قیدیوں کی منتقلی سے قبل ہی مخدو ش ہونے لگی
نواب شاہ شہر میں چودہ ایکڑ رقبہ پر قائم ڈسٹرکٹ جیل میں گنجائش کی کمی اور قیدیوں کو سہولتوں کی فراہمی کے لئے حکومت سندھ کے محکمہ جیل خانہ جات کی جانب سے شہر سے باہر جیل کی منتقلی اور موجودہ جیل کے پلاٹ پر چڑیا گھر، لیڈیز پارک اور دیگر تفریحی پارکس بنانے کے لیے 50کروڑ روپے کی لاگت سے اڑسٹھ موری روڈ پر جیل کی عمارت آخری مراحل میںآکر ادھوری چھوڑ دی گئی ہے۔اس جیل میں ایک ہزار سے زائد قیدیوں کے لئے بیرکس اور عملے کے لئے رہائشی کوارٹرز ، مسجد، پارکس اور ملاقاتیوں کے لئے جیل مینوئل کے مطابق سہولتیں فراہم کی گئی ہیں ۔جیل کی اس عمارت میں نہ صرف نواب شاہ بلکہ دادو، نوشہرو فیروز، سانگھڑ اضلاع کے قیدیوں کو بھی رکھنے کے لئے گنجائش موجود ہے۔ اب جب کہ نواب شاہ کو ڈویژن کا درجہ دے کر بینظیر آباد ڈویژن کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں سانگھڑ اور نوشہروفیروز کے اضلاع شامل ہیں۔نواب شاہ ڈویژن کے قیدیوں کو بھی جنہیں سینٹرل جیل سکھر اور سینٹرل جیل حیدرآبادبھیجا جاتا ہے، ایک تو نواب شاہ میں رکھنے سے عدالتوں میں بروقت اور کم خرچ سے آمدو رفت ممکن ہوسکے گی جب کہ دوسری جانب ہائی سکیورٹی رسک قیدیوں کو جنہیں ماتحت عدالتوں میں لانے، لے جانے کے لئے بھاری پولیس نفری کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض اوقات انہیں جیل سے نکالنا رسک بن جاتا ہے اس درد سری سے نجات ملے گی۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ دیگر سرکاری منصوبوں کی طرح ڈسڑکٹ جیل کی عمارت کی تکمیل بھی شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوگئی ہے۔
محکمہ جیل کے باوثوق ذرائع کے مطابق ، جیل کی عمارت کے ابھی تک نامکمل ہونےکے سلسلے میں اندرونی صورت حال یہ ہے کہ اس مجوزہ جیل کی تعمیر کے لئے پلاٹ کی خریداری کے لیےکمیشن، کک بیکس، اقرباء پروری اور من پسند افراد کو نوازنے کی پالیسی کواپنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ سیم زدہ زمین جہاں زیر زمین پانی کھاراہے، پر جیل کی وسیع و عریض بلڈنگ تعمیر کردی گئی ہے۔ تاہم اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مذکورہ جیل کی عمارت محکمہ جیل خانہ جات کے حوالے بھی نہیں کی گئی اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچنے میں وقت لگے گا، لیکن اس کی دیواریں مخدوش ہونا شروع ہوگئی ہیں۔سیم و تھور کی وجہ سے کروڑوں روپے کی لاگت سے بنائی گئی عمارت اس بری طرح متاثر ہورہی ہے کہ اس میں جگہ جگہ دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب جیل کی عمارت سے ملحقہ ،افسران اور عملے کے لئے بنائی جانے والی کالونی کے بنگلوں اور کوارٹروں کا پلاستر اکھڑنے لگا ہے۔ اس طرح کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والی جیل کی عمارت استعمال سے قبل ہی مخدوش ہوگئی ہے ۔ محکمہ جیل خانہ جات اور سندھ حکومت کی غفلت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس وسیع و عریض عمارت کی تعمیر کی منصوبہ بندی کرتے وقت اس میں قیدیوں اور جیل اہل کاروں کی رہائشی کالونی کی آبی ضرورت پوری کرنے کے لیے واٹر سپلائی کی اسکیم شامل نہیں کی گئی۔ اس بات کا انکشاف وزیر جیل خانہ جات،سید ناصر حسین شاہ کی جیل آمد کے موقع پر ہوا۔ ذرائع کے مطابق وزیر جیل خانہ جات نے جیل کی نئی عمارت کے دورے کے موقع پر جیل حکام کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ۔ تاہم اب نہ تو جیل کی اس عمارت کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی زیر زمین کھارا پانی ، میٹھا کرنے کے لیے کوئی پلانٹ نصب ہوسکتا ہے۔
ملک میں تخریب کار و دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کے باعث ضرورت اس بات کی ہے کہ نواب شاہ شہر میں قائم ڈسڑکٹ جیل کے قیدیوں کو ہنگامی بنیادوں پر جیل کی نئی عمارت کو مکمل کرکے وہاں منتقل کیا جائےکیونکہ ڈسڑکٹ جیل میں دو سو سے زائد قیدیوں کی گنجائش نہ ہونے کے باعث نواب شاہ سے قتل اور دہشت گردی سمیت دیگر سنگین مقدمات کے قیدیوں کو سینٹرل جیل حیدرآبادبھیجا جاتا ہے جہاں سے انہیں جوڈیشل کمپلیکس نواب شاہ میں قائم ڈسڑکٹ کورٹس، انسداد دہشت گردی کورٹ سمیت دیگر عدالتوںمیں لانے کے لئے قومی خزانہ کی بھاری رقومات، گاڑیو ںکے فیول اور عملے کی نذر ہوجاتی ہیں اور اگر نو تعمیر شدہ جیل کو مکمل کرکے فعال کردیا جائے تو محکمہ جیل خانہ جات کے کروڑوں روپے کے مصارف میں کمی واقع ہونے کے علاوہ قیدیوں کے رشتہ داروں کو بھی سفر خرچ اور وقت کے اسراف سے بچایا جا سکتاہے جو کہ وہ نواب شاہ ،سانگھڑ وغیرہ سے حیدرآباد سینٹرل جیل جانے میں صرف کرتے ہیں ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پانچ لاکھ کی آبادی کے شہر نواب شاہ کے باسیوں کے ڈسڑکٹ جیل کی منتقلی کے بعد چودہ ایکٹر رقبہ پر حیدرآباد کے رانی باغ کی طرز پر پارک اور چڑیا گھر اور دیگر تفریحی سرگرمیاں مہیا کردی جائیں تو یہ موجودہ حکومت کا ایک یادگار تحفہ ہوگا جو کہ وہ بے نظیرڈویژن کے عوام کو دے گی۔