• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھر کول پروجیکٹ کیخلاف سازشوں کا نیا دور شروع ہوگیا، مرتضی وہاب

وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات قا نون و اینٹی کرپشن سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ تھر کول پروجیکٹ کے خلاف سازشوں کا ایک نیا دور شروع کیا گیا ہے،نیب کی جانب سے تھر کول سے منسلک کمپنی کے چیئرمین خورشید جمالی اور دیگردو سرمایہ کا روں کو گرفتارکرلیا گیا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ اسمبلی میں میڈیا کارنر پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے سندھ میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو گی، چیئر مین نیب کی یقین دہا نی کے باوجود سرمایہ کاروں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے روز سے ہی تھر کول منصوبے کے خلاف سازشیں کی جا رہی ہیں پہلے کہا گیا کہ یہ کوئلہ ہی نہیں ہے پھر کہا گیا کہ یہ کوئلہ غیرمعیاری ہے لیکن حکومت سندھ نے اس منصوبے کو جاری رکھا اور اس کوئلے سے بجلی پیدا کر کے نیشنل گرڈ میں شامل کی، اسی لیے بلاول بھٹو نے تھر کے کوئلے سے بجلی کو عوام کے لیے تحفہ قرار دیا تھا کیونکہ ہم ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنی دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن حکومت یا نیب کی جانب سے سرما یہ کا روں سے یہ سلوک ہوگا اور انہیں ہتھکڑیاں لگیں گی تو سرمایہ کا ر کیسے آئے گا؟

صوبائی مشیر نے کہا کہ اگر کوئی سرمایہ کا ر تاجر غلط کام کرے تو جرم سے قبل نہیں بلکہ جرم ثابت ہونے پر ہی گرفتار کیا جانا چاہئے جبکہ دوسری جانب حکومتی ساتھ دینے والوں کے خلاف انکوائری کے باوجود کوئی گرفتاری نہیں کی جاتی، علیم خان کو گرفتاری کے بعد کیا ثابت کیا گیا، شرجیل میمن کئی ماہ سے گرفتار ہیں مگر کیا ثابت ہوا۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جس سے معیشت کا پہیہ چلے ہمارے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے درست کہا ہے کہ نیب یا معیشت کسی ایک کو چلنا چاہئے، یہاں مدینے کی ریاست کا نام تو لیا جاتا ہے مگر ان کے قول فعل میں بڑا فرق ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گرفتار خورشید جمالی اور سرمایہ کاروں کا تعلق بجلی بنانے کی کمپنی سے ہے، تھر منصوبے اور انور مجید سے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا استحقاق ہے کہ جو اچھا کام کرے اسے انعام ملنا چاہئے، خورشید جمالی کا کردار تاریخی ہے، انہوں نے کئی کام کئے، تھر سے ساڑہے چھ سو میگاواٹ بجلی تیار کی اور اب مزید بجلی بننے جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں توانائی کے بحران پر سندھ نے اس میں حصہ داری کا فیصلہ کیاہم نے دو پاور پلانٹ نوری آباد میں لگائے جس کی منظوری نیپرا سے لی گئی، حیسکو سے بھی کمپنی کا معاہدہ ہوا مگر عین وقت پر ہمیں حیسکو نے جواب دے دیا اورمعذرت کرلی اس وقت ہمارے پاس دو راستے تھے ایک یہ کہ منصوبہ بند کر دیا جائے یا دوسرا راستہ بجلی فروخت کی جائے ہم نے کے ای سے اس کا معاہدہ کیا اور نوری آباد سے بجلی فراہم کرنے کا کہا لیکن بجلی کی ترسیل بریف کیس یا بینک اکاؤنٹ سے نہیں ٹرانسمیشن لائن سے ممکن تھی اس لیے ہم نے آرٹیکل 151 کے تحت ٹرانسمیشن لائن بچھانے کا فیصلہ کیا اور18 ماہ میں ٹرانسمیشن لائن بچھائی اور دوسو میگاواٹ بجلی فروخت کی۔

انہوں نے کہا کہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب ملک کے ادارے نقصان میں جارہے ہیں اس وقت اس کمپنی نے چارسو پچاس ملین روپے کمائے اوراسی کمپنی کو نیپرا نے صوبائی گرڈ کا درجہ دیا ۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بچی کے ساتھ زیادتی افسوس ناک واقعہ ہے ہم نے پالیسی بنانے اور قانون بنانے کا فیصلہ کیا اوراس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کی لیکن وفاق اور دیگر صوبوں نے اس پر کوئی پیش رفت نہیں کی، اگر اس پر پیش رفت کی جاتی تو معصوم بچی اس طرح کے واقعہ سے بچ جاتی۔

انہوں نے کہا کہ جی ڈی اے کا عوام سے تعلق نہیں پیپلز پارٹی کا تعلق عوام سے ہے، ہمارے اسلام آباد کے افطار کا مقصد حکومت کو ٹف ٹائم دینا تھا۔

تازہ ترین