اسلام آباد (رپورٹ : رانا مسعود حسین )عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت اسلام آباد کےسابق جج ارشد ملک کے حوالے سے لیک کی گئی ویڈیو کی اصلیت کو سامنے لانے کے حوالے سے دائر کی گئی تین مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں اس معاملہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق تجاویز پیش کرنیکی ہدایت کی ہے جبکہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ غیرمعمولی کیس ہے،کوئی شک نہیں اس معاملے میں غیر معمولی باتیں ہیں، جج کے بیان حلفی کی تحقیقات ضروری ہیں، ہم اس بارے میں فی الحال کوئی ہدایت نہیں دے رہے،چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کے تین پہلو ہیں جن میں عدلیہ کا وقار، وڈیو کا سچا یا جھوٹا ہونا اورجج کا کنڈکٹ شامل ہیں۔ کیس کے تمام پہلوئوں کو دیکھنا ہو گا، ہمیں اپنی مداخلت کے آئندہ اثرات بھی مد نظر رکھنا ہونگے،کسی کے مطالبہ پر کچھ نہیں کرینگے، کوئی توہین عدالت کا کا مرتکب ہوا ہے تو اس کیخلاف کارروائی ہونی چا ہیے، ہمیں جج کے مس کنڈکٹ کو دیکھنا ہے، عنقریب کچھ چیزیں طے کرلی جائیں گی، عدالت درخواست گزاروں کے وکلاءکی تجاویز سامنے آنے کے بعد اٹارنی جنرل سے بھی رائے جاننا چاہے گی جسکے بعد عدالت فیصلہ سنائے گی،انہوں نےکہاکہ اصل معاملہ عدلیہ کی ساکھ کاہے، اگر عوام کو عدلیہ پر اعتمادہی نہیں ہوگا تو انصاف کیسے ہوگا؟ بنیادی مسئلہ ہی عدلیہ کے اعتماد کا ہے، یہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا معاملہ بھی ہے،ہمیں اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ یہ ویڈیوز درست بھی ہیں یا نہیں؟ ہم نے اس بات کا جائزہ بھی لینا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کردیا تو ارشد ملک کی عدالت کے جاری کئے گئے فیصلے کیخلاف اسلام آبادہائیکورٹ میں چلنے والی اپیلیں تو متاثر نہیںہوںگی؟ہائیکورٹ خود مختار ادارہ ہے اسے اپنا کام کرنے دیا جائے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تین رکنی بینچ نے منگل کے روز مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے لیک کی گئی ویڈیو کی اصلیت کو سامنے لانے کے حوالے سے دائر کی گئی تین مختلف آئینی درخواستوں کی سماعت کی تودرخواست گزار پی پی کے سابق رکن پنجاب اسمبلی اشتیاق احمد مرزا کے وکیل چوہدری منیر صادق نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مریم نواز نے جج ارشد ملک پر سنگین الزامات لگاتے ہوئے یہ تاثر دیا ہے کہ عدلیہ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں،انہوںنے کہاکہ تمام سیاسی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ چیف جسٹس اس معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسکی حقیقت تک پہنچنے کیلئے تحقیقات کرائیں، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کے کہنے پر ازخود نوٹس لینا شروع کردیں تو پھر ہم آزاد کیسے ہوئے ؟از خود نوٹس تو وہ ہوتا ہے جسکی ضرورت ہم خود محسوس کرتے ہیں، کسی کے مطالبے پرکچھ نہیں کرینگے،اگر کوئی توہین عدالت کا کا مرتکب ہوا ہے تو اس کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن اس حوالے سے اگر ہم نے کوئی فیصلہ جاری کردیا تو ہائیکورٹ میں چلنے والی اپیلیں متاثر ہونگی ، ہائیکورٹ ایک خود مختار اداہ ہے اسے اپنا کام کرنے دیں۔،درخواست گزار سہیل اختر کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو اور بیان حلفی انتہائی اہم ہیں جبکہ اس ویڈیوکے اجراء کے بعد قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پرجاری ہونے والے بیانات سے عدلیہ کو متنازع بنایا جا رہا ہے،جوتوہین عدالت کے مترادف ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم توہین عدالت کو بھی دیکھیں گے، لیکن پہلے یہ گرد دھل جانے دیں۔ انہوںنے کہاکہ جج ارشد ملک نے انتہائی غیر معمولی باتیں کی ہیں لیکن آپ ہی تجویز کریں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اور کیا نہیں کر سکتے ؟ فاضل وکیل نے کہاکہ اس کیس کی تحقیقات سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی حاضر سروس جج سے کرائی جائیں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ اس معاملے کی انکوائری تو ضروری ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ اس ویڈیو کے حقیقت پر مبنی ہونے اور احتساب عدالت کے جج کے کنڈکٹ اور عدلیہ کی ساکھ کے بارے میں بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر انصاف کی فراہمی کے نظام پرہی انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں تو پھر لوگوں کا عدالتوں سے اعتماد اٹھ جائیگا۔ انہوںنے کہاکہ اس کیس میں مختلف قوانین کا اطلاق ہوتا ہے جن میں پرائیویسی، سائبر کرائمز اور تو ہین عدالت کا قانون شامل ہے، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ کس حد تک اس میں مداخلت کرسکتی ہے ؟انہوںنے مزید کہاکہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس بارے میں سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ جج ارشد ملک کے العزیزیہ اسٹیل ملز کے مقدمہ میں دیئے گئے فیصلے پر تو اثر انداز نہیں ہوگا، اکرام چوہدری نے کہا کہ اس ویڈیو کے لیک ہونے سے عوام کا عدلیہ پر ا عتماد مجروح ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس میںکوئی شک نہیں کہ اس معاملے میں غیر معمولی باتیں بھی ہیں، سوال یہ ہے کہ تحقیقات کس طرح سے کی جائے؟ اگر سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہونگے، اس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ اس معاملے کودیکھنے کی ضرورت ہے، ہمارے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ یہ معاملہ کس کو اور کب دیکھنا چاہیے۔ فاضل وکیل نے کہا کہ حکومت کو بھی کمیشن بنانے کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جب کوئی کچھ نہیں کرتا تو پھر سپریم کورٹ ہی کرتی ہے،جس پراعتراض کیا جاتا ہے، ہم نے ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے معاملے کو بھی دیکھنا ہے، عنقریب ہی ہم کچھ چیزیں طے کرلینگے۔انہوںنے کہاکہ ارشد ملک لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہیں اور وفاقی حکومت نے انہیں ڈیپوٹیشن پر احتساب عدالت میں مقررکیا ہوا تھا ، ویڈیوکی ساخت کا معاملہ ہے، اس حوالے سے فورم کون سا ہوگا؟ ویڈیو کیسے بنائی گئی؟ کیسے پبلک ہوئی؟ اس کو بھی دیکھنا ہے؟انہوںنے واضح کیا کہ چیف جسٹس سے از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کرنا درست نہیں، عدالت نے جب کچھ کرنا ہوگا تو وہ خود کرے گی، ہم نے کسی کے کہنے پر نہیں چلنا ، ہم نہیں چاہتے کہ ہم کوئی ایسا فیصلہ جاری کریں جس سے کسی دوسری عدالت کا دائرہ اختیار متاثر ہوتا ہو؟ کیونکہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ آگیا توہائیکورٹ اسکی پابند ہوگی۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ بغیر ثبوت کے الزامات لگائے جاتے ہیں، ذمہ دار لوگوں کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، وکیل چوہدری منیر صادق کا کہنا تھا کہ عدالت اگر تحقیقاتی کمیشن قائم کریگی تو جتنا بھی یہ پورا معاملہ ہے اسکے حوالہ سے حقائق اور سچ سامنے آسکے گا۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب سے بنی نوح انسان دنیا میں آیا ہے تب سے سچ کی تلاش جاری ہے اور اس سلسلہ میں ہمارے جو ادارے ہیں ٹرائل کورٹ ہے اور ہائی کورٹ ہے ہمیں اس پر اعتماد ہے، ہم دیکھیں گے کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو تب سپریم کورٹ اس معاملہ میں دخل دیگی ابھی ہم اس معاملہ کو دیکھ رہے ہیں۔تیسرے درخواست گزار طارق اسد نے روسٹرم پر آکر ذاتی طور پر دلائل پیش کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ویڈیو کی فرانزک لیبارٹری سےٹیسٹ رپورٹ لینے سے قبل توہین عدالت کا معاملہ کیسے اٹھایا جاسکتا ہے؟ ایک جج عمرے پر جاکر کسی سے ملتا رہا ہے ،کیا کوئی اس کی نگرانی نہیں کررہا تھا ،جب تک اس معاملے کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن نہیں بنتا یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے جبکہ توہین عدالت کے معاملے کوبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ درخواست گزار نے عدالت سے اس معاملہ کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میںجوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی استدعا کی تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی ریٹائرڈ جج اس کمیشن کی سربراہی کرے تو انھیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا؟ درخواست گزار نے میڈیا کے حوالے سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ آج کل تو ہر ٹی وی چینل پر ہی جج ارشد ملک کی ویڈیو پر تبصرہ ہو رہا ہوتا ہے جس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی ہے ،آجکل میں اور میری اہلیہ گھر میں اکیلے ہیں، میں ان پروگراموں کو دیکھ کر کمرے سے باہر نکل جاتا ہوں ،جس پر چیف جسٹس نے ازراہ تفنن کہا کہ آپ کمرہ چھوڑنے کی بجائے ٹی وی کا سوئچ ہی آف کردیا کریں،تو فاضل وکیل نے کہاکہ میری بیگم بھی تو وہی پروگرام دیکھتی ہے۔ دوران سماعت وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی پیش ہوئے تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کیوں نہیں آئے؟ تو انہوںنے بتایا کہ کل عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کی جیل میں قید بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس کا فیصلہ جاری کرنا ہے ،اسلئے وہ وہاں گئے ہوئے ہیں ،جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں اس معاملہ کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے سے متعلق تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کیساتھ سماعت 23 جولائی تک ملتوی کردی ۔ ویڈیو معاملہ کی سماعت کے پیش نظر سپریم کورٹ کے احاطے میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