• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:مفتی عبدالمجید ندیم…برمنگھم
رمضان المبارک پوری تیزی کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے خوش نصیب ہیں وہ افراد جو اس مہینے کی قدرکرتے ہو ئے اللہ تعالیٰ کے قرب کی منازل طے کر رہے ہیں۔ ان کی خو ش قسمتی کا کیا کہنا جو بغیر کسی سستی اور کوتاہی سے رحمتِ الٰہی سے اپنا دامن بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ وہ گناہ گاروں کے لئے چوبیس گھنٹے اپنا دامن پھیلائے ہو ئے ہے۔ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس رحمت کے مفہوم کو سمجھا جائے اور اس کے حصول کیلئے عملی اقدامات کیے جائیں تو آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ رحمت، اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نشانیوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے لئے خاص فرمایا ہے ۔حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحمت کو تخلیق کیا تو اس کے نناوے حصے اپنی ذات کے لئے مختص فرمائے اور صرف ایک حصہ ساری مخلوق میں تقسیم فرمایا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،رحمت ،اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کا جزوِ لازم ہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت لکھ دی ہے ‘‘۔ ( سورہ الانعام 54)۔اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام الرحمٰن اور الرحیم پورے قرآن میں پھیلے ہوئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور محبت کا شاہکار ہیں سورہ اعراف کی آیت نمبر 156اور 157میں ارشادِ ربانی ہے ’’میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہو ئی ہے، اور اسے میں ان لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے پس آج یہ رحمت ان لوگوں کا حصہ ہے جو اس پیغمبرؐ، نبی اُمی کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہو املتا ہے‘‘ ۔ اس سے معلوم ہوا کہ رحمت کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے ان کی رحمت چہار سو پھیلی ہوئی ہے اس رحمت سے وہی لوگ فیضیاب ہونے والے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفان حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو کُلی طور پر اس کی اطاعت میں لگا دیا ہو۔ قرآنِ مجیدیہ بھی بتاتا ہے کہ انسانوں کیلئے رحمت کی تقسیم اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے وہ اسے انسانوں کے عقیدے،افعال اور اعمال کے مطابق تقسیم فرماتا ہے ’’اللہ جس رحمت کا دروازہ بھی لوگوں کیلئے کھول دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد پھر کوئی دوسرا کھولنے والا نہیں( سورہ الفاطر2:) یہ رحمت ہر وقت ہی ہماری دستگیری کے لئے موجود رہتی ہے لیکن رمضان المبارک کے پورے مہینے میں بالعموم اور اس کے پہلے عشرے میں بالخصوص اس کا عروج ہوتا ہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے ’’ جونہی رمضان آتا ہے جنت کے دروازے کھل جا تے ہیں ، جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جا تا ہے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی اس پایاں رحمت کو پانے کے لئے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کئے جا سکتے ہیں:۔
:1 اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی لگاتار تجدید سے ۔اس بات کا احساس کہ ایمان کائنات کی سب سے بڑی دولت ہے جس پر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ایمان جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے ایسا وابستہ کردے کہ یہ تعلق زندگی کے آخری سانس تک قائم و دائم رہے۔ ارشادِ ربانی ہے ’’ پس جو لوگ ایمان لائے اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ رہے اللہ تعالیٰ عنقریب انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل فرمائے گا ۔(النساء175)2۔خوفِ الٰہی اور رسولِ اکرم ﷺ پر پختہ ایمان سے ۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کے دوگنے حصے سے مالا مال فرمائے گا ‘‘۔(الحدید28:) 3۔قرآنِ مجید کی پیروی اور اتباع سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’یہ وہ عظیم کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے،یہ برکتوں والی کتاب ہے۔ پس اسی کی پیروی کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تو یقیناً تم پر اللہ کی رحمت کا نزول ہو گا ‘‘۔ ( الانعام:155)4۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت اورنیک اعمال کی ادائیگی سے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’ مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے ممد و معاون ہیں۔ نیکی کا حکم دیتے، برا ئی سے روکتے اور اللہ اوراس کے رسول ؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر عنقریب اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے گا‘‘۔ (التوبہ:71)6۔احسان کا رویہ اختیار کرنے سے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت احسان کرنے والوں کو بہت ہی قریب ہے‘‘۔ (الاعراف56:)7۔توبہ اور استغفار سے۔ قرآنِ مجید صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ ’’تم اللہ سے توبہ و استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وافر حصہ دیا جائے۔