بھارتی قیادت مقبوضہ کشمیر میں جس ظلم و بربریت کا مظاہرہ کررہی ہے ، اس نے انسانیت کا درد رکھنے والے ہر انسان کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے۔میں اس سے قبل بھی بیشتر مواقع پرخدمت انسانیت کی تلقین کرتا رہا ہوں ،آج کا کالم لکھنا میرے لئے نہایت تکلیف دہ اور دُکھ کا باعث ہے، اس کی وجہ مظلوم کشمیری عوام کی آہ و بکا ہے جو ریاستی جبر کے تحت دبا دی گئی ہے۔ تکلیف کے بعد فریاد کرنا انسانی فطرت میں شامل ہے لیکن یہ کیسی بربریت ہے کہ کشمیر میں معصوم انسانوں کو تکلیف پہنچا کر ان کی آواز بھی دیگر انسانوں تک پہنچنے نہیں دی جارہی؟ کیا اس ظلم و ستم کے بعد بھارت کو حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنےسیکولر ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پر فخر کرے ؟ مجھے یقین ہے کہ کشمیر کی جنت نظیر وادی کو معصوم انسانوں کے خون سے لہولہان کرنے والوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی،تاریخ میں ایسے بے شمار غاصب و متکبر حکمراں گزرے ہیں جن کا آج کوئی نام لیوا نہیں۔ موجودہ بھارتی قیادت نے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ اور پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کے مابین معاہدے کی دھجیاں اڑاکر کشمیر میں موجودگی کا نام نہاد جواز کھودیا ہے، اب بھارت کی حیثیت دنیا کی ہر مروجہ تعریف کے مطابق مقبوضہ وادی پر ایک غاصب اور قابض طاقت کی ہے جسے ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہی ہے۔بھارت مت بھولے کہ کسی زمانے میں فرانسیسی پارلیمان نے الجزائر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر آئینی جواز پیدا کیا تھا لیکن فرانس اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار نہ رکھ سکا۔ آج نریندر مودی جس راہ پر چل رہا ہے ، کبھی ہٹلر کی زیرقیادت نازی جرمنی بھی چلتا رہا ہے اور سویت یونین بھی۔ اپنے زمانے کی ان بڑی طاقتوں نے مختلف علاقائی ممالک کو اپنی طاقت کی ہوس کا نشانہ بنایا لیکن آج اکیسویں صدی میں دنیا کے نقشے سے سویت یونین اور نازی ہمیشہ کیلئے مِٹ چکے ہیں۔مودی حکومت نے کشمیر کو لہولہان کرتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ مسلمانوں کی عید اور ہندوؤں کا مقدس تہوار کرشنا جنم دن قریب ہے۔ مجھے ان خبروں سے شدید دُکھ پہنچا کہ کشمیری مسلمانوں کو عید کی نماز بھی ادا نہیں کرنے دی گئی۔ ایسے حالات میں امریکی صدر ٹرمپ کا ایک بیان بھی میری نظر سے گزراکہ وادی کشمیر میں ہندو اور مسلمان بستے ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔حقائق یہ کہتے ہیں کہ برصغیر میں صدیوں سے مسلمان اور ہندو ایک ساتھ امن و آشتی سے رہتے آئے ہیں، آج بھی پاکستان میں غیرمسلم اقلیتوں کو اپنے مذہبی تہوار منانے کی مکمل آزادی ہے،برصغیر میں انگریز سامراج نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کی ناپسندیدہ پالیسی کے تحت نفرتوں کو پروان چڑھایا۔ میں صدر ٹرمپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ کشمیر کا مسئلہ پیچیدہ نہیں بلکہ نہایت سادہ ہے کہ تقسیم برصغیر کے فارمولے کے تحت ریاست کشمیر کے عوام کو اپنے مسقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے حق خودارادیت دیا جائے۔ اگر مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی آزادی کیلئے عوامی ریفرنڈم کا انعقاد کیا جاسکتا ہے تو اقوام متحدہ کے دیرینہ حل طلب کشمیر ایشو کوکب تک نظرانداز کیا جائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ میں نے پاکستان ہندوکونسل کے پلیٹ فارم سے کرشن بھگوان کے جنم دن کو کشمیر سے اظہار یکجہتی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ صوبہ پنجاب کے علاقے رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں ملک بھر کی محب وطن ہندو کمیونٹی نے پاکستان اور آزاد کشمیر کے پرچم اٹھا کر ثابت کیا کہ کرشن بھگوان کا سچا نام لیوا امن و محبت کے درس پر یقین رکھتا ہے اور مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہے۔ مقدس کتاب بھگوت گیتا مکمل طور پر بھگوان کرشن کی امن پسندانہ تعلیمات پر مشتمل ہے۔میں سمجھتاہوں کہ دنیا کے ہر مذہب کا پہلا سبق انسانیت کی خدمت ہے،تمام انسانوں سے محبت کرنا اوردوسرے انسان کو تکلیف نہ دینا بلکہ تکلیف سے نکالناخدا کی نظر میں سب سے بہترین عمل ہے، سب سے زیادہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خلقِ خدا کا خیال کریں۔میں نے پہلے بھی کوشش کی تھی کہ پاکستان اور بھارت ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں، میں آج پھر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سےکہنا چاہوں گا کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے کشمیری عوام سے اپنے مظالم پر معافی مانگیںاور کشمیر کے پرامن حل کیلئے ہٹ دھرمی ترک کردیں۔ میں دنیا بھر کے ہر دردمند انسان سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کشمیر کے ایشو کو انسانیت کا مسئلہ سمجھ کر اجاگر کرے، سول سوسائٹی کو بھارت پر دباؤ برقرار رکھنا چاہئے، ہرمذہب کے رہنما کو کشمیری عوام کی حمایت میں آواز بلند کرنی چاہئے،اسی طرح میڈیا کو تمام ترمشکلات کےباوجودمقبوضہ کشمیرکی غیرجانبدارانہ رپورٹنگ کرنی چاہئے۔پاکستانی ہندو کمیونٹی اکتیس اگست کو وزیراعظم عمران خان کی عمرکوٹ تھرپارکر آمد پر دل کی گہرائی سے خوش آمدید کہنے کیلئے بے چین ہے،اگلے مرحلے میں ہندو کمیونٹی خیبرپختونخوا، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ایل او سی پر کشمیری عوام کے ساتھ اظہاریکجہتی کرے گی۔ وقت آگیا ہے کہ گزشتہ 72 برسوں سے جاری کشمیریوں کی پرامن جدوجہد کو نتیجہ خیز بنایاجائے، اس کارخیر میں کامیابی کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔ میرا ارادہ ہے کہ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے سرحد کے دونوں پار کی سول سوسائٹی اور میڈیا کو ساتھ لے کرعنقریب مقبوضہ کشمیر کا دورہ کروں تاکہ مودی حکومت کو کشمیریوں کے حقوق کی پامالی سے باز رکھا جاسکے اور مظلوم کشمیریوں کی دادرسی کی جاسکے۔ موجودہ حالات میں یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور یہی ہر مذہب کا درس۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)