اگر آپ سات کو تین سے ضرب دیں تو جواب آئے گا اکیس۔ یہ سوال اگر آپ مولوی صاحب سے پوچھیں تو بھی جواب اکیس ہی ملے گا، کسی پادری، جوگی، وید، حکیم، کاہن، ڈاکٹر، ہم جنس پرست، شادی شدہ، کنوارے، امریکی، چینی، تاجر یا نوکری پیشہ سے پوچھیں تو ان سب کا جواب بھی اکیس ہوگا۔ ریاضی کا کوئی سوال کسی بھی شخص سے پوچھیں اُس کا جواب دوسرے شخص سے مختلف نہیں ہوگا، چاہے اُس کا تعلق کسی بھی زبان، رنگ، نسل، مذہب یا خطے سے کیوں نہ، چاہے وہ بحرالکاہل میں مچھلیاں پکڑ رہا ہو یا افغانستان میں اسمگلنگ کر رہا ہو، ہر مقام اور ہر وقت میں ریاضی کے معموں کا ایک ہی جواب ملے گا، ان میں باہم کوئی تضاد نہیں ہوگا۔ اسی طرح سائنس کے قوانین بھی سب کے لیے یکساں ہیں، کسی عمارت کی دسویں منزل سے اگر کوئی شخص پتھر پھینکے گا تو لامحالہ پتھر نیچے کی طرف ہی آئے گا چاہے پھینکنے والا یہودی ہو یا ہندو، پتھر پر کچھ پڑھ کر پھونکا جائے یا یونہی پھینک دیا جائے، یہ ممکن ہی نہیں کہ پتھر پر کشش ثقل اثر نہ کرے۔ لیکن اگر کسی سے پوچھا جائے کہ اسرائیل اور فلسطین میں سے کون ٹھیک ہے یا سوال کیا جائے کہ کشمیر میں ہندوستانی فوج اور مجاہدین میں سے کون صحیح ہے تو ہر شخص کا اپنا مختلف جواب ہوگا، سائنس یا ریاضی کے سوالوں کے برعکس اس قسم کے سوالات کا کوئی حتمی جواب ممکن نہیں کیونکہ انسانوں کو ریاضی یا سائنس کے اصولوں کے تحت نہیں سمجھا جا سکتا، دو مختلف انسانوں کو ایک وقت میں ایک ہی قسم کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ اُس مسئلے کا یکساں حل دونوں کے لیے کارگر ثابت ہو۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر انسان چھوٹے بڑے تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے، ایک ہی وقت میں ہم کئی متضاد باتیں کرتے ہیں اور پھر ان باتوں میں ربط پیدا کرنے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں، جب کوئی شخص کسی معاملے پر اپنی رائے قائم کرتا ہے تو اس کے پاس کوئی نہ کوئی ڈیٹا ہوتا ہے یا وہ کسی چھوٹے موٹے ثبوت کی بنیاد پر اپنا نقطہ نظر اپناتا ہے، جب ایسے شخص کو اس کی رائے کے برخلاف کوئی اضافی ثبوت مہیا کر دیا جائے تو وہ بےاطمینانی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنے کے چکر میں کوئی تاویل تلاش کرتا ہے یا کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے اس کے نقطہ نظر کو تقویت مل سکے، انسانی نفسیات کی اِس کیفیت کو Cognitive Dissonanceکہتے ہیں (قریب ترین ترجمہ شاید ’’ذہنی ناہمواری‘‘ ہوگا) اس کی مثالیں بہت دلچسپ ہیں، مثلاً سگریٹ کی ڈبی پر ایک نہایت مکروہ قسم کی تصویر بنی ہوتی ہے اور نیچے لکھا ہوتا کہ سگریٹ پینے سے آپ کو اس قسم کا کینسر لاحق ہو سکتا ہے مگر اِس کے باوجود لوگ سگریٹ پیتے ہیں، کچھ ایسے سیانے بھی ہوتے ہیں جو اپنے تئیں صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں مگر سگریٹ پینے سے باز نہیں رہ سکتے اور جو خود کو ضرورت سے زیادہ عقل مند سمجھتے ہیں (جیسے کہ میں) وہ تصویر والی ڈبی ہی نہیں خریدتے، گویا ان کے خیال میں جس ڈبی پر تصویر نہیں ہوگی وہ سگریٹ مضر صحت نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب ہم وزن کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس دوران ہمارا دل پراٹھا کھانے کو چاہتا ہے تو ہم یہ تاویل گھڑ لیتے ہیں کہ ایک پراٹھے سے کچھ نہیں ہوتا، اس کے بعد نہیں کھاؤں گی، رات کے کھانے میں ازالہ کر دوں گی یا تیس کی بجائے ساٹھ منٹ واک کرکے کیلوریز پوری کر لوں گی۔ یہ تمام cognitive dissonanceکی کیفیات ہیں۔
