں اور جو شخص روزہ رکھنے کی استطاعت کے باوجود جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھتا، اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے بے زاری کااظہارکیا ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں سید فصیح الدین سہروردی نے بتایا کہ اگرکوئی شخص نماز اور روزہ چھوڑکر یہ سوچتا ہے کہ وہ صرف محافل نعت میں شریک ہوکر بخشا جائے گا، تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ نعت کی سب سے بڑی افادیت یہ ہے کہ نعت سُننے سے دل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا ہوتی ہے اورمحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اسلام اور ایمان کی بنیاد ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں سید فصیح الدین سہروردی نے کہا کہ موسیقی اور دیگر آوازوں کی آمیزش نعت خوانی کے تقدس کوپامال کرتی ہے اورنعت خوانوں کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق لباس زیب تن کرناچاہیے اور صحابہ کرام کی اتباع میں نعت خوانی کرنی چاہیے۔ خالقِ کائنات کا لاکھ لاکھ شکراداکرتاہوں کہ اس نے میرے خمیر میں اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کوشامل کیا۔ نعت خوانی میں میری تربیت، میرے والد علامہ مولانا سیدمحمدریاض الدین سہروردی ؒ اور میرے اسکول کے استاد صبا متھراوی مرحوم نے کی۔آج میں جوکچھ بھی ہوں یہ میرے والد کی دُعاؤں اورتربیت کانتیجہ ہے۔‘‘نعت خوانی کی مصروفیات کی وجہ سے فیملی کو کتنا وقت دے پاتے ہیں؟ اس بارے میں سید فصیح الدین سہروردی نے بتایا کہ ظاہر ہے اتنی مصروفیت کی وجہ سے میں فیملی کو کم وقت دے پاتاہوں۔ اس سلسلے میں اپنی اہلیہ کاشُکرگزارہوں کہ انہوں نے ہرموقع پر میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا، بچوں کی بہترین پرورش کی اورمیری حوصلہ افزائی کی۔ اگرمجھے کبھی وقت ملے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارسکوں۔ نعت خوانی کے ورثہ کو آگے منتقل کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور میرے والد کی دعاؤں کے صدقے میرابیٹا سید محمد زین العابدین سہروردی خوب صورت انداز میں نعت کہتا بھی ہے اور پڑھتا بھی ہے۔ الحمدللہ وہ میرے ساتھ ماریشس اور انگلینڈ کا دورہ بھی کرچکا ہے۔ یہ پروردگار کا احسان ہے کہ میرے بیٹے کے علاوہ میری تینوں بیٹیاں بھی بڑی خوش الحانی سے نعت پڑھتی ہیں اورمیری ایک بیٹی حافظ قرآن بھی ہے۔‘‘ نعت خوانی کے فروغ کے حوالے سے سوال کاجواب دیتے ہوئے سیدفصیح الدین سہروردی نے کہا کہ میرے والد کی زندگی کالمحہ لمحہ فروغِ نعت کے لیے وقف رہا۔انہوں نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ خیر سے لوگوں کے قلوب و اذہان کومنورکیا۔ پاکستان میں نعت خوانی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے، الحمدللہ یہ میرے والد گرامی کی دن رات محنت کانتیجہ ہے۔‘‘
’’میں تو پنجتن کاغلام ہوں‘‘کی غیر معمولی مقبولیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟ اس منقبت کے شاعر یوسف قمر ہیں، انہوں نے یہ منقبت 1956ء میں لکھی اورجب میں نے اسے 1994ء میں پڑھا تو انہوں نے یہ منقبت سن کر کہا کہ یقیناً اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھ سے یہ منقبت آپ کی آواز میں پڑھنے کے لیے ہی لکھوائی ہے۔ اس منقبت کو مسلسل پڑھتے ہوئے آج مجھے کئی سال ہوچکے ہیں، لیکن اس کی مقبولیت میں ذرابھی کمی نہیں آئی۔ دنیا میں جہاں بھی میں جاتا ہوں، اس منقبت کی فرمائش ضرورکی جاتی ہے اور الحمدللہ یہی میری پہچان بن گئی ہے۔ سیدفصیح الدین سہروردی نے کہا کہ میں دُنیا کے 25 ممالک میں نعت خوانی کاشرف حاصل کرچکا ہوں اورمیری اب تک پاکستان اوردنیا کے مختلف ممالک سے ان گنت کیسٹس اور سی ڈیز ریلیز ہوچکی ہیں۔