مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر
اینڈریو انگلینڈ
قطر کے وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور امریکا تعطل کا شکار ہوگئے ہیں اور دونوں فریقین کو غلط اندازوں سے پیدا ہوانے والے مسائل سے بچنے کیلئے سمجھوتے کی ضرورت ہے۔
شیخ محمد بن عبدالرحمٰن ال تھانی نے کہا کہ دوحہ جس کے ایران اور امریکا دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات ہیں،کئئی ہفتوں سے جاری شدید کشیدگی جس نے مشرق وسطیٰ میں نیا تنازع پیدا ہونے کا خوف پید کردیا تھا کے بعد کشیدگی میں کمی کیلئے واشنگٹن اور تہران سے بات چیت کررہا تھا۔
شیخ محمد نے کہا کہ فی الحال میرے خیال میں یہ ایک تعطل کی طرح ہے۔ ہمیں بلواسطہ یا بلا واسطہ کسی ایک بھی فریق کی جانب سے غلط اندازے کے بارے میں ہمیں خدشات ہیں۔کسی بھی تنازع کا اختتام تعطل پر ہونا چاہئے،تعطل کا مطلب دونوں فریقین کی جانب سے سمجھوتہ اور ہم امید کرتے ہیں کہ یہ دیر کی بجائے جلد ہی ہوگا کیونکہ اس میں جتنی دیر لگے گی،اس خطے میں مزید کشیدگی پیدا ہوگی اور اس سے زیادہ سے زیادہ مسائل اور تنازعات پیدا ہوں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کی غیر واضح کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے گزشتہ ماہ ایئر کرافٹ کیریئر اسٹرائیک گروپ، بی 52 بمبار اور پندرہ سو اضافی فوجی دستے خطے میں تعینات کیے۔ امریکی حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ انہیں یہ بھی شک ہے کہ متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ پر دو سعودی بحری جہازوں سمیت چار آئل ٹینکروں پر تخریب کاری حملوں کے پس پردہ ایران تھا۔
رواں ماہ کشیدگی میں کمی آئی ہے اور شیخ محمد نے کہا کہ دوحہ سمجھتا ہے کہ دونوں فریق جنگ نہیں چاہتے اور اس کی بجائے اسی صورت حال کا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ایران چاہتا ہے کہ مذاکرات کے کسی امکان سے قبل امریکا اسے کمزور کرنے والی پابندیوں میں نرمی کرے۔
جاپان کے وزیراعظم شنزو آبے کا آئندہ ہفتے تہران کا دورہ متوقع ہے، جہاں ان کی صدر حسن روحانی اورایران کے رہبر معظم آیت اللہ علی خامنائی سے ملاقات کی امید ہے۔ جاپان امریکا کا قریبی اتحادی ہے اور ایران کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات ہیں، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا شنزو آبے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی یا حریف طاقتوں کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ےاہم جاپانی حکام نے ثالثی کے امکانات کو معدوم کردیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال امریکا کو یک طرفہ طور پر ایران کے ساتھ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے سے الگ کردیا تھا،جس پر عالمی طاقتوں نے دستخط کیے تھے اور ایران پر پابندیاں عائد کردیں جسے اس نے اسلامی جمہوریہ ایران پر اب تک کی سب سے سخت پابندیاں بیان کیا۔ تاہم امریکی صدر یہ بھی کہا کہ امریکا کسی پیشگی شرائط کے بغیر مذاکرات کے لیے تیار ہے،امریکی وزیر خارجہ نے اس سے قبل ایران سے 12 مطالبات کیے تھے جنہیں ایران نے مسترد کردیا تھا۔
تاہم ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس ہفتے امریکا کے ہمارے ملک کے سب سے بڑے پیٹروکیمیکل کے حامل گروپ پر پابندیوں کے فئیصلے نے ثابت کردیا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مذکارات کی پیشکش کھوکھلی تھی۔
شیخ محمد نے کہا کہ دوحہ فاصلے کم اور ایران اور امریکا کے درمیان بات چیت شروع کرانے کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ قطر امریکا کی پالیسی کا احترام کرتا ہے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے اپنے فیصلے خود کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی معیشت پر بڑا دباؤ ہے ،لیکن ایران 40 سال سے پابندیوں کے تحت رہا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا تاہم وہ برقرار رہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اسے دہرانے سے مختلف نتائج پیدا ہوں گے۔ ایران اسی سطح کی پابندیوں کا تسلسل اور امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنا نہیں چاہتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک معاہدہ ہواتھا اور امریکا اس معاہدے کا حصہ تھا۔
جوہری معاہدے کے تحت ایران نے متعدد پابندیاں ہٹانے سے معیشت کو سہولت فراہم کرنے کے بدلے میں اس کی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر اتفاق کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے کو اب تک کا سب سے بدتر معاہدہ قرار دیا اور ایران پر خطے میں عدم استحکام اور انتہا پسندی کو بھڑکانے کیلئے مقامی خانہ جنگیوںکے استعمال کا الزام لگایا۔ قطر مشرق وسطیٰ میں امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے کی میزبانی کررہا ہے،لیکن اس کے ایران کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ ایران اس وقت دوحہ کی امداد کیلئے آیا جب حریف ممالک نے گیس سے بھرپور ملک پر علاقائی پابندیاں لگائیں، اور قطر کیلئے اپنے ہوائی اڈے اور بندرگاہیں کھول دیں۔