• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گلفام پریوں کے دیس کا راجہ ہے اور گلنار اس کی رانی، لیکن ان دونوں کے بیچ ایک نوشگفتہ پری زاد کی خاطر رنجش چل رہی ہے۔ راجہ اس بچّے کو اپنی مصاحبت میں لینا چاہتا ہے جبکہ رانی کا اصرار ہے کہ وہ بچّہ اس کی مرحومہ دوست کی نشانی ہے جسے مرتے وقت وہ عہد دے چکی ہے کہ اس کی پرورش وہ خود کرے گی اور خود سے کبھی جدا نہیں کرے گی۔ بس یہی بات وجہ تنازع بن کر دونوں کو ہر ملاقات میں رنجیدہ رکھتی ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا حل راجہ نے یہ نکالا کہ کسی طرح گلنار کو شرمندہ کر کے اس سے اپنی بات منوا لے۔ اس مقصد کے لئے راجہ نے اپنے مصاحب پری زاد پک کو اس منصوبے میں شریک کیا اور اسے یہ کام سونپا کہ وہ جادوئی اثر رکھنے والا پھولوں کا رس رانی کی آنکھوں میں ٹپکائے جس کے اثر سے وہ اس پہلے فرد کے عشق میں گرفتار ہو جائے گی جو آنکھیں کھول کر اسے نظر آئے گا۔یہ کہانی بہار کی ایک افسوں بھری رات کی ہے اور کھیل کا میدان ایک گھنا جنگل ہے جہاں شیر، چیتے اور سانپوں کے علاوہ پرستان کی مخلوق بھی چاندنی رات میں سیر و تفریح کیلئے آتی ہے۔ محبت کے مارے کچھ نوجوان بھی بھولے بھٹکے ادھر آ نکلتے ہیں اور غریب، محنت کش لوگ بھی اپنی تفریح طبع کیلئے اس جنگل کا انتخاب کرتے ہیں۔
شیکسپیئر سے جان پہچان رکھنے والے فوراً سمجھ گئے ہونگے کہ میں اسکے مشہور زمانہ کھیل "A mid summer nights dream" کی کہانی بیان کر رہی ہوں، لیکن دراصل یہ اس کہانی کا اردو ترجمہ ہے، جسے خالد احمد نے کمال مہارت سے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ ضیاء محی الدین کی نگرانی میں اسٹیج کئے جانے والے ”ناپا“ کے ان کھیلوں کو اب پہلی بار کتابی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس مخصوص ڈرامے کا اردو ترجمہ ”بیچ بہار کا سپنا“ رکھا گیا ہے جو بے حد موزوں ہے، لیکن یہاں مجھے ترجمے کی خوبیاں بیان نہیں کرنا بلکہ اپنی اس کیفیت کا اظہار مقصود ہے جو اس اردو ترجمے کو پڑھتے پڑھتے رہ رہ کر میرے اوپر طاری ہو رہی تھیں۔اگرچہ ملکی صورتحال سے اس ڈرامے کا دور نزدیک کوئی واسطہ نہیں لیکن کہانی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے ہوئے رہ رہ کر یہ احساس ہو رہا تھا کہ کچھ ایسی ہی صورتحال سے ہم سب لوگ بھی دوچار ہیں۔ کوئی ان دیکھی جادوئی طاقت ہے جو ہم سب کی آنکھوں میں زود اثر رس ٹپکا کر جب چاہتی ہے ہماری نظر اور سوچ کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لیتی ہے۔ کم از کم ایک بڑے طبقے کی سوچ، خیالات اور اس اثر کے تحت کئے جانے والے فیصلے اور عمل، یقیناً کسی جادو کا کرشمہ ہی لگتے ہیں ورنہ وہ کون سی قوّت ہے جو اچھے بھلے ذی شعور اور پڑھے لکھے لوگوں کو کسی ایک فرد کے پیچھے یوں ذہن اور دل کی آنکھیں بند کر کے چلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔شیکسپیئر کے اس ڈرامے میں اس کے کردار جب تک پھولوں کے اس جادو اثر رس کے زیر اثر رہتے ہیں، اپنی اصلیت بھولے رہتے ہیں۔ پریوں کی ملکہ ایک گدھے کا روپ رکھنے والے کردار کی محبت میں گرفتار رہتی ہے اور دو نوجوان اپنی اپنی محبت کو بھول کر دوسرے نوجوان کی محبوبہ پر فریفتہ ہوتے رہتے ہیں لیکن دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اپنی اصلی صورت میں آنے پر یعنی جب ایک دوسرے پھول کا رس ان کی آنکھوں میں ٹپکا کر پہلے جادو کا اثر زائل کیا جاتا ہے یہ سب لوگ اپنی اس کیفیت کو ایک خواب کی صورت میں یاد رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی خواب دیکھا تھا لیکن جب تک خواب کی یہ کیفیت طاری رہتی ہے عجیب افراتفری کا عالم رہتا ہے کسی چیز کا کوئی سر، پیر نظر نہیں آتا بلکہ انجام کا سوچ کر وحشت ہوتی ہے۔کچھ ایسی ہی وحشت میرے اوپر کئی دنوں سے طاری ہے۔ ایک مجھ پر ہی کیا منحصر ہے، سوچ سمجھ رکھنے والا ہر انسان ہی اسی وحشت میں گرفتار ہے۔ ”پتہ نہیں کیا ہونے والا ہے؟“ ”بہت برا ہونے والا ہے“ بس اسی قسم کی گفتگو ہر طرف سنائی دیتی ہے۔ چالیس لاکھ کے لانگ مارچ کے دعوے ہوں یا سونامی کی دھمکی، تماشا کرنے اور دکھانے والے تو شاید محض تفریح طبع کیلئے یہ سب ڈھونگ رچاتے ہیں لیکن کھیل دیکھنے والے سامعین اور اس ڈرامے میں شامل کردار ایک خاص وقفے تک تو اسی ذہنی کیفیت میں گرفتار رہتے ہیں کہ جو ہو رہا ہے شاید سچ مچ ہی ہو رہا ہے اور شاید اس سب کا کوئی منطقی نتیجہ بھی ضرور ہی برآمد ہو گا لیکن سب جانتے ہیں کہ نظربندی یا جادو کوئی دیرپا چیز نہیں ہوتی محض وقتی گڑبڑ گھٹالا ہوتا ہے۔اصل ڈرامے کے کردار تو اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی تقدیر کے فیصلے کرنے والے ان کے حکمران، انسان دوست اور دردمند دل رکھتے ہیں اور انہیں جادو کے زیر اثر لانے والے پریوں کے راجہ اور رانی بھی، دل سے ان کی بھلائی کے خواہشمند ہیں حتیٰ کہ غریب محنت کش لوگ بھی جو مختلف کرداروں کا روپ دھار کر اپنے حکمرانوں کی خوشیوں کے جشن میں شریک ہوتے ہیں، انہیں بھی امراء اور ان کی بیگمات کی دل آزاری منظور نہیں یعنی ہر کوئی نیت نیک رکھتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ میری یا ہماری وحشت کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہاں کسی کی بھی نیت نیک نہیں اور کہانی میں موجود جادوئی رس کے توڑ کی طرح کا ہمارے پاس کوئی توڑ نہیں، جسے ٹپکا کر لوگوں کی آنکھیں کھولی جا سکیں اس لئے یہ افراتفری، بے یقینی، خودغرضی اور ان سب کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور بربادی، دہشت گردی اور انفرادی قیامتیں ہمارا مقدر رہیں گی۔ بس ہمارے لئے تو صرف دعا کے ہی دروازے کھلے ہیں۔ اے ہمارے رب… ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کو بخش دے اور ہم پر رحم فرما ، بے شک تو سب سے بڑا رحیم اور غلطیوں کو بخشنے والا ہے۔
تازہ ترین