لندن : ہیلن واریل
بورس جانسن ، جن کےآئندہ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما بننے کا امکان اور وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں،نے کہا کہ اگر وہ منتخب ہوگئے تو وہ حکومت کے آزادامیگریشن کے مشیروں سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ جائزہ لیں کہ آسٹریلوی طرز کے نظام کو برطانیہ میں کیسے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔
بورس جانسن کی آسٹریلوی پوائنٹس کی بنیاد پر امیگریشن نظام کیلئے تجاویز پر برطانوی کاروباری شخصیات کا ردعمل تشویش اور الجھن سے بھرپور ہے، ان تجاویز کے بارے میں بورس جانسن نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مزید باصلاحیت افراد کو ملک میں آنے کی اجازت جبکہ کم صلاحیتوں کے حامل افراد کے داخلے کو روکیں گی۔
بورس جانسن ، جن کےآئندہ کنزرویٹو پارٹی کے رہنما بننے کا امکان اور وزیراعظم کے عہدے کے امیدوار ہیں،نے کہا کہ اگر وہ منتخب ہوگئے تو وہ حکومت کے آزادامیگریشن کے مشیروں سے یہ درخواست کریں گے کہ وہ جائزہ لیں کہ آسٹریلوی طرز کے نظام کو برطانیہ میں کیسے متعارف کرایا جاسکتا ہے۔یہ آئیڈیا پہلے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کی مہم کا اہم حصہ اور بریگژٹ پارٹی کے بانی نیگل فراگ کی پسندیدہ پالیسی تھا۔
بورس جانسن نے کہا کہ ہمیں سائنسدانوں جیسے اعلیٰ معیار کے باصلاحیت تارکین وطن کیلئے مزید آزاد ہونا ہوگا،تاہم ہمیں اپنے عوام کو بھی لازمی یہ یقین دہانی کرانا ہوگی کہ جیسا کہ ہم یورپی یونین سے نکل رہے ہیں تو ہمیںغیرہنرمند تارکین وطن کی بڑی تعداد کا ملک میں داخلہ بھی لازمی کنٹرول کرنا ہوگا۔ہماری میزبانی کا غلط استعمال کرنے والوںکیلئے ہمیں یقینا سخت رویہ اپنانا ہوگا۔ آسٹریلیا اور اس جیسے دیگر ممالک کے پاس بہترین نظام ہے اور ہمیں ان سے سیکھنا چاہیے۔
تاہم لابی لندن فرسٹ کی سربراہ جاسمین وائٹ بریڈ نے کہا کہ پوائنٹ کی بنیاد پر نظام بیوروکریٹک ڈراؤنا خواب ہوگا اور ملک کو معیشت کی ترقی کیلئے ضروری صلاحیتیں فراہم نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ غیرملکی ملازمین کے لیے تنخواہ کی نئی حد، لندن کی زندگی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، یہ باصلاحیت افراد کی کاروبارتک رسائی ،غیر ضروری بھرتیوں سے بچنے اور کارکنوں کو مناسب معاضے کی ادائیگی کو یقینی بنائے گی۔
انسٹیٹیوٹ آف ڈائریکٹرز کے عبوری ڈائریکٹر جنرل ایڈون مورگن نے کہا کہ یہ ہمیشہ سے ایک اچھا آئیڈیا رہا ہے کہ یہ دیکھیں کہ دوسرے ممالک میں کیا کام ہورہا ہے، برطانیہ پہلے ہی اپنے امیگریشن نظام کو دوبارہ مرتب کرنے کے وسط میں ہے۔انہوں نے کہا کہ کاروباری ادارے یہ یقین دہانی چاہیں گے کہ ہم دوبارہ نقطہ آغاز سے تو شروع نہیں کررہے ۔
اس وقت برطانیہ میں غیر یورپی یونین تارکین وطن کیلئے پوائنٹس پر مبنی امیگریشن نظام ہے، لہذٰا یہ واضح نہیں کہ آسٹریلوی حکومت کی نقل نمایاں طور پرکیسے مختلف ہوگی جبکہ ایسا ہی ایک نظام پہلے ہی سے موجود ہے۔
آکسفورڈ کے امیگریشن آبزرویٹری کی ڈائریکٹر ماڈیلین سمپشن نے کہا کہ آسٹریلوی پوائنٹس پر مبنی نظام کی شرائط پر برطانیہ بھر میں پہلے ہی کافی بحث ہوچکی ہے،لیکن یہ کبھی واضح نہیں ہوا کہ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں اس کے کیا فوائد سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غیر یورپی یونین ملازمین کیلئے برطانوی امیگریشن قوانین کے کچھ پہلو پہلے ہی آسٹریلیا میں موجود نظام سے مماثل ہیں ، جیسے بطور آجر ہنرمند ملازمتوں کیلئے غیرملکی کارکنوں کو ملک میں بلانے کیلئے اسپانسر کرنے کے قابل ہونا ہے۔ تاہم دیگر مختلف ہیں کیونکہ آسٹریلیا کا امیگریشن نظام زیادہ آسانی سے شہریت دیتا ہے،کچھ تارکین وطن کو مستقل شہریت کیلئے تیز ترین راستہ فراہم کرتا ہے اور بین الاقوامی طلباء جو کام کرنے کیلئے رہائش چاہتے ہیں،ان کے لیے زیادہ آزادہے۔
ماڈیلین سپشن نے کہا کہ ایمانداری سے کہوں تو ہم ایک ایسا آسٹریلوی طرز کا نظام چاہتے ہیں جو نہ زیادہ تنگ نظر ہو اور نہ ہی اس میں اس کی طرح بہت زیادہ آپشنز ہوں۔
بورس جانسن نے آسٹریلوی نظام کو موجودہ برطانوی ویزہ نظام کے مقابلے میں آسان سمجھتے ہوئے حمایت کی ہےکیونکہ یہ واضح معیار جیسے عمر،قابلیت اور انگریزی زبان بولنے کی صلاحیت پر مبنی ہے۔
پالیسی کی پس پردہ متحرک قوتوں میں سے ایک یہ ہے کہ امیگریشن قوانین کا واضح تعین کریں جو پیچیدہ تر بنتے جارہے ہیں اور انہیں سمجھنا مشکل ہے۔
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جولیا گلارڈ کے سابق پالیسی ڈائریکٹر ریان بیچلر نے 2015 میں ٹیلی گراف کیلئے ایک مضمون میں لکھا کہ ان کا خیال تھا کہ برطانوی سیاستدانوں کے اندر آسٹریلوی نظام کیلئے پایا جانے والا جوش وجذبہ محض سخت کوڈ یا یورپین کیلئے زیادہ معاون نہ ہونے کی وجہ سے ہے، جس نے ہم آسٹریلوی شہریوں کے ساتھ زیادہ انصاف نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کا امیگریشن نظام استحصال سے پاک نہیں تھا اور کم تعلیم یافتہ یا غیرہنرمند ملازمتوں کیلئے ملک اب بھی عارضی طور پر مقیم غیرملکی کارکنوں پر انحصار کررہا ہے۔انہوں نے لکھا کہ ’’لہذٰا پوائنٹس کا نظام مفید ہوسکتا ہے لیکن یہ صرف کہانی کاایک حصہ ہے اور اس کی اپنی خامیاں ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اگر بہتر اور موزوں قانون سازی ہوتی تو ممکن تھا کہ پوائنٹس ٹیسٹ کو ہتانے سے کامیاب ہنرمند مائیگریشن ویزا پروگرام میسر ہوتا۔