• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکثر تجارتی خبروں میں آپ سنتے ہیں کہ اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ کاروبار ہوا یا مندی رہی یا انڈیکس نفسیاتی حد عبور کرگیا، یہ سب باتیں یا اصطلاحات نہ صرف کامرس کےطلبا کو بلکہ ہر اس انسان کو معلوم ہوتی ہے، جو حصص کے کاروبار سے ذرا سا بھی شغف رکھتاہے یا اپنے سرمائے میں اضافے کی امید رکھتا ہے۔

اسٹاک ایکسچینج عموماً شہروں کے حوالے سے مشہور ہیں، جیسے نیویارک اسٹاک ایکسچینج یا ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج۔ اسی طرح اگر تمام شہروں کی اسٹاک ایکسچینج کو اکٹھا کردیا جائے تو وہ ملکی اسٹاک ایکسچینج بن جاتاہے، جیسے کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج۔ اسے پاکستان کی تین اسٹاک ایکسچینجز لاہور، اسلام آباد اور کراچی کو ایک کرکے بنایا گیا ہے، جس کا صدر دفتر کراچی میں ہے۔ اس کا افتتاح 11جنوری 2016ء کو کیا گیا، یہ اپنی نوعیت کا پہلا اسٹاک ایکسچینج ہے، جس میں بیک وقت تینوں مارکیٹوں میں ایک ساتھ ٹریڈنگ ہوتی ہے۔ آئیں اسٹاک مارکیٹ کی کچھ اصطلاحا ت کے بارےمیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسٹاک مارکیٹ

اسٹاک مارکیٹ یا ایکوئٹی مارکیٹ، مختلف کمپنیوں کے اسٹاک یا حصص کے خریداروں اور فروخت کنندگان کو اکٹھاکرتی ہے۔ یہاں محض اقتصادی لین دین ہوتا ہے اور شیئرز کا حقیقی جگہ پر وجود لازم نہیں۔ یہاں ہونے والے سودوں میں کمپنیوں کے حصص کے علاوہ بانڈ زبھی بیچے اور خریدے جاتے ہیں ۔

شیئرز کا کاروبار

بڑے ادارے بینکوں سے ادھار لینے کی بجائے اپنے حصص یعنی کچھ کاروباری حصہ عوام کو فروخت کر دیتے ہیں۔ حصص یعنی شیئرز خریدنے والوں کو شیئر ہولڈرز کہتے ہیں۔ جب کمپنی کو سالانہ منافع ہوتا ہے تو اس کو شیئر ہولڈرز میں ان کے سرمائے کے مطابق تقسیم کیا جاتا ہے۔ حصص خریدنے کے لئے باقاعدہ طور پر ڈاکیومنٹیشن ہوتی ہے۔ آپ کا نام، پتہ وغیرہ لیا جاتا ہے اور جب منافع کا اعلان ہوتا ہے تو کمپنی لوگوں کو منافع کی رقم منتقل کردیتی ہے۔ ملکی حالات اور کاروباری حالات وغیرہ شیئرز کی قیمت میں اُتار چڑھاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ جیسے سیمنٹ کے شیئرز کی قیمتیں کسی بڑے تعمیراتی منصوبے کے اعلان کے بعد بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بینک عموماً ترقی کی طرف جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اُتار چڑھائو

جس کمپنی کے شیئرز زیادہ خریدے جائیں تو ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جس کمپنی کے شیئرز زیادہ فروخت کیے جاتے ہیں تو ان کی قیمت کم ہو جاتی ہے۔ اگر زیادہ کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت بڑھ جائے تو اس سے انڈکس میں تیزی دیکھنے میں آتی ہے اور وہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر خریداری کم ہو اور شیئرز کی فروخت یا کاروبار نہ ہو تو انڈکس گر جاتا ہے اور اسے مندی کہتے ہیں۔ جس قیمت پر سرمایہ دار نے شیئر خریدے ہوتے ہیں وہ ایک جیسی نہیں رہتی کیونکہ شیئرز کی قیمت کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے، اس میں کمپنی کی شہرت ، اس کے پھیلاؤ ، ترقی اور استحکام اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

ڈیویڈنڈ

شیئرز سے منافع دو قسم کا ہوتا ہے، ایک تو وہ جوا سٹاک ایکسچینج میں ہوتا ہے، مثلاً ایک شیئر آپ نے سو روپے میں خریدا، کچھ دن بعد اس کی مارکیٹ ویلیو 200روپے ہوگئی اور آپ نے اپنے شیئرز بیچ دیے۔ دوسری طرح کے منافع کو Dividend کہتے ہیں، یہ وہ منافع ہوتا ہے جو کمپنی ہر سال یا ششماہی اپنے شیئر ہولڈرز کو فی شیئر کے حساب سے دیتی ہے۔ ڈیویڈنڈ بھی دو قسم کا ہوتا ہے، ایک تو وہ کہ کمپنی کیش کی صورت میں دیتی ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کمپنی کیش نہیں دیتی بلکہ اسکے بدلے میں مزید شیئرز دے دیتی ہے۔

انڈیکس

انڈیکس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ کتنے شیئرز کی قیمت میں اضافہ ہوا اور کتنے کی قیمت میں کمی۔ اس کی بنیاد پر کل انڈیکس ظاہر ہوتا ہے کہ آج کتنا انڈیکس بڑھا یا گرا۔ملکی حالات مستحکم ہوں تو سرمایہ کار یا عام عوام سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اگر ملکی حالات مستحکم نہ ہوں تو سرمایہ کاروں کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ روپے کی قیمت میں کمی، پیٹرول کی قیمت میں اضافہ وغیرہ بھی شیئرز کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کے اہم عوامل ہوتے ہیں۔

کراچی اسٹاک ایکسچینج

کراچی اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ تھی۔ اس کا قیام 18 ستمبر 1947ء کو وجود میں آیا۔ اس کا صدر دفتر آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے، جو اب پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا صدر دفتر ہے۔ 2009ء میں بلوم برگ نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کو دنیا کی تیسری سب سے بہتر مارکیٹ کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج اس وقت بھی دنیا کی 10سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے۔

لاہور اسٹاک ایکسچینج

لاہور اسٹاک ایکسچینج پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں واقع تھی۔ یہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ تھی جوکہ اب پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا حصہ ہے۔ اس کا قیام 1969ء کے ایک آرڈینینس کے تحت 1970ء میں عمل میں لایا گیا۔

اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج

اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج پاکستان کی تیسری حصص مارکیٹ تھی۔ اس کا قیام25اکتوبر 1989ء کو عمل میں لایا گیا۔ اس کی عمارت 22منزلہ آئی ایس ای ٹاور کہلاتی ہے، تاہم اب یہ بھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا حصہ ہے۔

تازہ ترین