• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس انکشاف پر کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے انہیں تنازع کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ثالثی کے لئے کہا ہے، پوری دنیا میں اطمینان کا اظہار کیا گیا لیکن بھارت میں کہرام مچ گیا۔ اپوزیشن پارٹیوں اور انتہا پسند ہندو تنظیموں کے شدید مخالفانہ ردعمل سے گھبرا کر بھارتی حکومت نے ٹرمپ کے بیان کی تردید کر دی لیکن خود مودی ابھی تک اپنی زبان سے کچھ نہیں بولے، اس کی بجائے خاموشی سے مقبوضہ کشمیر پر اپنا جارحانہ تسلط برقرار رکھنے کے لئے عملی اقدامات تیز کر دیئے ہیں۔ انہوں نے پہلا قدم مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے بھارت کا صوبہ بنانے کے لئے آئین کی دفعہ370 اور35 اے میں ترمیم کا حکم دے دیا ہے۔ دفعہ370 میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا بھارت سے الحاق عارضی ہے، مستقل نہیں۔ اس کے تحت بھارت کو صرف خارجہ امور، دفاع اور خزانہ کی نگرانی دی گئی اور طے کیا گیا کہ ریاست باقی تمام امور میں مکمل خودمختار ہوگی، اس کا اپنا آئین، اپنی اسمبلی، اپنا جھنڈا، اپنا قومی ترانہ، اپنا صدر اور اپنا وزیراعظم ہوگا۔ بھارتی پارلیمنٹ کا کوئی قانون مقبوضہ کشمیر پر لاگو نہیں ہوگا سوائے اس کے جس کی توثیق کٹھ پتلی اسمبلی کر دے وقت گزرنے کے ساتھ بھارت نے سری نگر اسمبلی سے جبراً اپنی مرضی کی بہت سی ترامیم کرا لیں لیکن اس کی خصوصی حیثیت ختم کرانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بھارتی آئین کی دفعہ35 اے کے تحت ریاست سے باہر کا کوئی باشندہ ریاست میں جائیداد خرید نہیں سکتا۔ بھارت نے مسلمانوں کی اکثریت تبدیل کرنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں بھارتی ہندوئوں کو جموں کے علاوہ وادی کشمیر میں بھی آباد کر لیا ہے اور اب انہیں شہریت دلانے کے لئے جائیدادیں خریدنے کا حق بھی دلانا چاہتا ہے۔ ان دونوں دفعات کی تنسیخ کے خلاف کشمیری مسلمانوں میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی کے سوا مقبوضہ کشمیر کی تمام سیاسی پارٹیاں اس کی مخالفت میں متحد ہیں، اسی لئے بھارت ابھی تک انہیں تبدیل نہیں کر سکا۔ سابق کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ دفعہ370 کے خاتمے کا مطلب بھارت کے مقبوضہ کشمیر سے عارضی الحاق کا بھی خودبخود خاتمہ ہے، جس کے بعد آزادی کشمیریوں کا مقدر بن جائے گی۔ نریندر مودی نے امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا اس طرح جواب دیا ہے کہ انہوں نے ان دفعات کو ہی ختم کرنے کی ٹھان لی ہے اور اس انتہائی اقدام کے خلاف کشمیریوں کے احتجاج کو طاقت کے بل پر روکنے کے لئے مزید20 ہزار بھارتی فوج فوری طور پر مقبوضہ کشمیر بھیجنے کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مقبوضہ ریاست میں پہلے سے جاری ظالمانہ کارروائیاں بھی تیز تر کر دی گئی ہیں اور اعلان کیا گیا ہے کہ بھارتی فوج نے شوپیاں میں مجاہدین کے خطرناک کمانڈر منا بہاری کو اس کے ایک ساتھی سمیت شہید کر دیا ہے۔ منا بہاری پر ایک فوجی قافلے پر حملے کا الزام ہے جس میں 40بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔ اضافی بھارتی فوج کی تعیناتی کا مقصد خود بھارتی فوج نے ’’ایک فیصلے یا واقعے کے خلاف احتجاج روکنا‘‘ قرار دیا ہے مگر فیصلے یا واقعے کی وضاحت نہیں کی جو یقیناً بھارتی آئین سے دفعہ370 اور35 اے کے اخراج اور کشمیری عوام کے خلاف کوئی بڑی کارروائی ہی ہو سکتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے فوجی علاقے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے بیانیے پر غصے کے اظہار کے لئے بھارت نے امریکہ سے6 ارب ڈالر کے 30جدید ترین ڈرونز طیارے خریدنے کے معاہدے پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی دوران جموں میں یہ افواہ عام ہے کہ وادی میں بھارتی فوج کوئی بڑا ایکشن لینے والی ہے، اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں بھارت کشمیری عوام پر ظلم کے نئے پہاڑ توڑنے والا ہے۔ امریکہ اور دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلوانے کے لئے زبانی نہیں بلکہ موثر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

تازہ ترین