ضلع شکارپور میں بڑھتے ہوئے دیگر سنگین جرائم کے ساتھ ایک بار پھر اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ ویسے بھی طویل عرصے سے ضلع شکارپور ڈاکؤں اور جرائم پیشہ عناصر کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، جہاں سے روزانہ قتل، اغوا اور ڈکیتیوں کے ان گنت واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ان واقعات میں متواتر اضافہ ہوتا جارہا ہے اور دیگر شہروں کے مقابلے میں شکارپور سمیت ، لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں سرِ فہرست ہیں۔ضلع شکارپور کی چاروں تحصیلوں خانپور،گڑھی یاسین، لکھی غلام شاہ اور شکارپور سمیت دیگر مختلف مقامات سے لوگوں کو اغوا کرکے کچے کے علاقوں میں قید کردیا جاتا ہے، جہاں سے مغویوں کے ورثاء سے بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد انہیں چھوڑا جاتا ہے۔ ان سارے واقعات میں سے متعدد ایسے ہیں جن میں پولیس ڈاکؤں سے مقابلوں کے بعد مغویوں کی بازیابی کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر ان مقابلوں کے دوران ڈاکوؤں کا کوئی جانی نقصان یا گرفتاریاں سامنےکیوں نہیں آتیں۔
نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق خانپور سے اغواہونے والےتین نوجوان مغویوں کی بازیابی کے حوالے سےڈی ایس پی خانپور کی جانب سے کی جانے والی پریس کانفرنس کے فوری بعداچانک ایک اور خبر آئی کہ کچے کےعلاقے میں ڈاکوؤں نے اسلحے کے زور پرچھ افراد کو اغوا کرلیاہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ پریس کانفرنس کےدوران ڈی ایس پی نے تیغانی برادری کے سردار تیغو خان تیغانی اور ان کے بیٹے کوگرفتار کرنے کا بھی عندیہ دیا تھا۔ حالیہ مغویوں میں لوک فنکار نبی بخش چانڈیو عرف جگر جلال،ان کے بیٹے آفتاب چانڈیو، بھتیجےامیر علی چانڈیو سمیت عبداللطیف تنیو، سیدجنید شاہ اور ڈرائیور بہادر علی کھاوڑ شامل ہیں۔ ڈاکوؤں نے راستے میں سید جنید شاہ کوآزاد کردیا، جس نے ڈاکوؤں کے چنگل سے بچ نکلنے کے بعد فوری طور پرتھانہ ناپر کوٹ پہنچ کر پولیس کو واقعے سے آگاہ کیا۔ مذکورہ واردات کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ، ڈی آئی جی لاڑکانہ عرفان بلوچ نے اے ایس پی شکارپور امجدفاروق بٹر کوڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرنےاور مغویوں کو بازیاب کرانے کے احکامات جاری کئے۔احکامات ملتے ہی ڈی ایس پی خانپور راؤ شفیع اللہ کی قیادت میں پولیس نفری نے کارروائی کرتے ہوئےمختلف مقامات پر چھاپے مارنے کے بعد شک کی بنیاد پر کچھ افراد کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔جگر جلال چانڈیواور ان کے چار ساتھیوں کی بازیابی کے لئےڈی ایس پی خانپور کی قیادت میں پولیس کی بھاری نفری نے گڑھی تیغو کے کچے میں آپریشن کیا ۔ مقابلے کے دوران ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ اور ایک اہل کار بابر شاہ شدید زخمی ہوگئے۔انہیں تشویش ناک حالت سول اسپتال شکارپور لایاگیا، جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ڈی ایس پی جاں بحق ہوگئے،جبکہ زخمی اہلکار کوشکار پور اسپتال میں ناکافی سہولتوں کی بنا پرسکھر اسپتال منتقل کردیا گیا۔
خانپور کے قریب پہلے بھی اغوا کی کئی وارداتیں ہوتی رہی ہیں لیکن اس بار ڈی ایس پی کی شہادت کے بعد اس واقعے نے اہم موڑاختیار کرلیا۔ جس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ایک سندھی نیوز چینل پر ڈاکوؤں کی قید میں مغوی جگر جلال کی گفتگو نشر کی گئی۔ جس میں اس نے پولیس کو ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن بند کرنے اور بااثر وڈیروں اور علاقائی معززین کی شراکت سے مذاکرات پر زور دیا۔ جگر جلال چانڈیو کی گفتگو نشر ہونے کے بعد شکارپور میں بڑھتی ہوئی بدامنی کےبھڑکتے ہوئے شعلوں کا ذکرسندھ اسمبلی کے ایوان تک پہنچ گیا۔
نمائندہ جنگ کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پولیس کے اندر کچھ کالی بھیڑوں کی موجودگی کا بھی انکشاف ہواہے، جن کاصفایا ہونے سے پہلے کسی قسم کا کوئی آپریشن کامیاب ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔جلال چانڈیو کے اغوا کے چار روزکے بعدعلاقہ معززین کے تعاون سے لوک فنکار جگر جلال کوساتھیوں سمیت بازیاب کرالیا گیا۔اے آئی جی سکھر جمیل احمد نے اپنے دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ مغویوں کی بازیابی پولیس کی جانب سے ڈاکؤں پر دباؤ کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔ جرائم کے بڑھتی ہوئی وارداتوں کے بعد ایس ایس پی ساجد امیر سدوزئی کی جگہ ڈاکٹر محمد رضوان خان کو ایس ایس پی شکارپور تعینات کیا گیا ہے۔ شکارپور کے کچے میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف طویل عرصے سے جاری آپریشن میں پولیس کونقصان اٹھانا پڑا۔دو ماہ قبل تحصیل لکھی غلام شاہ کے علاقے چک کے قریب کچے کے علاقے میں ڈاکؤں سے مقابلے کے دوران ایس ایچ او لکھی غلام شاہ غلام مرتضیٰ میرانی اور اے ایس آئی ذوالفقار پنہورشہید اور تین پولیس اہلکار جہانزیب،رسول بخش اور صدام حسین شدید زخمی ہوئے تھے۔