علی ارقم
بلوچستان کے بلوچ اور پشتون اضلاع کے لوگ کاروبار، روزگار اور دیگر کئی حوالوں سے کراچی کا رُخ کرتے رہے ہیں۔بلوچوں کے لئے تو کراچی کا شہر کئی تاریخی حوالوں سے اہم ہے، کیوں کہ کراچی ماہی گیروں اور خانہ بدوشوں کی جن بستیوں اور گوٹھوں سے آباد ہوا وہ سندھی اور بلوچ قبائل ہی کی بسائی ہوئی تھیں۔
لیاری میں صوبہ بلوچستان کے علاقوں سے آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔ لیاری اور اس سے جُڑے علاقے بلوچستان کے ساتھ مسافر بسوں اور ٹرانسپورٹ سے بھی منسلک تھے، یوں ٹرانسپورٹ کے اڈے اور کوئٹہ تا کراچی یہ روٹ تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں کا محور بنا۔تجارت اور کاروبار کے غرض سے آمدورفت کرنے والوں کا جائے قیام بھی کراچی ہی تھا۔اسی لیے لی مارکیٹ اور کھجور مارکیٹ کے اولڈ سٹی کے علاقے میں سرائے اور ہوٹل بنے، اور وہاں قائم کی جانے والی مسجد پٹھان مسجد کہلائی۔شیدی ولیج روڈ کے دونوں اطراف ہوٹلز، ریستورانوں، چائے خانوں، اور حماموں کی طویل قطار آج بھی موجود ہے۔
وقت گُزرا، تو یہاں رہنے والے پشتون تاجروں اور کاروباری افراد نے رہائشی آبادیاں بھی قائم کرلیں ،جو آگے پھیلیں اور کوئلہ گودام ( جو اب گلستان کالونی کہلاتا ہے) اور شیرشاہ کالونی وغیرہ جیسے علاقے آباد ہوئے۔ جہاں ساٹھ کی دہائی کے صنعتی عمل کے نتیجے میں خیبر پختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) سے ملازمت کی تلاش میں آنے والے پشتون بھی آبسے۔سندھ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ (سائٹ) کے قیام اور پھیلاؤ کے ساتھ ان ہی پشتون مزدوروں پر مشتمل رہائشی آبادیاں پٹھان کالونی، فرنٹیئر کالونی، شیرخان آباد وغیرہ آباد ہوتی چلی گئیں، دوسری طرف کورنگی کے اطراف میں بھی پشتون کالونیاں وجود میں آئیں۔1972ء میں چلنے والے مزدور تحریک کے دوران مارے جانے والے شہدا کی یاد گار فرنٹئیر کالونی میں ہی ہے۔
ذکر بلوچستان کے اضلاع سے آئے لوگوں کا ہے، جن کے لیے کراچی تجارت و کاروبار کے حوالے سے ہمیشہ پُرکشش رہا ہے۔ان علاقوں کے پشتون عام طور پر مزدوری کے بجائے تجارت اور چھوٹے موٹے کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے کراچی میں ان کی اولین قیام گاہ کے قریب برٹش راج کے دور میں بنائی گئی لی مارکیٹ اور اس کے اطراف میں آپ کو آج بھی دکانوں اور چھوٹے کاروبار کے مالکان اکثر پشتون نظر آئیں گے۔ جیسے وہاں ایک درجن سے زائد دکانیں نسوار اور اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاء کی ہیں۔ اسی طرح سے چائے کی پتی کی دکانیں، کپڑے کی مارکیٹ اور ڈرائی فروٹس کے اسٹالز میں بھی یہی لوگ اپنے مخصوص حلیے کے ساتھ دکھائی دیں گے۔ مارکیٹ کی پرانی تعمیر، دکانوں کی سجاوٹ کا انداز اور بعض ایسی اشیاء کی موجودگی، جس کا استعمال اب ترک ہوچکا ہے، جیسے نسوار رکھنے کے لیے آئینے یا چھوٹے چھوٹے رنگین شیشو ں سے مزین دھاتی ڈبیاں، اب بھی دکانوں میں دکھائی دیں گی۔ یہاں روایتی انداز میں بنے زنانہ و بچگانہ ملبوسات کی بھی دکانیں ہیں، جبکہ ڈرائی فروٹ کے اسٹالز اور ریڑھیاں تو ان کا مخصوص کاروبار ہے۔جو کراچی کے تقریباً ہر حصّے میں نظر آتےہیں۔ دوسری چیز، کراچی میں وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے چائے خانوں کا سلسلہ ہے، جو معروف ہی ’کوئٹہ ہوٹل ‘کے نام سے ہیں۔ چائے کا کوئی بھی شوقین اس نام سے نامانوس نہیں ۔یہاں تیار ہونے والی چائے کے اجزاء کے حوالے سے دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔ ان ہوٹلوں کے مالکان اکثر ژوب، پشین ، قلعہ عبداللہ، اور لورالائی سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ فیملی گروپس کی صورت میں ہوتے ہیں، اور ان کے ساتھ ‘باہر والا’ کا کام کرنے والے بھی اکثر ان ہی علاقوں کے ہوتے ہیں، گو کہ بعض علاقوں میں سندھ اور جنوبی پنجاب کے اضلاع سے آنے والے مزدور بھی ان کے ساتھ کام کرنے لگے ہیں۔
کوئٹہ چائے ہوٹلوں میں ملنے والی چائے کی تو بات ہی نرالی ہے۔چائے کی پتی کے امپورٹ سے وابستہ بڑے کاروباری افراد میں خاصی تعداد ان ہی علاقوں کے لوگوں کی ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پڑوسی مُلک افغانستان ، جہاں کالی چائے کی بہ نسبت سبز چائے اور قہوے کا چلن عام ہے، پچھلے چند سالوں میں وہاں کالی پتی کی درآمد میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔تحقیق پر پتا لگا کہ پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمینٹ کے تحت جو مصنوعات منگوائی جاتی ہیں، اس میں چائے کی پتی بھی شامل ہے۔اسی کی دہائی میں جب کراچی میں بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین آئے تو وہ اپنی مالی استعداد کے مطابق کراچی کی مختلف آبادیوں میں قیام پذیر ہوئے۔شہر کے مضافاتی علاقوں میں رہنے والوں کو عام طور پر کابلی کہا جاتا تھا۔ نائن الیون کے بدلتے حالات میں نان پشتون یعنی دری بولنے والے افغان تو نہ رہے لیکن پشتو بولنے والے افغان موجود رہے، جو مختلف کاروباروں سے وابستہ رہے ہیں۔ پشتو لہجے اور وضع قطع میں مماثلت کے باعث بلوچستان کے پشتونوں اور افغانوں میں فرق کرنا خاصا مشکل ہے، اسی لیے شہر میں پرانی اور سیکنڈ ہینڈ مصنوعات کی مارکیٹوں میں آپ اسی کنفیوژن کا شکار ہوں گے۔
کراچی میں تعمیرات کے شعبے اور انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ جیسے سڑکیں بنانے والے اکثر ٹھیکیدار ژوب کے مندوخیل قبیلے کے لوگ ہیں۔ اس تمام عمل میں چوں کہ ایک پورا نیٹ وارک آف سپورٹ ہوتا ہے جو اسی برادری کے لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے میٹیریل فراہمی اور دیگر معاملات میں انہیں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ ایسے ہی گرینائٹ اور ماربل کے کاروبار سے وابستہ افراد کاکڑ قبیلے کے ہیں، چوں کہ بلوچ اضلاع کے علاوہ ان ہی کے علاقے میں اس کے پہاڑ موجود ہیں۔
خشک میوے کا کاروبار پشتونوں سے ہی منسوب ہے۔کراچی میں آباد پشتونوں کے مختلف قبائل اور برادریاں کاروباروں کے علاوہ سماجی رشتوں اور سیاسی وابستگیوں میں بھی ایک ہی طرح کے فیصلے کرتیں ہیں۔ اسی لیے یہ آپ کو ہر سیاسی جماعت میں نظر آئیں گے۔ پختونخوا کے پختون اگر چہ زیادہ اربنائز ہوچکے ہیں، لیکن بلوچستان اور فاٹا کے پشتونوں پر اپنی ثقافت اور تہذیب کی چھاپ کافی گہری ہے۔ اس لیے اگر کراچی کے تفریحی مقامات پر آپ کو اپنے مخصوص وضع قطع کے ساتھ ، بڑی گاڑیوں سے ابھرتی تیز پشتو روایتی موسیقی کے ساتھ ٹولیوں کی صورت میں مختلف عمر کے افراد رقص کرتے نظر آئیں، تو غالب امکان یہی ہے کہ یہ ان ہی علاقوں کے پشتون ہوں گے، جنہیں عرف عام میں کوئٹہ وال کہا جاتا ہے۔