• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔ ہم سب سے غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ ہم حیران تب ہوتے ہیں جب غلط بات کہنے کے بعد کوئی شخص بضد ہو جائے کہ اُس نے جو بات کہی ہے وہ درست ہے۔ اُس نے جو فیصلہ کیا ہے وہ غلط نہیں ہے۔ اُس کا فیصلہ درست ہے۔ حرفِ آخر ہے اُس کا فیصلہ نہ تو تبدیل ہو سکتا ہے اور نہ ہی فیصلے پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔ پچھلی کتھا میں، میں نے حنیف محمد کے اسکول میں اُن کے کلا س میٹ اور اور وکٹ کیپر بیٹس مین عبدالرشید کا ذکر کیا تھا۔ عبدالرشید کی جارحانہ بیٹنگ دیکھ کر دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے مگر میٹر ک کے بعدوہ کھیل نہ سکا۔ روزی روٹی اور معاشی مجبوریاں عبدالرشید کو نگل گئیں۔ اگلے وقتوں میں نجی اداروں میں کھیل کے شعبے نہیں ہوتے تھے۔ ہاں! کراچی میں دوچار ایسے ادارے تھے جو ابھرتے ہوئے فٹ بال کے کھلاڑیوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پاس مضبوط اور صلاحیتوں سے بھرپور فٹبال ٹیم ہوتی تھی مگر کسی کرکٹ کھلاڑی کے لئے کراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت کی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ کے ایم سی (KMC)یعنی کراچی میونسپل کارپوریشن کی ٹیم (KPT) یعنی کراچی پورٹ ٹرسٹ کی فٹبال ٹیم سے کم مضبوط نہ تھی۔ مگر کسی کرکٹ کھلاڑی کو کراچی میونسپل کارپوریشن میں اپنے کھیل کے بل بوتے پر ملازمت نہیں ملتی تھی۔

میرے فاسٹ بالر کو سیاست سے فرصت نہیں ملتی۔ اصل میں، میں لکھنا چاہتا تھا کہ ہمارے فاسٹ بالر کو سیاست نگل گئی ہے مگر میں نے نہیں لکھا۔ اب وہ ہمارے وزیراعظم ہیں۔ پروٹوکول کو مدنظر رکھتے ہوئے میں مناسب نہیں سمجھتا کہ لکھوں کہ سیاست ہمارے فاسٹ بالر کو نگل گئی ہے۔ وہ سیاست میں مصروف ہو گئے ہیں۔ میں مودبانہ اُن کو برصغیر میں تاریخ کے اوراق سے کرکٹ کھیل سے وابستہ کچھ قصے، کہانیاں سنانا چاہتا ہوں۔ آپ سننا چاہیں تو سن سکتے ہیں۔

انگریز نے ہندوستان کی ریاستی روایت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ ہندوستان میں ڈھائی سو کے لگ بھگ ریاستیں تھیں جو کہ تقریباً خودمختار تھیں۔ انگریز کو یہ ریاستیں ورثے میں ملی تھیں بالکل اُسی طرح جس طرح ہم مسلمانوں کے ہندوستان پر پانچ سوسالہ دورِ اقتدار میں یہ ریاستیں ہمیں ورثے میں ملی تھیں۔ صدیوں سے دہلی کو طاقت اور اقتدار کا مرکز اور منبع تسلیم کیا جاتا تھا۔ ریاستیں مرکز سے اچھے مراسم بنائے رکھتی تھیں اور مرکز بھی اُن کا احترام کرتا تھا۔ تصادم کی صورت میں مرکز سرکش ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتا تھا۔ ہندوستانی ریاستیں انگریزوں سے بہت متاثر تھیں۔ ریاستوں کے فرمانروا، راجے مہاراجے اور شہزادے دعوتوں پر انگلستان آتے جاتے۔ انگریزی پڑھتے سیکھتے، عادتیں اور اطوار اُن جیسا اپناتے، اُن جیسا لباس پہنتے۔ اپنے محلوں کی سجاوٹ اور آرائش کے لئے سازوسامان یورپی ملکوں سے خاص طور پر برطانیہ سے منگواتے۔ میل جول کے دوران ریاستوں کے والیوں کو یہ بات سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ کرکٹ انگریز کا محبوب کھیل ہے۔ کچھ ریاستوں نے کرکٹ کو اپنایا۔ کرکٹ اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کی سرپرستی کی۔ اُن ریاستوں نے ہندوستان کو بہترین کھلاڑی دیئے جنہوں نے ہندوستان کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا اعزاز دلوایا۔

اسی طرح PIAپاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن نے ثابت کر دکھایا کہ ایک کھلاڑی کو اگر کلرکی کرنے کے بجائے توجہ سے کھیلنے دیا جائے تو وہ ملک کے لئے کیا سے کیا کرسکتا ہے؟۔ یادداشت اگر مجھے دھوکہ نہیں دے رہی، میں سمجھتا ہوں اسکواش کھیل کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان بھی پی آئی اے میں ہوتے تھے۔ وہ دفتر میں کلرکی نہیں کرتے تھے۔ وہ دنیا بھر میں اسکواش کھیلتے تھے۔ جاوید میانداد علم اقتصادیات (ECONOMICS) میں ایم اے یا پی ایچ ڈی نہیں ہیں۔ ایک بینک کی طرف سے کھیلتے ہوئے جاوید میانداد بینک کے وائس پریزیڈنٹ کے برابر تنخواہ لیتے تھے۔ اُن جیسی ہی مراعات میانداد کو ملتی تھیں۔ یونس خان کو ایک دوسرا بینک اِسی نوعیت کی مراعات اور تنخواہ دیتا تھا۔ میری گزارشات کا مطلب ہےکہ کسی بھی باصلاحیت کھلاڑی کے لئے، آرٹسٹ کے لئے، فنکار کے لئے معاشی استحکام لازمی ہے۔ کھلاڑیوں کو، آرٹسٹوں کو معاشی استحکام نجی ادارے دیتے ہیں۔ اُنہیں پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں۔ رستم زمان گاما پہلوان، امام بخش اور بھولو پہلوان جیسے پہلوانوں کو معاشی استحکام ریاستوں نے دیا تھا۔ استاد بڑے غلام علی خان، خان صاحب، عبدالکریم خان ،پنڈٹ، اومکرناھ اور جھنڈے خان جیسے بے مثال گوئیوں کی حفاظت ریاستوں نے کی تھی ورنہ معاشی بدحالی اُن سب کو نگل گئی ہوتی۔ ہمارے ہاں یہ کام حکومت پاکستان اور چار صوبوں کے بس کا نہیں ہے۔

کراچی کی آبادی تقریباً آسٹریلیا کی آبادی کے برابر ہے۔ صرف کراچی شہر سے باصلاحیت کھلاڑیوں کی چھ کرکٹ ٹیمیں تیار ہو سکتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ فاسٹ بالر بڑے ضدی ہوتے ہیں۔ میری اپنے فاسٹ بولر سے گزارش ہے کہ سر آپ اس غیر سیاسی معاملے میں یوٹرن لیں۔ ادارتی کرکٹ پر بندش ڈالنے کے بجائے اداروں کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کے لئے معاشی استحکام کا سبب بنیں۔

تازہ ترین