( النمل46:)8۔ پوری دلجمعی کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے اور خاموشی اور ادب کے ساتھ اس کی سماعت کرنے سے ۔ ارشاد ہو تا ہے’’ جب قرآن پڑھا جارہا ہو تو پوری دلجمعی سے اس کی سماعت کرو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جا ئے۔ (الاعراف204:)9۔ دعا اور مناجات سے۔ اللہ تعالیٰ نے سچے اہلِ ایمان کی دعا کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے : ’’ اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ہدایت عطا ہو جانے کے بعد کسی بھی طرح کی ٹیڑھ میں مبتلا نہ فرما اور ہمیں اپنی رحمتوں سے مالا مال فرما کچھ شک نہیں کہ تو ہی سب سے بہتر عطا فرما نے والا ہے ‘‘۔ ( آلِ عمران8:)حضور ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ تمہارے درمیان رمضان کا ایسا برکتوں والا مہینہ آچکا ہے جس میں اللہ تعالیٰ تمہیں غنی کرنا چاہتا ہے پس وہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے ‘‘۔ ( طبرانی)۔ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ پیارے رسول ﷺ نے فرمایا ’’ اللہ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو رات کے وقت نماز کے لئے اٹھتا ہے۔ خود بھی نفل نماز ادا کرتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے ‘‘۔ 10۔قرآن فہمی اور ذکرِ الٰہی کی محافل میں شرکت کرنے سے۔صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ جو لوگ بھی اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اس مقصد کے لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ قرآن مجید سیکھیں اور سکھائیں تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ان پر سکینت نازل فرماتے ہیں، رحمتِ الٰہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کی محفل میں ان کے تذکرے فرماتے ہیں‘۔ (مسلم)رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ مغفرت اور بخشش کا عشرہ ہے یوں تو رمضان کے ہر دن اور ہر رات اللہ تعالیٰ لا تعداد لوگوں کو اپنے فضل و کرم اور ان کی توبہ و استغفارکے نتیجے میں بخشش سے ہمکنار فرماتے ہیں لیکن دوسرا عشرہ خاص طور پر اس کام کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ مغفرت کے معانی گناہ کی تباہ کاریوں سے بچانے، معافی دینے اور پردہ پو شی کے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ رحیمی ہے کہ وہ گناہ گاروں کو توبہ و استغفار اور رجوع الی اللہ کے ذریعے گناہ کی وادی سے باہر آنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ سچے دل سے توبہ کرنے والا اس کے ہاں یوں شمار ہوتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں (بخاری)۔اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش مانگنے کا بہترین طریقہ رمضان کی راتوں کے آخری پہر کہیں تخلیے میں جا کر اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاضر و ناظر جان کر اس احساس سے اس کے سامنے دامن پھیلا دیا جائے کہ وہی توبہ قبول فرمانے والا، گناہوں کے دفترِ سیاہ کو دھونے والا اور بے نواؤں کی پکار سننے والا ہے۔ اس احساس اور حضوری کے ساتھ، گناہوں پر شرمندگی اختیار کرتے ہو ئے جو بھی آنسو بہائے جائیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اتنے ہی محبوب ہو جائیں گے جتنے خون کے وہ قطرے جو شہید کے جسم سے بوقتِ شہادت ٹپکتے ہیں ۔(بخاری)
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چُن لئے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
رمضان المبارک کا آخری عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کا عشرہ ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جس فرد کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے وافر حصہ مل جائے اور وہ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کے ذریعے معافی کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں سے چھٹکارا حاصل کر چکا ہو اس کے لئے یہ عشرہ جہنم کی آگ سے آزادی کا عشرہ بن جاتا ہے۔ قرآن مجید کی زبان میں حقیقی کامیابی اسی شخص کے لئے ہے جو جہنم سے محفوظ اور جنت کا مستحق قرار پایا ہو ’’ پس جو شخص جہنم کی آگ سے بچا لیا گیا ہو اور جنت میں داخلے کا پروانہ پاچکا ہو وہ یقینی طور پر کامیاب ہے اور دنیا کی زندگی سوائے دھوکے کے ساز و سامان کے کچھ بھی نہیں ‘‘۔آخری عشرے کی ایک اہم بات جو اسے پہلے دونوں عشروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے اندر لیلۃ القدر جیسی عظیم الشان رات ہے جس کی عبادت و ریاضت ہزار مہینے کی عبادت سے افضل اور عظیم تر ہے۔ اور دوسری اہم بات ’’اعتکاف‘‘ جیسی عالیشان نعمت ہے۔ یہ ایک ایسی رہبانیت ہے جس کے نتیجے میں بندہ اللہ تعالیٰ کا مہمان بن کر اس کے در کا سوالی بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اور جہنم کے درمیان ایسی دو خندقوں کا فاصلہ کر دیا جاتا ہے جن کا درمیانی فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان پائے جانے والے فاصلے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی عملی جدوجہد سے رحمت اور بخشش کا حصول کرنے کے بعد جہنم سےخلاصی کا اہتمام کریں ۔اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)۔
تازہ ترین