کراچی (اسٹاف رپورٹر، اے پی پی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے کہ فعال اور مضبوط نظام عدل کیلئے محکمہ پولیس کا بھی عدلیہ کی طرح آزاد و خودمختار ہونا ضروری ہے، ورنہ انصاف کی فراہمی میں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے، سچی گواہی دے کر مقدمہ ثابت کرنا پولیس کی ذمہ داری، جھوٹی گواہی پیش کرنے والا برابر کا مجرم سمجھا جانا چاہیے، فوجداری نظام میں 2بڑے نقائص ہیں، جھوٹی گواہی اور تاخیری حربے، انصاف پر مبنی معاشرہ چاہتے ہیں تو جھوٹی گواہی کا خاتمہ کرنا ہوگا، تفتیشی نظام میں بہتری کیلئے اصلاحات ضروری ہیں، فیصلہ کیا ہے کہ کیس کی سماعت ملتوی جج یا وکیل کے جاں بحق ہونے پرہی ہوگی، اب مقدمات میں التوا نہیں دیا جائیگا، ماڈل کورٹس کے باعث آج ملک کے 12؍ اضلاع میں قتل کا کوئی مقدمہ زیر التواء نہیں، یہ صرف سسٹم کی بہتری سے ہوا، ملک میں پہلی بار سپریم کورٹ اسلام آباد میں ای کورٹس سسٹم قائم کیا گیا ہے جس میں ویڈیو لنک کے ذریعے کراچی اور کوئٹہ رجسٹریوں کے مقدمات کی سماعت کی جا رہی ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعہ کو ”جسٹس سیکٹر ریفارمز“ کے حوالے سے پولیس ہیڈ آفس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ پولیس افسران نے شرکت کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے فوجداری مقدمات کے حل کیلئے پولیس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں پولیس اور عدلیہ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پولیس ریفارمز کے حوالے سے پولیس کے سینئر افسران اور ججز پر مشتمل کمیٹی قائم کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پولیس ریفارمز کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کیلئے کام شروع کیا اور عوام میں پولیس کا تاثر بہتر کرنے کیلئے 116 اضلاع میں پبلک کمپلین کمیٹیز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ گذشتہ چند ماہ میں ان کمیٹیوں کو 71 ہزار 452 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 57 ہزار درخواست گذاروں کی شکایات کا ازالہ کیا گیا جسکی وجہ سے ماتحت عدالتوں میں نئے مقدمات کی تعداد میں 11فیصد کمی ہوئی کیونکہ جب درخواست گذاروں کا مسئلہ پولیس کی سطح پر حل ہو جائے تو وہ عدالتوں میں نہیں آتے۔ اسی طرح ہائی کورٹس میں بھی نئے مقدمات کی تعداد میں 20 فیصد کمی دیکھی گئی ہے کیونکہ مقدمات کی زیادہ تر تعداد پولیس کیخلاف شکایات پر مشتمل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کے نظام میں اصلاحات سے عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل ہونے کے علاوہ ان کا پولیس کے ادارے پر اعتماد بھی بڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ پولیس میں تفتیش کے نظام کی کمزوریوں کی وجہ سے فوجداری مقدمات میں ملزمان عدالتوں سے بری یا ضمانتوں پر رہا ہو جاتے ہیں جسکی وجہ سے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے فوجداری مقدمات میں تفتیش کے معیار کو بہتر کرنے اور جانچنے کے لئے بھی کمیٹیاں تشکیل دی جا رہی ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اسی طرح زیر التواءمقدمات کو بھی جلد نمٹانے کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور مقدمات میں غیر ضروری التواءاور جھوٹی گواہیوں کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 116 اضلاع میں ماڈل کریمنل کورٹس نے کام شروع کر دیا ہے اور ان عدالتوں نے اپنے پہلے 86 دنوں کے دوران قتل اور منشیات کے9767 کے مقدمات کی سماعت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حوصلہ افزاء بات ہے کہ ملک کے 12 اضلاع میں قتل کا کوئی مقدمہ زیر التواءنہیں ہے اور یہ صرف سسٹم میں بہتری لانے کے نتیجے میں ہوا ہے۔ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ ماڈل سول کورٹس نے اس سال 15 جولائی سے کام شروع کیا اور 4دنوں کے دوران سینکڑوں مقدمات کا فیصلہ کیا جس میں کسی مدعی یا وکیل کی جانب سے قانونی حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ انصاف کی جلد فراہمی کیلئے محصولات اور ٹیکس کے حوالے سے مقدمات کو جلد نمٹانے کیلئے خصوصی بینچز قائم کئے گئے ہیں۔ اجلاس میں سابق آئی جی و پولیس ریفارم کمیٹی کے کنوینئر افضل علی شگری، انسپکٹر جنرل پولیس سندھ ڈاکٹر کلیم امام نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے موقع پر محکمہ پولیس کے شہداءکو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