معاشرے چونکہ انسانوں سے مل کر بنتے ہیں اس لیے معاشرے بھی اِس ذہنی ناہمواری کا شکار ہوتے ہیں مثلاً بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، ہمارے مذہب کا تقاضا ہے کہ ہم وعدے کی پاسداری کریں، دیانت داری سے نوکری کریں، ایمانداری سے کاروبار کریں، انسانوں سے محبت کریں، تقویٰ کو شعار بنائیں اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کریں۔ ان تمام باتوں پر ہمارا ایمان ہے، اصولی طور پر ہمیں ان پر عمل کرنا چاہئے مگر پاکستان کے حالات یہ بتاتے ہیں کہ اکثریت ان باتوں پر عمل نہیں کرتی اور جب یہ بات اعداد و شمار کی صورت میں ہمارے سامنے رکھی جاتی ہے تو ہم لاشعوری طور پر بے اطمینانی کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں اور پھر اس کیفیت کو دور کرنے اور مذہب سے اپنی ’’سچی‘‘ وابستگی ثابت کرنے کے لیے میلاد منعقد کرواتے ہیں، حج پر چلے جاتے ہیں، گھر میں عالم دین کے بیان کا اہتمام کرواتے ہیں، عید پر تگڑا سا بکرا ذبح کرتے ہیں، اپنے مسلک کے مولوی صاحب کو چندہ بھجوا دیتے ہیں اور اپنے موبائل فون کی رنگ ٹون پر نعت یا تلاوت لگا دیتے ہیں۔ ہماری حب الوطنی کا حال بھی مختلف نہیں، ہمارے ملک کا آئین ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم قانون پر عمل کریں، اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں، عورتوں کو برابر کے حقوق دیں، اقلیتوں کا تحفظ کریں، ٹیکس دیں، مگر جب ثبوت کے طور پر ہمیں عالمی اشاریے دکھائے جاتے ہیں جن میں ہمارا درجہ نیچے کہیں افریقی ممالک کے ساتھ ہوتا ہے تو ایک مرتبہ پھر ہم cognitive dissonanceکا شکار ہو کر بےچین ہو جاتے ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا، ہم تو بہت محب وطن ہیں پھر یہ عورتوں کی تکریم، اقلیتوں کے حقوق یا قانون پر عمل داری کے معاملے میں ہم اتنے نیچے کیوں ہیں؟ ہم ٹیکس تو کم دیتے ہیں مگر خیرات بانٹنے میں سب سے اوپر ہیں (یہ بات بھی ویسے درست نہیں) ہماری بےاطمینانی مگر ہمیں جینے نہیں دیتی لہٰذا ہم اٹھتے بیٹھے اپنی گفتگو میں زبانی کلامی پاکستان سے محبت ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ محبت کے بارے میں میرا نظریہ ہے کہ اسے ثابت نہیں کرنا پڑتا اس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، عشق زبانی جمع خرچ کا نام نہیں اس کے لیے جان مارنا پڑتی ہے، ہمیں جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو ہمارا انگ انگ اس کی گواہی دیتا ہے، محبوب کو گھر بیٹھے پتا چل جاتا ہے کہ اس کا عاشق محبت کی آگ میں تڑپ رہا ہے۔ سو، ہم میں سے جو لوگ ملک سے محبت کے دعویدار ہیں انہیں اس بارے میں بیانات دینے کی ضرورت نہیں، عشق ہوگا تو خود بخود پاکستان کی عالمی درجہ بندی میں پوزیشن بہتر ہو جائے گی۔کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے یہ سب کتابی باتیں ہیں کہ انسانوں کو جب ان کے نظریات سے متصادم ثبوت فراہم کیا جائے تو وہ بے اطمینانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انسانوں میں بے ضمیری کی خصوصیت بھی پائی جاتی ہے، ایسے انسانوں کے جب ضمیر مردہ ہو جائیں تو انہیں اس بات سے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے مذہب کی تعلیمات کیا ہیں یا حب الوطنی کا تقاضا کیا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ اللہ کے گھر کا طواف کر آئے وہ واپس آکر اطمینان سے یتیم بھتیجے کی جائیداد ہڑپ کر جائے اور خود کو مسلمان بھی کہے۔ ایسے شخص کی ذہنی کیفیت کی وضاحت cognitive dissonanceجیسی تھیوری نہیں کر سکتی، اس کے لیے کوئی نئی تھیوری دریافت کرنا پڑے گی جس کا نام ’’قانون برائے متحرک بے ضمیری‘‘ رکھا جا سکتا ہے۔