آخوند عبدالرؤف بھٹی، شکار پور
جو قومیں اپنے ماضی سے ناتہ توڑ لیتی ہیں،وہ پستیوں کی جانب گامزن ہوجاتی ہیں اور انہیں روشن مستقبل کی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ اس لئے زندہ قومیں اپنے بزرگوں اور مشاہیر کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ ان کے مشاہدے اور تجربات سے استفادہ کرکے ترقی و کامرانی کی منازل کی شاہراہوں پر سفر کرتی ہیں۔ سندھ ایک مردم خیز خطہ ہے، جہاں بے شمار نابغہ روزگار ہستیوں نے جنم لیا ہے۔ مختلف ادوار میں ہمارے بزرگوں نے علم و ادب ،رفنون اور سب سے بڑھ کر انسانی خدمت کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ان کے کارناموں کو مشعل راہ بنا کر اور ان کے نقش قدم پر چل کر ہم اپنے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں جب کہ اپنی نئی نسل کی بتہر مستقبل کی جانب سفر کے لیے رہنمائی کرسکتے ہیں۔
وادی مہران کے ایسے ہی قابل فخر مشاہیر میں سے ایک نام مولانا دین محمد وفائی کا ہے۔ مولانا دین محمد وفائی نے اپنے پوری زندگی علمی ادبی اور فلاحی سرگرمیوں میں فعال رہ کر گزاری۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور سرگرمیوں سے نہ صرف سندھ کے منفرد کلچر اور ثقافت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ بنی نوع انسان کے تہذیبی ارتقاء کا خندہ پیشانی سے خیر مقدم کیا اور سندھ کو بھی ترقی یافتہ ملکوں کے مساوی لانے کی ان تھک کوشش کی، جس کے باعث سندھ کے تمام حلقوں میں انہیں نہایت تعظیم و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دور میں سندھ نے تہذیبی ثقافتی اور عالمی سفر کو جاری رکھا ہے۔ لیکن20 ویں صدی کے حوالے سے سندھ کی تاریخ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف سندھ بلکہ پوری دنیا میں 20 ویں صدی قدامت کو چھوڑ کر نئی راہ اختیار کرنے کے حوالے سے منفرد اہمیت کی حامل ہے۔
بنی نوع انسان نے ہمیشہ ترقی کی جانب اپنے سفر کو جاری رکھا ہے اور ہر دور میں علمی اور تحقیقی دنیا میں نئی نئی جدتیں پیدا کی ہیں۔لیکن اس بات پر دنیا میں عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ 20ویں انسانی ترقی کی معراج کی صدی ہے۔ فلسفہ اس زمانے میں انسان کے عقل کی بالادستی کو تسلیم کیا اور تسخیر کائنات کے حوالے سے حیران کن مستقبل کی بنیاد رکھی۔ اس عہد میں دنیا میں بڑے بڑے انقلابات برپا ہوئے۔ نئی نئی سیاسی تحاریک نے جنم لیا اور پہلی بارمختلف ممالک میں تخت و تاج اچھالے جانے لگے۔ سائنسی ایجادات کے علاوہ علم و ادب میں نئے نظریات فروغ پانے لگے۔ اس عہد کے بارے میں شاعر علامہ اقبال نے کہا:
عروج آدم خاکی سے انجم سمجھے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہہ کامل نہ بن جائے
اس دور میں برصغیر برطانوی حکومت کے زیر نگین تھا اور سندھ دھرتی پر بھی انگریز حکمراں تھے۔ اس دور میں نئے نظریات اورجدید اصول تیزی سے متعارف ہونے لگے۔ 20ویں صدی کے آغاز میں سندھ میں ایسی دینی، علمی، ادبی اور معاشرتی اصلاحی تحریکوں کا فروغ ہواجس کی مثال اس سے پہلے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ان تحریکوں نے سندھ کے تہذیبی، علمی اور نظریہ ارتقاء پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں لیکن روشن خیال اور جدید فکری ماحول کی تعمیر و ترقی کا اصل سہرا سندھ کے ان بزرگوں اور مشاہیر کے سر جاتا ہے، جن کی علمی، ادبی اور فکری سرگرمیوں کے بغیر معاشرے کی تشکیل اور آج کے سندھ کا وجود ممکن نہ تھا۔ مولانا دین محمد وفائی انہی برگزیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی خدمات اور فیوض پر ہم جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔سندھ دھرتی سے تعلق رکھنے والے مولانا دین محمد وفائی، پاکستان کے ممتاز سیاستدان، عالم دین، سوانح نگار، صحافی، تذکرہ نویس، ادیب اور تحریک خلافت کے سرگرم کارکن تھے۔ آپ نے صحافت کے ذریعے انگریز سامراج سے آزادی کے لیے مسلمانان ہندو پاکستان کی ذہن سازی کا کردار ادا کیا اور مسلم تشخص کو برقرار رکھنے پر زور دیا۔
مولانا دین محمد وفائی کی زیر ادارت شائع ہونے والے روزنامہ الوحید اور ماہنامہ توحید کا ہر شمارہ ان کی قومی خدمات اور علمی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اخبارات و رسائل کے ذریعے مولانا دین محمد وفائی نے سندھ کی دینی علمی تحریک اور سیاسی فلاح و بہبود کے حوالے سے جو خدمات انجام دی ہیں، سندھ کا بچہ بچہ ان سے بخوبی واقف ہے اور سندھ کے تمام مکاتب فکر کے افراد کے دلوں میں آج بھی منقش ہیں۔ روزنامہ الوحید کے ساتھ ان کی وابستگی 23سال رہی۔ اس عرصے کےدوران مولانا دین محمد وفائی نے ادبی سیاسی اور ملکی حالات سے متعلق جتنا مواد پیش کیا اگر انہیں اکٹھا کیا جائے تو بے شمار کتابیںتیار ہو جائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ مولانا نے سارا وقت اپنے دفتر میں بیٹھ کر اخبارات اور رسائل کی ادارت کرتے ہی نہیں گزارا بلکہ وہ سندھ کے عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی کیلئے ہمیشہ عملی میدان میں رہے۔ وہ عوام کے مفاد میں چلنے والی علمی تحاریک اور سیاسی جدوجہد میں ہمیشہ سرگرم رہے۔
مولانا دین محمد وفائی کی ولادت 23رمضان المبارک 1311ھ کو ہوئی۔ ان کا آبائی گائوں کتھی عرف نبی آباد تحصیل گڑھی یاسین میں واقع ہے جو اس وقت سکھر میں شامل تھا اور اب ضلع شکار پور کا حصہ ہے۔ ان کے والد کا نام خلیفہ مولوی حکیم گل محمد قوم بھٹی ہے۔ خلیفہ مولوی حکیم گل محمد اپنے وقت کے نامی جید عالم اور حکیم تھے۔ مولانا دین محمد وفائی نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ ان سے انہوں نے پدنامہ عطار تک فارسی میں تعلیم حاصل کی۔ 9سال کی عمر میں مولانا، اپنے والد کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے اور ان کی پرورش کی تمام تر ذمہ داری ان کی والدہ کے کندھوں پر آن پڑی۔ نامساعد حالات کے باوجود مولانا نے حصول علم کے سلسلہ کو ترک نہیں کیا۔ فارسی کی تعلیم جاری رکھی اور اپنے ایک عزیز میاں جی محمد عالم کے گھر پر رہ کر تعلیم پوری کی۔ میاں جی محمد عالم اپنے وقت کے جید علماء میں شمار ہوتے تھے۔ بعدازاں مولانا دین محمد وفائی نے عربی کی پڑھائی کے لئے حضرت مولانا ابوالفیض غلام عمر جتوئی کی شاگردی اختیار کی جو اپنے گائوں سونو جتوئی، تحصیل لاڑکانہ میں رہتے تھے۔ لہٰذا مولانا دین محمد وفائی نے 1930ء سے 1935ء تک وہاں رہ کر پانچ سال میں عربی کی کتابیں منطق کبریٰ کے رسالے جلال اور مرزا زاہد کی تصنیفات کو پڑھ کر تحصیل علم سے فراغت حاصل کی۔ اس وقت ان کی عمر 29سال تھی۔ اس دور میں ان کی شادی سکھر میں اپنے عزیزوں میں ہوئی تاہم انہیں اس وقت ایک المناک واقعہ سے دوچار ہونا پڑا اور صرف ایک سال بعد ان کی بیوی وفات پاگئیں۔
