قتل اور منشیات کے مقدمات کی فوری سماعت اور فیصلوں کے لیے میرپورخاص سمیت ملک بھر میں 116ماڈل کریمنل کورٹس نے یکم اپریل2019سے عملی شکل اختیار کرکے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔اس بارے میں مزید معلوم ہوا ہے کہ ملک کے تمام انسپکٹر جنرلپولیس،آئی جی جیل خانہ جات،چیف سیکریٹریز،ہیلتھ سیکریٹریز اور پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹس کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ تمام ادارے ماڈل کورٹس کے احکامات کو ترجیح دیتے ہوئے اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے،تاکہ متعلقہ ماڈل کورٹس قائم کرنے کے مقاصد پورے ہوسکیں۔بتایا جاتا ہے کہ ماڈل کورٹس کے قیام کا بنیادی مقصد عوام کو فوری انصاف فراہم کرنا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جناب آصف سعید کھوسہ نے 12مارچ2019کو قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی کے اجلاس کے موقع پر ملک بھر میں ضلعی سطح پر ماڈل کورٹس قائم کرنے کا تاریخی اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماڈل عدالتیں عوام کو فوری انصاف دلانے اور بڑی تعداد میں زیر التواء مقدمات کونمٹانےکے لیے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں گی۔محترم چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ آئین کے آرٹیکل 37(ڈی) کے تحت تیز تر اور سستا انصاف فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی کے فیصلہ کے تحت فوجداری مقدمہ کا فیصلہ ایک سے چار ہفتہ میں کردیا جائے گا۔گواہان کو لانے کی ذمہ داری پولیس کی ہوگی۔ شاہدین کا بیان وڈیو لنک پربھی ریکارڈ ہوسکے گا۔ماڈل کورٹس کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ میرپورخاص سمیت ملک بھر میں قائم 116 ماڈل کریمنل کورٹس تیزی سے مقدمات کی سماعت کررہی ہیں۔اطلاعات کے مطابق ان عدالتوں کی جانب سے طویل عرصہ سے زیر التوا مقدمات کی بڑی تعداد کے فیصلے سامنے آچکے ہیں۔
ماڈل کورٹس کی کارکردگی پر چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے13 اپریل 2019کو فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں فوری انصاف اور کم مدت میں کریمنل کیسوں کے مقدمات کے فیصلے کرنے کے روڈ میپ کے موضوع پر منعقدہ قومی کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے کلیدی خطاب میں اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ماڈل کریمنل کورٹس کے بعدچاروں صوبوں میں سول ماڈل کورٹس قائم کرنے کا اعلان کرتے ہو ئے کانفرنس میں موجود ماڈل کریمنل کورٹس کے ججز کو اپنا اور پاکستان عدلیہ کا ہیرو قرار دیا۔چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ بدقسمتی سے ملک میں شعبہ انصاف پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل نہیں،جس کے بارے میں دلیل دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جلد انصاف کی فراہمی کے لیے پارلیمنٹ کو 17رپورٹیں دے چکے ہیں،لیکن ایوان نے کسی پر عمل درآمدنہیں کیا۔جیف جسٹس اس سے قبل بھی کئی مواقع پر ملک کے عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق اپنی ترجیحات سامنے لاچکے ہیں۔بلاشبہ پولیس،عدلیہ اور جیل کریمنل جسٹس سسٹم کی بنیاد اور اہم تکون ہیں۔ان میں سے کوئی ایک کمزور ہو توانصاف کا قتل اور مختلف سنگین مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ملک میں نظام انصاف کا اہم ستون عدلیہ کو سمجھا جاتا ہے، بدقسمتی سے و طن عزیز پاکستان میں مجرم کو سزا سنانے کی شرح 5 سے10 فیصد ہے۔انصاف میں تاخیر ناانصافی کے مترادف ہے۔ہماری عدالتوں میں کسی بھی مقدمہ کی سماعت کے دوران متعلقہ اداروں کی تفتیش،گواہان کی حاضری،ملزمان کی پیشی،ججز اور وکلاء کی دستیابی وغیرہ بڑے چیلنجز ہیں،جو فوری انصاف کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ سمجھے جاتے ہیں۔
ملک کے دیگر علاقوں کی طرح سندھ کے چوتھے بڑے شہر میرپورخاص کی عدالتوں میں مختلف نوعیت کے مقدمات کی بڑی تعداد طویل عرصہ سے التواء کا شکار ہے ۔ماڈل کریمنل کورٹس کے قیام کے بعد مدت سے التواء میں پڑے ہوئے مقدمات کے فیصلے تیزی سے ہورہے ہیں۔پراسیکیوشن اور اداروں کا عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کے جلد فیصلوں میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج میرپورخاص کی عدالت نے 2018اور 2019میں میرپورخاص ضلع کے مختلف تھانوں اور ایکسائز پولیس کی جانب سے ہیروئن ،چرس وغیرہ کے داخل کیے گئے 25مقدمات آرٹیکل 10 اے کے تحت ختم کر دیئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ منشیات کے مقدمات میں کیمیکل رپورٹس عدالت کے بار بار احکامات کے باوجود فراہم نہیں کی گئیں ۔ایک دوسری اطلاع کے مطابق سندھ کے مختلف اضلاع میں منشیات سے متعلق عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں کیمیکل رپورٹس کی ایک بڑی تعداد ایک طویل عرصہ سے التواء میں پڑی ہوئی ہے، جس سے منشیات کے سینکڑوں مقدمات مبینہ طور پر تاخیر کا شکارہوگئے ہیں۔
ماڈل کورٹس کے قیام کے حوالےسے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ قیام پاکستان کے ابتدائی چند سالوںکو چھوڑ کر غریب طبقہ کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنا کبھی بھی حکمراں طبقہ کی ترجیح نہیں رہا ہے،ان کے نزدیک انصاف صرف وہ ہے جس سے انہیں ریلیف ملتا رہے ۔ان کا کہنا تھا کہ انصاف کا حصول اتنا مہنگا اور پیچیدہ بنادیا گیا ہے کہ عام آدمی انصاف کے حصول میں اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے۔عوامی رائے ہے کہ ملک میں جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیئے محترم چیف جسٹس کا ماڈل کورٹس کے قیام کا تجربہ عوام کے لیےبہتر ثابت ہوگا جب کہ کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ عبوری اصلاحات سے انصاف کی جلد فراہمی کے معاملات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس کے لیےپورے عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