• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مجھے یہ سوچ کر ہی ہنسی آرہی ہے کہ آج میری 70ویں سالگرہ ہے یعنی میں چودھری شجاعت حسین سے بھی دو سال بڑا ہوں۔ زندگی کے یہ ستر سال کیسے گزرے، چونکہ پلک جھپکتے ہی گزر گئے، لہٰذا کچھ کہہ نہیں سکتا کہ کیسے گزرے؟ میں نے جنم امرتسر بلکہ ”امبرسر“میں لیا، بچپن وزیرآباد میں گزرا، جوانی اور باقی ساری عمر لاہور میں بسرہوئی اور یہ سلسلہ ”جاری“ ہے۔ میں مولانا بہاء الحق قاسمی کا بیٹا اور مفتی غلام مصطفےٰ قاسمی کا پوتا ہوں۔ میرے تین بیٹے ہیں، یاسر، عمر اور علی ا ن تینوں کے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ کے لئے مجھے کسی سفارش کا سہارا نہیں لینا پڑا۔ انہیں داخلہ اپنے میرٹ پر ملا، مجھے ان کی ملازمتوں کے لئے بھی کسی کا بارِ احسان نہیں اٹھانا پڑا، پہلے دو سی ایس پی ہیں اور تیسرا لمز میں تاریخ پڑھاتا ہے۔ میری اہلیہ نے ان کی تعلیم اور میں نے حتی المقدور ان کی تربیت میں دلچسپی لی۔ میری اہلیہ کا تعلق بھی امرتسر کے کشمیری خاندان سے ہے، ہماری شادی ہمارے والدین نے طے کی تھی اور ہم گزشتہ برس شادی کی 41ویں سالگرہ منا چکے ہیں، میری چھ بہنوں میں سے پانچ اور ہم دو بھائیوں میں سے ایک یعنی میں بقید حیات ہوں، برادر بزرگ ضیاء الحق قاسمی چند برس قبل ہم سے جدا ہو چکے ہیں!مجھے علم نہیں، میں کیا بننا چاہتا تھا کیا بن گیا ہوں اور کیا نہیں بن سکا البتہ میں نے سیاحت بہت کی۔ ملکوں کی بھی اور مختلف شعبوں کی بھی! تعلیم، صحافت، ادب، سفارت، شوبزنس، ان سب کوچوں کی خاک چھانی۔ میری زندگی کابڑا حصہ لکھنے پڑھنے بلکہ لکھنے ہی میں گزرا، میری کالم نگاری کی عمر 52سال ہے ۔ 1959ء میں ہفت روزہ ”شہاب“ سے شروع ہوا تھا اور روزنامہ ”جنگ“ تک پہنچا ہوں، درمیان میں صرف ایک پڑاؤ روزنامہ ”نوائے وقت“ کا تھا جس کا دورانیہ 35برس تھا، اصولوں کے ساتھ وفاداری میری زندگی کا اصل سرمایہ ہے ۔افراد اور اداروں سے میری دوستی بھی اسی حوالے سے ہے۔بس کبھی کبھی درمیان میں انا ”پھڈا“ ڈال دیتی ہے۔ میں کسی بھی قسم کی آمریت کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ یہ چیز میرے خون میں ہے۔ میں میٹرک میں پڑھتا تھا جب اس وقت کے ایک مقبول روزنامہ ”ہلال پاکستان“ میں میرا ایک مراسلہ جنرل سکندر مرزا کے خلاف شائع ہوا۔ ایوب خان کے دور میں، میں کالج کا طالب علم تھا، اس دور آمریت کے خلاف منعقد ہونے والے جلسوں اور جلوسوں میں بھرپور شرکت کی اور پولیس کی لاٹھیاں کھائیں، ہفت روزہ ”شہاب“ میں ایک نظم لکھی اور رات گئے پولیس نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا اور مجھے گرفتار کرکے لے گئی۔ ایوب خان کے ایک وزیر مسعود صادق(مرحوم) نے ماڈل ٹاؤن کے ایک گھر کے وسیع لان میں منعقد ہونے والے جلسے میں مادر ملت کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کئے تو میں نے نعرے بازی شروع کر دی جس پر ایک مقامی بدمعاش میرے پاس آیا اور میرے کان میں مجھے ایک گندی گالی دی اور فوری طور پر وہاں سے نکل جانے کے لئے کہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور آیا تو اپوزیشن کے خلاف ہونے والی بہیمانہ کاروائیوں کے خلاف میں نے ”نوائے وقت“ میں بھرپور کالم لکھے، جب بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفےٰ کے نام سے تحریک چلی تو میں اس میں پیش پیش تھا جس کا آج مجھے افسوس ہے کیونکہ یہ تحریک سی آئی اے سپانسپرڈ تھی اور اس کا مقصد بھٹو کو اس کی برائیوں نہیں بلکہ ان اچھائیوں پر سزا دینا مقصود تھی جو ایٹمی پروگرام اور صحیح معنوں میں ایک اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد اور بعض دوسرے اقدامات کی صورت میں سامنے آئی تھی، مجھے ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود کی طرف سے بابا وقار انبالوی کی معرفت ایک پیغام ملا جس کے ایگزیکٹ الفاظ یہ تھے ”تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے؟“ بھٹو کے ساتھ ہماری عدلیہ کا جنازہ اٹھا تو جنرل ضیاء الحق تشریف لائے، ان کی آمد پر میرا کالم ”کچا پنکچر“ اور پھر پے در پے جارحانہ کالم شائع ہوئے جس پر سرکاری نوکری (میں اس وقت لیکچرر تھا) کے قواعد کی خلاف ورزی کے حوالے سے مجھے چارج شیٹ کیا گیا… اور آخر میں جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور آمریت میں، میں نے جو کچھ لکھا، وہ سب آپ کے سامنے ہے، میں تھائی لینڈ کی سفارت چھوڑ کر(حالانکہ مجھے یہ سلسلہ جاری رکھنے کا اشارہ ملا تھا) واپس پاکستان آگیا اور میں نے آتے ہی پرویز مشرف کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کالموں کا مورچہ لگا لیا۔ مجھے ایک دوست نے ایک جنرل کے یہ الفاظ سنائے جو اس نے میرے حوالے سے کہے تھے ”یہ شخص پہلے صرف بھونکتا تھا، اب کاٹنے بھی لگا ہے“!
میں نے بہت خوبصورت زندگی گزاری ہے، زندگی کے تمام سرد و گرم کا مزا چکھا ہے ایک طویل عرصے تک سفید پوشی کی زندگی بسر کی اور زندگی کا یہی حصہ میں نے سب سے زیادہ انجوائے کیا، دولت مجھے کبھی اپنی طرف ”اٹریکٹ، نہیں کرسکی، میں 1970ء میں ہزاروں ڈالر کی نوکری، ایئرکنڈیشنڈ اپارٹمنٹ، عالیشان کار اور دیگر ”لوازمات“ چھوڑ کر واپس پاکستان آگیا اور دوبارہ نوائے وقت 323روپے ماہوار پر جائن کرلیا۔ زندگی میں ایسے متعدد مقامات آئے جب کروڑوں روپے میرے پاؤں پڑنے کو تیار تھے اور مجھے انہیں ٹھوکر مارنے میں خود سے رتی بھر بھی مزاحمت نہیں کرنا پڑی، میرا نام آج تک کسی ایسی فہرست میں شامل نہیں جن کے قلم خریدے گئے، یہ فہرستیں گاہے گاہے اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں… میں جو کچھ لکھتا ہوں، اپنی مرضی سے لکھتا ہوں، کوئی مائی کا لال آج تک مجھے ڈکٹیٹ نہیں کرا سکا۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی نعمت عطا کی ہے اور وہ قناعت ہے اور ہرحال میں خوش رہتا ہوں، میں مزدوروں کے ساتھ ماسی برکتے کے تندور پر بیٹھ کر کھانا کھاؤں، یا کسی ملک کے صدر، وزیراعظم یا بادشاہ کے ساتھ کھانے کی میز پر ہوں، مجھے کھانے کا مزا صرف کھانے کے لذیذ ہونے کے حوالے سے آتا ہے۔ مجھے خوبصورت لوگ اچھے لگتے ہیں لیکن اگر ان کی اندرونی بدصورتی سامنے آجائے تو اس کا عکس مجھے ان کے خدوخال میں بھی نظر آنے لگتا ہے۔ میری زندگی میں محرومیاں بھی ہیں، مگر یہ بھی اسی خدا کی طرف سے ہیں جس نے میرے دامن میں بہت سی خوشیاں بھر دی ہیں… میں یہ دیکھتا ہوں مجھے کیا کچھ ملا ہے، یہ نہیں کہ کیا نہیں ملا۔ جو لوگ خوش رہنا چاہتے ہیں وہ اس فارمولے پر عمل کر سکتے ہیں۔ مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ لوگوں کا پیٹ کیوں نہیں بھرتا وہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی مال حرام کی گندگی پر مکھیوں کی طرح کیوں بھنبھناتے نظر آتے ہیں، کیا اچھی بیوی، اچھی اولاد، اچھی صحت اور زندگی گزارنے کے مناسب سے ذرائع ایک انسان کو خوش رکھنے کے لئے کافی نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ اپنے اردگرد کی غربت اور جانوروں کی سطح پر زندگی گزارنے والے عوام کی طرف نہیں دیکھ سکتے، یہ اگر ان کی حالت سنوارنے کے لئے اپنے شب و روز کا ایک حصہ وقف کر دیں تو انہیں مال و زر سے کروڑ گنا خوشی اور سکون حاصل ہوسکتا ہے کبھی یہ کام کرکے تو دیکھیں۔
میرے نظریات بہت عجیب و غریب ہیں، میں رائٹسٹ بھی ہوں، لیفٹسٹ بھی ہوں چنانچہ رائٹسٹ مجھے رائٹسٹ اور لیفٹسٹ مجھے لیفٹسٹ نہیں مانتے جس پر میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان دونوں طبقوں کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد جان چکا ہوں کہ درویشی اور سلطانی دونوں عیاری ہیں، بقول منیر نیازی ہمارے ہاں کا دایاں بازو اور بایاں بازو دونوں صبح ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر تلاش زر میں گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو دوبارہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر، ا یک دوسرے سے جپھی ڈال کر سو جاتے ہیں۔ تاہم ان دونوں طبقوں میں بہت سے صاحب کردار لوگ بھی موجود ہیں اور میرا ان کے ساتھ ارادت کا رشتہ قائم ہے۔ دراصل میرا مسئلہ پاکستان اور اس کے عوام ہیں جو ان کا دوست ہے، وہ میرا دوست ہے، جو ان کا دشمن ہے وہ میرا دشمن ہے۔ قائداعظم ایسا لبرل رہنما میرا لیڈر ہے اور انقلابی اقبال میرا شاعر ہے۔ میرے نظریات وہی ہیں جو ان دونوں فقید المثال شخصیتوں کے ہیں مجھے ان سے عشق ہے اور میں اپنی بقیہ زندگی بھی انہی کے پاؤں میں بسر کرنا چاہتا ہوں!… میرے اندر بہت سی خرابیاں بھی ہیں لیکن اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں ان کا ذکر کروں گاتو آپ بھول جائیں۔ میرا ایک دوست کہا کرتا ہے کہ وہ بے وقوف ہے، پاگل نہیں ہے اپنی خرابیوں کے حوالے سے میرا جواب بھی تقریباً یہی ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین