• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں یکم جولائی 2019ء کو جو کچھ ہوا، اس پر پوری قوم نادم ہے۔ احساس ندامت کے ساتھ سر جھکائے میں بھی قوم کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ’’آج اک درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘ ندامت کیساتھ ساتھ میں بہت دکھی بھی ہوں۔ پاکستان کے سب سے بالادست منتخب ادارے پارلیمان کے ایوان بالا میں پہلے جب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم پیش ہوئی تو 64سینیٹرز نے کھڑے ہو کر اس تحریک کے حق میں اپنا فیصلہ دیا لیکن جب اس تحریک پر خفیہ رائے شماری ہوئی تو 14سینیٹرز نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا اور اپنا ووٹ ’’ضمیر‘‘ کو دیدیا۔ اس واقعہ نے پوری قوم کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ اگرچہ اہل دانش اور اہل فکر کو اس طرح کے واقعہ کی توقع تھی کیونکہ پہلے بھی اس طرح کے واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر اس واقعہ سے پاکستان کے جمہوری نظام، ارکان پارلیمان اور ریاستی اداروں پر عوام کا رہا سہا اعتماد بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ اس سیاسی جماعت کی حکمرانی میں ہوا، جو جمہوری نظام کی خامیوں کو ختم کرنے کا نعرہ لگا کر آئی تھی۔ اس واقعہ نے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پر کچھ لوگ خوشیاں منا رہے ہیں اور اسے اپنی عظیم کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ اس پر مجھے شرم آ رہی ہے جو لوگ اپنی شکست کا ملبہ دوسروں پر ڈال رہے ہیں، ان کے رویے پر بھی مجھے ندامت ہو رہی ہے کیونکہ ہماری سیاسی جماعتیں جس طرح کے لوگوں کو سینیٹ میں بھیجتی ہیں، وہ یہی کریں گے، جو انہوں نے کیا۔ جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں ایوان بالا میں اپنے سب سے زیادہ سینئر، وفادار، مدبر اور اپنے شعبوں کے ماہر رہنماؤں کو بھیجتی ہیں۔ یہ ایوان بالا، جسے کہیں سینیٹ، کہیں دارالامراء، کہیں راجیہ سبھا اور کہیں کوئی دوسرا نام دیا جاتا ہے، جمہوری ممالک کے اعلیٰ ترین ذہنوں اور بلند تر کردار کے حامل لوگوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ تقریباً ہر جگہ ایوان بالا (اپر ہاؤس) کے ارکان کو ایوان زیریں (لوئر ہاؤس) یعنی قومی اسمبلی، دارالعوام یا لوک سبھا کے ارکان منتخب کرتے ہیں، جو خود عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔ پاکستان میں سینیٹ کا الیکٹورل کالج صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ ہمارے ہاں سینیٹ کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے سربراہ اپنے دوستوں، ’’فرنٹ مین‘‘ کو ان کے لئے لابنگ کرنے یا دولت مندوں کو ٹکٹ دیئے جاتے ہیں۔ جن کا کوئی سیاسی یا نظریاتی پس منظر نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی سیاسی وابستگی ہوتی ہے۔ وہ کسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ بھی نہیں لیتے، بس اپنی دولت کے بل بوتے پر سینیٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ 2005ء سے ہر تین سال بعد سینیٹ کے آدھے ارکان کا انتخاب ہوتا ہے تو شرمناک داستانیں سننے کو ملتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سینیٹرز کے انتخابات میں ایک ایک ووٹ کروڑوں میں بکتا ہے۔ اگرچہ اس بات کو ابھی تک کوئی ثابت نہیں کر سکا لیکن کوئی اس طرح کی باتوں کو جھٹلاتا بھی نہیں ہے۔ ووٹوں کی خرید و فروخت کے تاثر کے ساتھ جو ایوان وجود میں آئے گا، (چاہے یہ تاثر غلط ہی کیوں نہ ہو)، اس ایوان میں اس طرح کے واقعات پر حیرت نہیں ہوئی چاہئے۔ قبل ازیں بھی اس طرح کے کئی واقعات سینیٹ میں رونما ہو چکے ہیں۔ جن لوگوں پر یہ الزام ہو کہ وہ ’’ضمیر‘‘ کا ووٹ لے کر آئے ہیں، وہ خود بھی اپنا ووٹ ’’ضمیر‘‘ کو دیں گے۔

ہمارے کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں جن 14سینیٹرز نے اپنی جماعتوں کی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا، انہیں اس پالیسی سے اختلاف کا جمہوری حق حاصل ہے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر پارٹی پالیسی کی حمایت کی لیکن خفیہ رائے شماری میں اپنے ضمیر کا فیصلہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی پالیسی سے اختلاف رائے کا یہ مہذب طریقہ ہے؟ پارٹی پالیسی سے اختلاف پر اگر اور کچھ نہیں ہو سکتا تو استعفیٰ تو دیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ پارٹی قیادت سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن اختلاف کے باوجود پارٹی میں رہنا کون سا اصول ہے؟ جمہوری ملکوں کی مثال دی جاتی ہے کہ وہاں اختلاف کرنے والوں کو پارٹی سے نہیں نکالا جاتا بلکہ ان کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اختلاف کرنے والے پارٹی کے وفادار، سینئر اور پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی وفاداری پر کسی کو شک بھی نہیں ہوتا۔ اصل خرابی ہمارے آئینی اور قانونی نظام میں ہے۔18ویں آئینی ترمیم میں یہ بندوبست نہیں کیا گیا بلکہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو آمروں جیسا تحفظ دیا گیا ہے۔ ان لوگوں کو تمام ضمیروں کے ذریعے اپنا کھیل کھیلنے دیا جاتا ہے۔ اختلاف یا فلور کراسنگ کرنے والا منتخب ایوان کا رکن نہیں رہ سکتا۔ قانون کو تبدیل ہونا چاہئے۔ اگر ایمانداری سے تفتیش ہوئی تو پارٹی کی قیادت ذمہ دار نظر آئیگی۔ قیادت کے خلاف ووٹ دینے کی اجازت ہونی چاہئے۔ خفیہ رائے شماری بھی ایک بڑی خرابی ہے۔ اس میں ’’ضمیر‘‘ کے فیصلے ہوتے ہیں۔ اختلاف کا باوقار طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ جیسا کہ جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔ اس شق کو بھی تبدیل ہونا چاہئے لیکن آئینی اور قانونی اقدامات کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو سینیٹ میں اس طرح کے لوگ بھیجنے چاہئیں، جو نہ تو ’’ضمیر‘‘ کا ووٹ لے کر منتخب ہوں، نہ دولت کے بل بوتے پر وہاں پہنچیں اور نہ فرنٹ مین ہوں بلکہ سیاسی جماعتوں کے سچے، نظریاتی اور وفادار ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست، معیشت، تاریخ اور حالات کا ادراک رکھتے ہوں یا کم از کم کسی شعبے میں مہارت رکھتے ہوں۔ لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ

جو دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں

یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے

تازہ ترین