• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ملک خاص کر سندھ میں کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کا کاروبارزور و شور سے جاری ہے ۔ لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ حکومت، پولیس اورمحکمہ خوراک نے اس کاروبار کی جانب سے قطعی طور سے چشم پوشی اختیارکرکے ملاوٹ مافیا کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ سندھ میں کھانے پینے کی اشیاء کا معیار پرکھنے کے لیے کوئی بھی ادارہ فعال نہیں ہے حالانکہ محکمہ صحت او خوراک کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جدید آلات کے ذریعے اشیائے خورونوش کی جانچ کریں لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے، بلکہ جان بچانے والی ادویات بھی جعلی فروخت کی جارہی ہیں۔ سندھ فوڈکنٹرول اتھارٹی کا ادارہ موجود ہے جس میں وسیع و عریض عملہ بھی موجود ہے ، جن کی تنخواہوں کی مد میں کروڑوں روپے ماہانہ مختص کیے جاتے ہیں لیکن اس کی کارکردگی کسی بھی جگہ نظر نہیں آتی۔ اس ادارے کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے سندھ بھر میں پرچون و ہول سیل مارکیٹوں میں ملاوٹ شدہ اشیاء کی بھرمار ہے ، جن کے استعمال سے لوگ موذی امراض میں مبتلا ہوکر موت کے منہ میں جارہے ہیں۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کوئی بھی شے اپنی اصل حالت میں دستیاب نہیں ہوتی ۔ دودھ جیسی شے جو کہ بچوں کی نشونما اور بڑھوتری، جب کہ بڑوں کو صحت مند رکھنے کے لیے بنیادی غذا ہے، اسے بھی ہوس کے پجاریوں نے خالص نہیں رہنے دیا۔ پہلے تو دودھ میں صرف پانی ملایا جاتا تھالیکن اب اس کی مقدار میں اضافے اورگاڑھا کرنے کے لئے پانی کے ساتھ ساتھ مضرِ صحت اشیاء سمیت انسانوں کی صحت کے لیے نقصان کا سبب بننے والے کیمیاوی مادے شامل کئے جارہے ہیں۔

غذائی ماہرین کے مطابق گائے اور بھینس کے دودھ میںڈیٹرجنٹ پاؤڈر کی آمیزش کرکے فروخت کیا جارہا ہے لیکن یہ زہریلے مادے ملا ہوا دودھ، فوڈ پوائزننگ اور معدےکے پے چیدہ امراض کا سبب بن سکتا ہے، جبکہ دیگر کیمیاوی مرکبات، عارضہ قلب، سرطان، یرقان، پیٹ کے امراض اور دیگرجان لیوہ امراض کا باعث بن رہے ہیں۔ دودھ کی مقدار بڑھانے کے لیے گوالے اور ڈیری فارمرز، گائے، بھینسوں کو مخصوص قسم کا انجکشن لگاکر اس کی مقدار کو دوگنا کردیتے ہیں۔ اس انجکشن سے دودھ کی مقدار تو بڑھ جاتی ہے لیکن اس کے استعمال سے انسانی جانوں پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے کئی بار اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے لیکن فوڈ انسپکٹرز اور دیگرذمہ دار اداروں اور افراد کی چشم پوشی کی وجہ سے مارکیٹ میں اس کی فروخت بند نہیں ہوسکی ہے۔ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، مضر صحت غذائیں استعمال کرنے سے اب تک بے شمار ہلاکتیں ہوچکی ہیں لیکن محکمہ صحت اور متعلقہ اداروں کی طرف سے اس کے خلاف کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا۔خوردنی اشیاء میں شاید ہی کوئی چیز ملاوٹ سے پاک ہو۔ کھانے پینے کی چیزوں میں ملا وٹ ایک گھنائونا کا روبار بن چکا ہے۔ دودھ ،گھی ،دہی میں کیمیکل ملا کر فروخت کیا جا رہا ہے۔ سبزی اور پھلوںکی پیداوار کے لئے کیمیکل ملی کھاد کا استعمال کیا جا رہا ہےجب کہ محکمہ خوراک و دیگر اداروں نے اس گھناؤنے کاروبار کی جانب سے چشم پو شی اختیار کی ہوئی ہے۔ زیا دہ منافع کمانےکے لالچ نے انسان کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرادیا ہے۔اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کے خاتمے کے لیے چند سال قبل سندھ اسمبلی نے فوڈ اتھارٹی بل بھی منظور کیا تھا لیکن سندھ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی نااہلی کی وجہ سے اس کی کسی بھی شق پر عمل نہیں کیا گیا ، جس کی وجہ سے یہ کاروبار بغیر کسی روک ٹوک کے آزادانہ طور سےجاری ہے۔ حکومت کو اس حساس مسئلے پر فوری توجہ مبذول کرکے ملاوٹ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہئے۔

تازہ ترین
تازہ ترین