عربی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے استاد مولانا ابوالفیض نےانہیں کراچی میں واقع سندھ مدرستہ الاسلام میںدرس و تدریس کا پیشہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ مولانا دین محمد وفائی نے اپنے استاد کے حکم کی تعمیل کی اور دو سال سندھ مدرسۃ الاسلام میں تدریسی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔
کراچی میں قیام کے دوران ان کی ملاقات مخدوم حاجی حسن اللہ پاٹائی سے ہوئی۔ ان کی صحبت میں انہیں بڑا فیض حاصل ہوا۔ اس دوران مولانا دین محمد وفائی کی علمی برتری کا چرچا سندھ بھر میں ہو چکا تھا جس سے متاثر ہو کر رانی پور کے پیر جیلانی نے انہیں اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے مدعو کیا ۔ اس طرح 1332ھ مطابق 1914ء مولانا کراچی کو چھوڑ کو پیر جیلانی کے بچوں کو تعلیم دینے کی غرض سے رانی پور منتقل ہو گئے۔ 1916ء میں کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ مولانا کو مجبوراً رانی پور چھوڑنا پڑا۔ رانی پور میں قیام کے دوران ہی ان کی دوسری شادی سکھر میں اللہ نواز منگی کی صاحب زادی سے ہوئی جن سے ان کی اولاد ہوئی۔
رانی پور چھوڑنے کے بعد مولانا ٹھلاہ شریف روانہ ہو گئے۔ جہاں پیر سید حاجی امام الدین شاہ راشدی کے بیٹوں کو دینی تعلیم دینا شروع کی۔ مولانا کا یہ زمانہ بڑی شخصیات کی صحبت میں گزرا۔ ان میں قدرت العارفین حضرت پیر سید رشد اللہ صاحب (جھنڈے وارو) کا نام گرامی قابل ذکر ہے۔ یہ دنیا بھر میں افراتفری کادور تھااور عالمی جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی لیکن سندھ کا خطہ جنگ کی براہ راست تباہی سے بچا رہا۔ البتہ سیاسی ناانصافی کے باعث جولاوا تیار ہو رہا تھا وہ اچانک پھٹ پڑا۔ اس زمانے کی سب سے معروف تحریک، تحریک خلافت تھی۔ اس تحریک کا تعلق مسلمانوں کی سیاسی آزادی سے تھا۔ تحریک کے شروع ہوتے ہی مولانا دین محمد وفائی نے ٹھلاہ شریف کو الوداع کیا اور تحریک میں شامل ہو گئے۔ انگریز سرکار نے اس تحریک کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس کے نتیجے میں انگریز وںکے ایک وظیفہ خوار، مولانا فیض الکریم نےتحریک خلافت کا زور توڑنے کے لیے ترکی کی خلافت کے خلاف، حجازکے شریف حسین کے حق میں ایک رسالہ نکلا۔اس کا انگریزی ترجمہ کرا کے اسلام دشمنوں کو بھی بھجوایاگیا۔بعض علماء اور مزارات کے سجادہ نشینوں سے سے دستخط ثبت کراکے اسے عوام میں بانٹاگیا تاکہ تحریک خلافت اور ترکی کے خلیفہ کے خلاف عوام کو بدظن کیا جا سکے۔ اس رسالے کی اشاعت سے سندھ میں تحریک خلافت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا جسے مولانا دین محمد وفائی نے فوری محسوس کیا اور مولانا شیخ عبدالعزیز ما،لک اخبار’’الحق‘‘ سکھر کے ساتھ مل کر رسالے کے خلاف سخت مہم چلائی۔ اس وقت امروٹ شریف میں حضرت مولانا سید تاج محمود شاہ امروٹی کی زیر نگرانی تحقیقالخلاف کے جواب میں ’’اظہار کرامت‘‘ نامی رسالہ نکالا جو 1920ء میں لاڑکانہ کی خلافت کانفرنس کے موقع پر تقسیم کیا گیا۔ اس کانفرنس میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عبدالباری، مرحوم لکھنوی اور مولانا شرکت علی بھی شریک ہوئے۔ اس دور میں مولانا دین محمد وفائی کو جمعیت علمائے اسلام سندھ کا ناظم مقرر کیا گیا جس کے بعد انہو ں نے کراچی میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ کراچی میں رہائش کا دور مولانا دین محمد وفائی کی زندگی میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر سندھی صحافت اسی دور میں وجود میں آئی۔ اس وقت نہ تو قابل ذکر اخبارات اور اعلیٰ معیار کے جرائد موجود تھے اور نہ ہی سندھ کے لوگوں کو صحافت سے زیادہ دلچسپی تھی۔ اس دور میں مولانا دین محمد وفائی نے سندھی صحافت کو فروغ دینے کا بیڑا اٹھایا۔ ویسے تو زمانہ طالب علمی سے ہی انہیں صحافت سے دلچسپی تھی۔ لیکن اسے علمی شکل میں ڈھالنے کا سہرا بقول مولانا دین محمد وفائی، مولوی عبداللہ میر پوری (جھنڈائی) کے سر جاتاہے۔ دوسری طرف شیخ عبدالعزیز محمد سلیمان مالک اخبار الحق سکھر کی ہمت افزائی نے مولانا دین محمد وفائی کو تحریر و تصنیف کا عمل جاری رکھنے پر آمادہ کیا۔ انہوں نے رانی پور میں قیام کے زمانے میں قادیانیوں کے خلاف صحیفہ قادریہ کے نام سے جاری کیا اور ٹھلاہ شریف میں رہائش کے دوران پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی کی سرپرستی میں ماہنامہ الکاشف نکالا۔ ان دونوں رسالوں میں مولانا نے پوری دلچسپی اور تندہی سے کام کیا۔ مارچ 1920ء میں کراچی سے روزنامہ الوحید کا اجراء ہوا۔ ابتدائی طور پر مولانا دین محمد وفائی کو معاون مدیر مقرر کیا گیا۔
1923ء میں مولانا نے اپنی زیر ادارت ماہنامہ توحید نکالا۔ مولانا بیک وقت الوحید کے لئے مراسلے بھی بھیجتے، دوسری جانب توحید کے لئے بھی کام کرتےتھے۔ وہ علمی ادبی مباحث اور تاریخی مضامین بھی لکھتے۔ اسی دوران عالموں، بزرگوں کے ساتھ نشستوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا جن کے ساتھ دینی، ادبی اور سیاسی موضوعات زیر بحث آتے۔
1936ء میں سندھ ،ممبئی ریذیڈنسی سے الگ ہو گیا اور اسے صوبے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس موقع الوحید کا خاص نمبر شائع ہوا جس میں سندھ کی تاریخی تہذیبی، علمی و ادبی موضوعات پر بہترین مضامین و مقالات شامل کئے گئے تھے۔ سندھ کی صحافت میں الوحید کے سندھ آزادی نمبر کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسی دوران انہیںسندھ سنجوگی شیخ میں تبلیغ کی غرض سے ایک سال کراچی سے باہر رہنا پڑا جس کے باعث رسالہ توحید کی اشاعت بند ہو گئی۔ 1927ء میں مولانا دین محمد وفائی نے پیر سید حزب اللہ شاہ راشدی عرف جیل شاہ شہید کی سرپرستی میں سکھر سے ہفت روزہ الحزب جاری کیا لیکن و ہ جلد ہی بند ہوگیا۔مولانا دین محمد وفائی کو الوحید اخبار میں کام کرنے کیلئے دوبارہ کراچی بلایا گیا اور انہوں نے 1933ء میں الوحید نئے سرے سے جاری کیا۔ جس کی اشاعت ان کی زندگی کے آخر تک جاری رہی۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں علی نواز وفائی نے تین سال تک رسالے کی اشاعت جاری رکھی۔
