• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص یہ کہتا ہے کہ عورتوں کے مسجد میں آنے کی ممانعت اجماعِ صحابہؓ سے ثابت ہے ، اور ناسخ کے درجے میں ہے،اس کے جواز کے قائل غلطی پر ہیں ،جواز پر عمل جائز نہیں ،اس بارے میں شرعی حکم بیان فرمائیں۔(عبدالمصطفیٰ ، ماریشس )

جواب:خواتین کےلیے مساجد میں نماز ادا کرنا جائز ہے اور مرد حضرات اپنی بیویوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت مانگنے پر منع نہیں کر سکتے، بشرطیکہ خاتون پردہ میں ہو اور اس کے جسم سے کوئی ایسی جگہ نظر نہ آئے جسے اجنبی لوگوں کے لیے دیکھنا جائز نہ ہو ،حدیث پاک میں ہے: ترجمہ: ’’حضرت سالمؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں: رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد میں آنے کی اجازت مانگے تو وہ اسے منع نہ کرے، (صحیح بخاری:5238)‘‘۔مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ ’’ عورتوں کے مسجد میں جانے کی ممانعت اجماعِ صحابہؓ سے ثابت ہے اور ناسخ کے درجے میں ہے ‘‘، درست نہیں ہے ، ان احادیث مبارکہ کو کیسے نظر انداز کیاجاسکتا ہے ۔

(۱)ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے کہ جب تمہاری عورتیں مسجد میں جانے کی اجازت مانگیں تو ان کو مساجد میں جانے سے منع نہ کرو ،حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے صاحبزادے بلال نے کہا: خدا کی قسم ! ہم انہیں مسجد میں جانے سے ضرور منع کریں گے، راوی کہتا ہے کہ پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ بلال پر اس قدر شدید ناراض ہوئے کہ اتنا کسی اور پر ناراض نہیں ہوئے تھے اور فرمایا: میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا فرمان بیان کرتا ہوں اورتم کہتے ہو کہ میں ضرور منع کروں گا ،(صحیح مسلم: 442)‘‘۔

(۲)ترجمہ:’’ حضرت مجاہدؒ بیان کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی عورتوں کو رات کے وقت مسجد میں جانے کی اجازت دو، ان کے بیٹے واقد نے کہا : پھر یہ عورتیں اس اجازت کو برائی کا بہانہ بنالیں گی ،یہ سن کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ان کے سینہ پرمارا اور فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتاہوں اورتم انکار کرتے ہو ،(صحیح مسلم:442)‘‘۔

(۳)ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ صبح اور عشاء کی نمازجماعت کے ساتھ پڑھنے کے لیے مسجد جاتی تھیں ،ان سے کہاگیا: آپ گھر سے کیوںنکلتی ہیں،جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عمرؓ کو آپ کا نکلنا ناگوار ہے اوراُنہیں اس پر غیرت آتی ہے، وہ کہنے لگیں: پھر اُنہیں مجھے منع کرنے سے کیا چیز مانع ہے ؟،حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا: انہیں منع کرنے سے رسول اللہ ﷺکا یہ ارشاد مانع ہے:’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد میں جانے سے منع نہ کرو،(صحیح بخاری:900)‘‘۔

حافظ ابن حزم اندلسیؒ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات تک عورتوں کو مسجد میں آنے سے کبھی نہیں روکا، نہ ہی خلفائے راشدین ؓ نے آپ کے بعد یہ کام کیا، اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ عمل منسوخ نہیں ہوا، جب اس کا غیر منسوخ ہونا یقینی ہے تو یہ نیکی کا کام ہوا، اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی اکرم ﷺ اسے برقرار نہ رکھتے اور ان عورتوں کو بے فائدہ بلکہ نقصان دہ تکلیف میں مبتلا نہ چھوڑتے، ایسا کرنا تنگی و تکلیف تو ہوسکتا ہے، خیر خواہی نہیں (حالانکہ رسول اللہ ﷺ سب سے بڑے خیر خواہ ہیں)، (اَلْمُحَلّٰی لِاِبْنِ حَزَم،جلد2،ص:176)‘‘۔

عہدِ فاروقی میں خلیفۂ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فسادِ زمانہ کے سبب عورتوں کے مسجد آنے پر پابندی لگادی تھی، لیکن اس پابندی کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ صبح اور عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کے لیے مسجد جاتی تھیں ،حضرت ابن عمرؓ نے اس کا سبب یہ بتایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کورسول اللہ ﷺکا یہ ارشاد مانع ہے:’’ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد میں جانے سے منع نہ کرو،(صحیح بخاری:900)۔ترجمہ:’’عمرہ سے روایت ہے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ عورتوں کے اس بناؤ سنگھار کو دیکھ لیتے جو انہوں نے اب ایجاد کیا تو اُنہیں (مسجد میں آنے سے ) منع فرما دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کیا گیا تھا ۔ میں نے عمر ہ سے پوچھا :کیا اُنہیں منع کر دیا گیا تھا؟، انہوں نے فرمایا: ہاں ،(صحیح بخاری:869)‘‘۔

(…جاری ہے…)

تازہ ترین