• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہنگورجہ، سمی، سگیوں اور گردونواح میں اتائی ڈاکٹروں نے غیر قانونی شفاخانے بنائے ہوئے ہیں، جن سے علاج کی صورت میں عوام کی بیماری میں کمی آنے کی بجائے بد اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ان وسیع و عریض اور کثیر آبادی والے علاقوں میں نہ تو سرکاری سطح پر اسپتال یا ڈسپنسریوں میں عوام کو علاج معالجے کی سہولتیں دستیاب ہیں اور نہ ہی شعبہ طب میں ڈگری کے حامل ڈاکٹروں کے نجی کلینکس قائم ہیں، جس کا فائدہ اتائی ڈاکٹر اٹھا کرعوام کو غلط تشخیص اور علاج معالجے سے موذی امراض کا شکار بنا رہے ہیں۔ ان علاقوں میں غریب لوگوں کے لئے میڈیکل سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جب کہ ٹرانسپورٹ کی بھی آسانی میسرنہیں جس کی وجہ سے دیگر شہروں کے اسپتال وطبی مراکز تک جانے کے لیے پسماندہ دیہی علاقوں کے افراد کو خطیر رقوم کرائے کی مد میں خرچ کرنا پڑتی ہیں جب کہ غریب لوگ اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر غیر مستند اتائی ڈاکٹر نیم حکیم خطرہ جان بنے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جگہ جگہ اپنے شفاخانے بنائےہوئے ہیں جہاں غریب لوگ مرض کے ہاتھوں پریشان ہوکر اپنا علاج کرانے جاتے ہیں اور پیسہ خرچ کرنے کے باوجود اپنی بیان کردہ بیماری کے ساتھ متعدد امراض لے کر وہاں سے واپس آتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق ہنگورجہ سمی سگیوں اور مختلف گاؤں میں تین درجن سے زائداتائی اسپتال موجود ہیں جن میں ڈسپنسرز، ڈریسر، کمپائونڈر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ غریب، ناخواندہ اور سادہ لوح افراد انہیں ڈاکٹر کا رتبہ دیتے ہیں۔ مریض کے ورثاء اپنی تمام جمع پونجی ان اتائی ڈاکٹروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ مزید ستم ظریقی یہ ہے کہ مذکورہ اتائی ڈاکٹروں نے اپنے نام نہاد اسپتال کے اندر کیبن نما میڈیکل اسٹورز بھی کھولے ہوئے ہیں جن کے پاس نہ تو لائسنس ہے اور نہ ہی ان کی چیکنگ کا کوئی نظام ہے۔ان علاقوں میں ضلع خیرپور کی انتظامی مشینری، محکمہ صحت کے اہل کار اور ڈرگ انسپکٹرز کی کارکردگی کسی جگہ بھی نظر نہیں آتی۔ سندھ ہائی کورٹ کے سخت احکامات کے باوجود یہ اتائی ڈاکٹر اور ان کے اسپتال کس کی اجازت سے اپنا غیرقانونی کاروبار چلا رہے ہیں، اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ ان اتائی ڈاکٹروں کی غلط تشخیص، ناقص ادویات اور زہر آلود انجکشنز کے باعث کئی انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں لیکن پولیس و شہری انتظامیہ کی جانب سے ان ہلاکتوں اور اس غیرقانونی کاروبار کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

دوسری جانب ہنگورجہ اور گردونواح کے علاقوں میں تقریباً تین سرکاری اسپتالوں کی موجودگی کے باوجودطبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ اسپتالوں میں خون و پیشاب کے ٹیسٹس، آپریشن تھیٹر، ایکسرے مشینیں ، الٹراساؤنڈاورخاتون ڈاکٹرز اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے مریضوں کو پریشانیوں کا سامنا رہتا ہے۔ ہنگورجہ سرکاری اسپتال میں دور دراز کے علاقوں سے لوگ علاج کے لیے آتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ شہر مختلف گاؤں، دیہات اور دیگر علاقوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے مریض مجبوراً اتائی ڈاکٹروں کا رخ کرتے ہیں۔ سول سوسائٹی کی جانب سے اس مسئلے کی نشاندہی پر اسسٹنٹ کمشنر سوبھوڈیرو اقبال احمد جندان نے عید سے چند روز قبل ہنگورجہ میں ایک کھلی کچہری کا انعقاد کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ ہنگورجہ سمیت گردونواح کے تمام علاقوں میں اتائی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اورغیر قانونی میڈیکل اسٹورز سیل کریں گے ۔ اسسٹنٹ کمشنر کا اعلان اپنی جگہ درست ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتائی ڈاکٹروں اور ان کے شفاخانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کب سے شروع ہوگا؟

تازہ ترین
تازہ ترین