1939ء میں جب مولانا عبیداللہ سندھی نے سندھ واپس آکر عبدالٰہی تحریک شروع کی تو مولانا دین محمد وفائی اس کے سرگرم کارکن تھے۔ تحریک سے والہانہ محبت کے باعث 1943ء میں الوحید سے 23سالہ رفاقت بھی ختم ہوگئی۔ بعدازاں وہ اللہ بخش سومرو کے روزنامہ آزاد کی ادارتی ٹیم میں شریک رہے۔ مولانا دین محمد وفائی نے متعدد مذہبی، علمی اور ادبی کتابیں تصنیف کیں جن میں تاریخ محمد مصطفیٰ‘ ، صدیق اکبر، فاروق اعظم، سیرت عثمان، حیدر کرار، خاتون جنت، غوث اعظم، نو مسلم ہندرانی، راحت روح، تذکرہ مخدوم نوح ہالائی، توحید اسلام (ترجمہ تقویت ایمان)
ال ختم علی فہم الخصیم(ردقادیانی)، لاجواب تحریر، قرآنی صداقت، ہندو دھرم اور قربانی (ردآریہ و ہنود)، الہام باری(ترجمہ تجدید صحیح بخاری) 5 جلد فتح الغیب (تصوف نامکمل)، تذکرہ مشاہیر سندھ، الکرامت (فی مسئلہ خلافت و امامت اسلامی سیاست) ازکار حسین قابل ذکر ہیں۔
بیشتر کتابیں شائع ہو چکی ہیں جبکہ بقیہ مسودے کی صورت میں موجود ہیں مولانا دین محمد وفائی کی سب سے اہم تصنیف تذکرہ مشاہیر سندھ ہے جس میں سندھ کی ممتاز شخصیات کی زندگی کا احوال جمع کیا گیا ہے۔ یہ مسودے کی صورت میں 1944ء میں چوری ہو گئی تھی۔ جس کا مولانا کو سخت صدمہ پہنچا۔ انہوں نے 1945ء میں اسے نئے سرے سے لکھنا شروع کیا اور 1949ء میں مکمل کر لیا۔ اس میں اوائل اسلام سےلے کر سندھ کے 150صوفیائے کرام، بزرگوں، عالموں، شاعروں کا احوال جمع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 30 سے زائد سندھی بزرگوں کے حالات مختصر انداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں بے شمار تحقیقی علمی اور متفرق مقالے علیحدہ ہیں جو ماہنامہ الوحید کے 20سالوں کے پرچوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مولانا فارسی و عربی کی جید عالمی اور سندھی زبان کے ماہر تھے۔ ان کی سندھی تحریر بھی ایسی ہیں جن سے پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب یکساں استفادہ کر سکتے ہیں۔
مولانا دین محمد وفائی نثر نویسی کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی اچھا مذاق رکھتے تھے۔ ان کے تخلص وفائی تھا اور ابتدائی دنوں میں شاعری بھی کی۔ پہلا شعر کراچی میںکہا اور سندھ کے رسالہ الاسلام میں شائع ہوا۔ امداد یتیمیہ کے عنوان سے نظم شائع ہوئی۔ اخباری و قومی معروضیات کے باعث شاعری کا سلسلہ بہت دیر تک نہ رہ سکا جو کچھ شاعری کی، اس میں قومی رنگ موجود ہے۔ رسالہ توحید میں مولانا دین محمد وفائی کے تاریخی قطعات موجودہیں جو انہوں نے اپنے دوستوں اور عزیزوں کی وفات پر کہے تھے۔ ان کی آخری تصنیف لطف لطیف شاہ جو رسالوکا مطالعہ ہے جو مولانا دین محمد وفائی نے اپنی وفات سے قبل تین مہینوں میں 1949ء میں مکمل کی۔ ان کی زندگی میں چھپائی شروع ہو گئی تھی اور اشاعت کے دوران ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ 1942ء میں حکومت سندھ نے سندھی ادب کی ترقی کیلئے ایک سندھی ادبی بورڈ قائم کیا۔ سندھی لغت کی تیاری کیلئے 6؍افراد پر مشتمل لغت کمیٹی قائم کی گئی۔ مولانا دین محمد وفائی اس کمیٹی میں شامل تھے۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت سندھ نے 1949ء میں نصاب تیار کرنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس میں مولانا دین محمد وفائی کو شامل کیا گیا۔
25؍جمادی الآخر 1369ء ہجری، بہ مطابق 10 اپریل 1950ء بدھکی شب ،مولانا دین محمد وفائی اس دار فانی سےرخصت ہوئے۔